این اے 120: چند فیصلہ کن محرکات


قومی اسبملی کے حلقہ 120 کا ووٹر ہونے کی بدولت انتخابی مہم سے نتائج کے اعلان تک سارے عمل کا قریب سے مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ جہاں بیگم کلثوم نواز کی کامیابی توقع کے مطابق سچ ثابت ہوئی وہیں بہت سے غیر متوقع اور غیر معمولی رجحانات بھی سامنے آئے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلم لیگ ن، پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی تینوں بڑی جماعتوں کے ووٹوں پر کئی محرکات نے گہرا اثر ڈالا:

قومی اسمبلی کے حلقہ این اے120 میں لاہور میٹروپولیٹن کارپوریشن کے25 حلقے آتے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات میں ان تمام حلقوں سے مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے چیئرمین منتخب ہوئے۔ ڈپٹی چیئرمین اور کونسلرز کی تعداد اس سے الگ ہے۔ ہر نمائندہ بیگم کلثوم نواز کے لیے ووٹوں کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لیتا نظر آیا۔ وفاقی وزیر تجارت پرویز ملک، صوبائی وزیر خوراک بلال یاسین، صوبائی وزیر پرائمری ہیلتھ خواجہ عمران نذیر، رکن پنجاب اسمبلی ماجد ظہور براہ راست پوری مہم میں مسلسل سرگرم رہے۔ حکومتی عہدیداروں کی جانب سے عوامی رابطہ مہم کافی کارگر ثابت ہوئی۔

الیکشن شیڈول کا اعلان ہونے کے بعد حلقے میں عرصہ دراز سے تکمیل کے منتظر ترقیاتی کام دن رات ایک کر کے مکمل کر لئے گئے۔ ادھوری پائپ لائنز ہوں یا سڑکوں کا پیچ ورک یا سٹریٹ لائٹس، ضمنی الیکشن کے بہانے حلقے کے رہائشیوں کی سنی گئی اور بغیر سفارش سارے کام ایک ایک کر کے ہوتے چلے گئے۔ یہ جاننے کے لیے کہ حلقہ 120 کی حد کہاں ختم ہوتی ہے اور 121 کی کہاں سے شروع ہوتی ہے آپ کو کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں، سڑکوں کی حالت آپ کو خود بتا دے گی کہ آپ کا حلقہ بدل گیا ہے۔ تحریک انصاف اور دوسری جماعتوں کی طرف سے ترقیاتی کاموں پر اعتراض بھی کیا گیا لیکن ان کی شنوائی نہ ہوئی۔

یہ حلقہ تین دہائیوں سے شریف فیملی کا ہوم گراؤنڈ رہا ہے جس کے باعث کئی خاندانوں اور محلوں میں مسلم لیگ ن کو ووٹ دینے کی روایت جڑ پکڑ گئی ہے۔ ایک کے بعد ایک عام انتخابات اور بلدیاتی الیکشنز میں مقامی قیادت کو بھی بار بار آگے بڑھنے کا موقع ملتا رہا جس سے حلقے میں جماعت کی بنیادیں مضبوط سے مضبوط تر ہوتی رہیں۔ موجودہ ا لیکشن میں بھی ایسے نمائندوں اور کارکنوں کی بڑی تعداد باہر نکلی۔ ن لیگ اور پیپلزپارٹی سے بد دل ووٹرز جو تحریک انصاف کے حامی بن چکے ہیں وہ بھی میدان میں نظر آئے اور انہی کی بدولت ڈاکٹر یاسمین راشد اتنے ووٹ لینے میں کامیاب ہوئیں۔

ضمنی الیکشن کے نتیجے سے اخذ کیا جا سکتا ہے کہ پانامہ کیس کے فیصلے نے حلقے کے ووٹرز کو زیادہ متاثر نہیں کیا۔ بہت سارے ووٹرز سے اس موضوع پر بات کرنے پر جواب ملا کہ اگر نواز شریف نے کھایا ہے تو لگایا بھی تو ہے۔ کئی کا کہنا تھا کہ باقی سب چوروں کو چھوڑ کر صرف نواز شریف پر ہاتھ ڈالنا کہاں کا انصاف ہے جبکہ بہت سوں کو یقین ہے کہ پانامہ کیس دراصل نوازشریف کے خلاف سازش ہوئی۔ دوسری طرف ڈاکٹر یاسمین راشد نے اپنی مہم کے دوران پانامہ کیس کا بار بار ذکر کیا لیکن بظاہر ووٹرز نے ووٹ ڈالتے ہوئے اس مقدمے کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا۔

