یونیورسٹی یا انتہا پسندوں کی دنیا؟


یہ بات ہے 2014 میں تین ستمبر کی صبح کی۔

کراچی یونی ورسٹی میں انتہا پسندی کے خاتمے کے حوالے سے ایک سیمینار ہوا جس میں جامعہ کراچی کی اسلامک اسٹڈیز کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر شکیل اوج، جامعہ کراچی کے استاذ پروفیسر وحیدالرحمان المعروف یاسر رضوی، جعفریہ الائنس کے سربراہ علامہ عباس کمیلی اور جامعہ بنوریہ کے سربراہ مفتی نعیم کے داماد مولانا مسعود بیگ کے علاوہ جماعت اسلامی کراچی کے سابق امیر معراج الہدی صدیقی بطور مقرر شریک تھے۔

سیمنار کے تین دن بعد چھ ستمبر کو علامہ عباس کمیلی کے صاحبزادے اکبر کمیلی کو قتل کردیا گیا۔ اس قتل کے چوتھے دن سیمینار میں شریک مفتی نعیم کے داماد مولانا مسعود بیگ قتل کردیئے گئے۔

اور ستمبر کی 18 تاریخ کو سیمنار کے روح رواں ڈاکٹر شکیل اوج کا بھی قتل ہوگیا۔

ali-akbar-kumaili

ڈاکٹر شکیل اوج کے قتل کی ذمہ داری القاعدہ برصغیر نے قبول کی، یہ قتل معمولی نوعیت کا نہیں تھا، جامعہ کراچی میں شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے سربراہ ڈاکٹر شکیل اوج دوسال سے پولیس اور یونی ورسٹی انتظامیہ کو درخواستیں دے رہے تھے کہ انہیں گستاخ رسول قرار دے کر جان سے مارا جاسکتا ہے۔

ڈاکٹر شکیل اوج کے خلاف قتل سے پہلے ایک ایس ایم ایس مہم بھی چلائی گئی کہ وہ گستاخ رسول اور واجب القتل ہیں، جامعہ دارالعلوم کراچی کا ایک جعلی فتویٰ بھی پھیلایا گیا جس سے بعد میں مفتی رفیع عثمانی نے کسی بھی قسم کے تعلق سے انکار کیا۔

Dr. Shakil Auj

ڈاکٹر شکیل اوج کے قتل کے خلاف مقدمہ یونی ورسٹی کے ہی ایک پروفیسر عبدالرشید کے خلاف درج ہوا مگر وہ گرفتاری کے بعد ضمانت پر رہا ہوگئے۔

ڈاکٹر شکیل اوج کا اختلاف کراچی یونی ورسٹی کے پروفیسرز سے تھا اور بدلہ القاعدہ نے لیا، اس معاملے نے صورت حال کو مشکوک کردیا۔

ایک سیمینار سے جڑی اس سیریل کلنگ کا سلسلہ 2015 میں اپریل کی 19 تاریخ کو پروفیسر وحید الرحمان عرف یاسر رضوی کے قتل تک آپہنچا، یہ بھی انتہاپسندی کے خلاف ہونے والے سیمینار میں شریک تھے اور ڈاکٹر شکیل اوج کے قتل کی تحقیقات میں پیش پیش بھی تھے۔

Maulana-Masood baig

بظاہر تین ستمبر 2014 سے شروع ہونے والی کہانی یہاں پر ختم ہوگئی مگر اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ایک طوفان جگہ بنا رہا تھا اور اس طوفان کی نشان دہی تین سال بعد یعنی دو ستمبر 2017 کو عیدالاضحیٰ کے دن اس وقت ہوئی جب ایم کیو ایم رہنما اور سندھ اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہارالحسن پر حملہ ہوا۔

خواجہ اظہارالحسن پر حملے میں حسان اسرار نامی نوجوان ملوث تھا جو موقع پر ہلاک ہوگیا، حسان سرسید کالج اور این ای ڈی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرچکا تھا اور اس کے پاس انجینئرنگ کی ڈگری تھی، وہ داؤد انجینیئرنگ یونیورسٹی میں بحیثیت لیب انجینئر ملازمت کرتا تھا، اس کے والد ڈاکٹر اسرار بھی ایک نجی یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔

حسان اسرار کی شناخت کے بعد پولیس نے اس کے رابطوں کی چھان بین کی اور عید کے تیسرے روز کراچی یونی ورسٹی کے قریب سے دانش کو گرفتار کیا، دانش انہی پروفیسر عبدالرشید کا بیٹا ہے جو ڈاکٹر شکیل اوج کے قتل کے مقدمے میں گرفتار رہ چکے ہیں۔ پولیس نے گرفتار ملزمان کی نشاندہی پر کنیز فاطمہ سوسائٹی سے دو نوجوان گرفتار کرلیے جو کراچی یونی ورسٹی کے پبلک پالیسی ڈیپارٹمنٹ میں زیرتعلیم تھے۔

گرفتار ملزمان کی نشان دہی پر ہی کراچی میں روفی روز پیٹل بنگلوز میں پولیس نے چھاپہ مارا تو وہاں پولیس پارٹی کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، مزاحمت کے بعد عبدالکریم سروش صدیقی، طلحہ و دیگر ملزمان سمیت فرار ہوگیا، سروش صدیقی کراچی یونی ورسٹی کے اپلائیڈ فزکس ڈیپارٹمنٹ کا طالب علم ہے جبکہ اس کے والد ایک لیکچرار ہیں، سروش صدیقی خواجہ اظہار کے حملہ آور حسان اسرار کا قریبی دوست بھی ہے۔

اگلے روز یعنی پانچ ستمبر کو گرفتار ملزمان کی نشان دہی پر کراچی کے علاقے ڈیفنس میں پولیس نے حساس اداروں کے ساتھ کارروائی کرتے ہوئے انصارالشریعہ نامی تنظیم کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کو چلانے والے عبداللہ ہاشمی کو گرفتار کرلیا اور یہیں سے یہ بات یقینی ہوگئی کہ خواجہ اظہار پر حملے میں ملوث ملزمان کا تعلق انصار الشریعہ نامی تنظیم سے ہے جو پڑھے لکھے افراد پر مشتمل ہے۔

Waheedur Rehman-Yasir Rizvi

عبداللہ ہاشمی نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ پولیس والے انہیں بار بار تنگ کرتے تھے اور انہوں نے انتقام لینے کے لیے انصار الشریعہ بنا لی تاکہ معاشرے کے برے لوگوں کو سزا دے سکیں۔

عبداللہ ہاشمی کی نشان دہی پر کراچی پولیس کا ایک افسر بھی گرفتار ہوا جو انصار الشعریعہ کا رکن تھا، پولیس نے نشان دہی کی بنیاد پر جامعہ کراچی کی اسٹاف کالونی کے بلاک سی اور ڈی میں چھاپے مارے اور چار طالب علموں کو حراست میں لے لیا گیا، زیرحراست طالب علموں کا تعلق جامعہ کراچی کے شعبہ اردو اور کيمسٹری سے ہے۔

پانچ ستمبر کو کراچی پولیس کو ایک کامیابی اس وقت ملی جب کوئٹہ ٹاؤن میں مقابلے کے دوران خورشید اقبال نامی ملزم ہلاک ہوگیا، خورشید اقبال کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ ملا فضل اللہ کا کزن اور ملالہ یوسف زئی پر حملے میں ملوث تھا جبکہ اس کا تعلق انصار الشریعہ سے بھی تھا۔

ستمبر کی چھ تاریخ کو کراچی پولیس نے انصارالشریعہ پاکستان کے سربراہ کو گرفتار کرلیا، یہ سربراہ کون ہے، پولیس نے اس کا نام ابھی تک نہیں بتایا ہے تاہم اس کی عرفیت استاد ہے، یہ استاد کسی کالج میں پڑھاتا ہے جبکہ خود ماسٹرز کا طالب علم ہے

ستمبر کی سات تاریخ کو پولیس نے ملتان میں چھاپہ مار کر طلحہ کو گرفتار کرلیا، یہ وہ طلحہ ہے جو خواجہ اظہار پر حملہ آور حسان اسرار کے دوست سروش صدیقی کے ساتھ عید کے تیسرے روز پولیس کے چھاپے کے دوران فرار ہوا تھا۔ طلحہ کی نشان دہی پر بہاول پور سے کاشف، احمد شفیق، محمدعابد، سلیم اللہ اور کامران کو گرفتار کرلیا گیا، کاشف، محمدعابد، سلیم اللہ اور طلحہ ماسٹرز کے طالبعلم ہیں، احمد شفیق اورکامران ایم فل کے طالبعلم ہیں، کامران احمد اور سلیم اللہ کا تعلق بہاولپور سے ہے۔

پولیس نے اسی روز کوئٹہ سے کراچی یونی ورسٹی کے پروفیسر مشتاق کو انصارالشریعہ سے تعلق کے الزام میں گرفتار کیا، پشین سے مفتی حبیب اللہ بھی گرفتار ہوئے۔  مفتی حبیب اللہ کے بارے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ وہ جمعیت علمائے اسلام حیدرآباد کے راہنما ہیں اور ان کے کراچی اور حیدرآباد میں مدرسے بھی ہیں۔

پروفیسر مشتاق نے پولیس کو بتایا کہ انہوں نے سروش اورعبداللہ ہاشمی کو مفتی حبیب اللہ سے ملایا، پروفیسر مشتاق نے بتایا کہ انہیں یونی ورسٹیوں کے لڑکوں کو تربیت دینے کا ٹاسک ملا تھا، پروفیسر مشتاق کی نشان دہی پر ٹنڈو آدم سے دو نوجوان بھی گرفتار ہوئے، پروفیسر مشتاق خواجہ اظہار پر حملے میں مارے جانے والے ملزم حسان اسرار کے ماموں بھی ہیں۔ پروفیسر مشتاق نے چار لڑکیوں کی بھی نشان دہی کی جو انصار الشریعہ کی جانب سے نوجوانوں کی برین واشنگ پر مامور تھیں، ان میں سے دو لڑکیاں نجی یونی ورسٹیوں میں زیرتعلیم بھی ہیں اور ابھی تک گرفتار نہیں ہوئیں۔

یہ ایک کے بعد ایک گرفتاریوں کا سلسلہ ہے، ہر ملزم دوسرے کی نشان دہی کررہا تھا، آٹھ ستمبر کو سہراب گوٹھ کہکشاں سوسائٹی سے ملزم ساجد گرفتار ہوا جو انصارالشریعہ کے افراد سے رابطے میں تھا، ملزم ساجد اعلی تعلیم یافتہ اور نجی کمپنی میں ملازم ہے، ایک پولیس اہل کار اور تاجر کو بھی انصارالشریعہ سے رابطوں کے الزام میں گرفتار کیا گیا

سندھ کے ڈی جی رینجرز کے بتایا کہ سوائے دو خاندانوں کے جتنی بھی گرفتاریاں ہوئیں، والدین نہیں جانتے تھے کہ ان کے بچے کسی انتہا پسند تنظیم سے وابستہ ہیں، میجر جنرل محمد سعید نے اس بات پر حیرانی کا اظہار کیا کہ بچے رات رات بھر موبائل فون پر مصروف رہتے، اکثر گھر سے غائب ہوجاتے مگر اس کے باوجود والدین نے ان کی کوئی فکر نہیں کی۔

فرروی 2017 میں کراچی میں پولیس فاؤنڈیشن کے محافظ پر حملہ ہوا، اپریل میں ریٹائر کرنل طاہر کو قتل کیا گیا اور دونوں کی ذمہ داریاں انصارالشریعہ نے قبول کیں اور یہیں سے اس تنظیم کا نام پہلی بار سامنے آیا تھا، انہوں نے اب تک کراچی میں سات کارروائیاں کی ہیں جن میں رمضان میں چار پولیس اہل کاروں کا قتل بھی شامل ہے، گرفتار افراد کے مطابق انہوں نے پولیس اہل کاروں کا قتل اس لیے کیا تھا کہ وہ رمضان میں رشوت لے رہے تھے، عزیز آباد کے علاقے میں اگست میں ہونے والی ڈی ایس پی کی ہلاکت میں بھی انصار الشریعہ کے افراد ملوث بتائے جاتے ہیں۔

اگست میں انصارالشعریعہ سے ایک دلچسپ کارروائی منسوب ہے کہ انہوں نے ناردرن بائی پاس پر تین افراد کو قتل کیا اور ایک پمفلٹ چھوڑا جس میں لکھا ہوا تھا کہ پولیس رضا کار کی ہلاکت کا بدلہ لیا گیا ہے، پمفلٹ میں یہ بھی تحریر تھا کہ اگر دہشت گرد دشمن ممالک کی ایجنسیوں کی ایما پر پولیس کو نشانہ بنائیں گے تو وہ انھیں اور ان کے اہل خانہ کو نشانہ بنائیں گے

پولیس کے مطابق انصارالشعریعہ ایک ماہانہ میگزین بھی شائع کرتی تھی، اس میگزین میں پاکستان کے کچھ معروف برانڈز باقاعدگی سے اشتہارات بھی دیتے تھے۔ انصارالشریعہ کے گرفتار ہونے والے تمام ملزمان اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اپرمڈل کلاس خاندانوں سے ہیں، عموما یہ طبقہ کیرئیر کے علاوہ کسی دوسرے معاملے میں نہیں پڑتا مگر ان وجوہات کو تلاش کرنا ہوگا کہ اب اس طبقے کے لوگ آخر کیوں قانون شکنی پر آمادہ ہوگئے، یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ اگر پروفیسر ڈاکٹر شکیل اوج کے قتل کے تحقیقات مؤثر طریقے سے کی جاتیں تو یہ سلسلہ مزید نہ پھیل پاتا، پروفیسر شکیل اوج انتہا پسندی کے خلاف ایک مؤثر آواز تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).