انتخابی کاغذات میں بھلے ہی ڈاکٹر یاسمین راشد کا مقابلہ کلثوم نواز سے تھا لیکن عملی میدان میں انہیں مریم نواز کا سامنا کرنا پڑا۔ مریم نواز نے بھرپور انداز سے اپنے والد اور والدہ کی کمی پوری کی۔ عام ووٹر ان کو اپنے درمیان دیکھ کر ان کی شخصیت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ انہوں نے کئی کئی گھنٹوں طویل ریلیوں کی قیادت کی اور پورے حلقے میں ووٹرز سے رابطہ کیا۔ دوسری جانب ڈاکٹر یاسمین راشد کی گھر گھر جانے کی مہم بھی اپنی مثال آپ ثابت ہوئی۔ بقول ان کے اپنے انہوں نے پچاس ہزار کے قریب گھروں میں خود جا کر ووٹ مانگا۔ ان کی مؤثر رابطہ مہم نے بھی ان کے ووٹوں کی تعداد پر مثبت اثرا ڈالا۔

تحریک لبیک یا رسول اللہ اور مسلم لیگ ملی اگرچہ الیکشن کمیشن آف پاکستان میں رجسٹرڈ سیاسی جماعتیں نہیں تاہم ان کے حمایت یافتہ امیدواروں نے پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی سے کئی گنا زیادہ ووٹ حاصل کر کے نتائج کو حیران کن اور ان جماعتوں کے لیے پریشان کن بنا دیا۔ تحریک لبیک یا رسول اللہ کے اظہر حسین رضوی 7130 ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر جبکہ ملی مسلم لیگ کے شیخ محمد یعقوب 5822 ووٹوں کے ساتھ چوتھے نمبر پر رہے۔ مذہبی رجحانات کے حامل ووٹر کو روایتی طور پر ن لیگ کا ووٹر سمجھا جاتا ہے۔ اگر یہ دونوں جماعتیں میدان میں نہ اترتیں تو کہا جا سکتا ہے کہ بیگم کلثوم نواز کے ووٹوں میں 13 ہزار ووٹوں کا اضافہ ہو جاتا اور ان کی فتح کا فرق 27 ہزار ووٹوں تک بڑھ سکتا تھا۔

ترقیاتی کاموں اور لوڈشیڈنگ کے معاملے میں زرداری دور میں لاہور کے ساتھ جو سلوک کیا گیا وہ اہل لاہور بالعموم اور اس حلقے کے شہری بالخصوص آج تک نہیں بھولے۔ مجھے خود یاد ہے کہ اٹھارہ گھنٹے تک لوڈ شیڈنگ کی جا رہی تھی اور ہر روز کسی نہ کسی علاقے میں خانہ جنگی کا منظر نظر آتا تھا۔ درجنوں دوست احباب نے ن لیگ کو ووٹ دینے کی ایک بڑی وجہ یہی بتائی کہ زرداری نے کیا حال کر دیا تھا ہمارے شہر کا، ن لیگ نے آ کر ہی ہمیں سکھ کا سانس دیا۔ ان کا زرداری حکومت پر دوسرا الزام یہی ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی لوٹ کر کھا گئی، نواز شریف نے موٹروے بنائی اور اب سی پیک بنا رہا ہے۔

سرکاری میڈیا پر مریم نواز کی ریلیوں کی جس طرح کوریج کی گئی اس کی مثال نہیں ملتی۔ نہ اشتہارات کی پرواہ کی گئی نہ ہیڈ لائنز کی، حتی کہ رات نو بجے کا سب سے اہم خبرنامہ بھی مریم نواز کی مسلسل براہ راست کوریج پر قربان کیا جاتا رہا۔ پرائیویٹ میڈیا پر بھی ن لیگ نے اپنا اثر و رسوخ بھرپور انداز سے استعمال کیا۔ مجموعی طور پر میڈیا نے انتخابی مہم کے دوران مریم نواز کو 80 اور یاسمین راشد کو20 فیصد وقت دیا۔

تحریک انصاف کا عمومی تاثر یہی ہے کہ پڑھے لکھے ووٹر اس کے حامی ہیں۔ یہ تاثر اس الیکشن میں اور بھی نمایاں ہو گیا ہے۔ مریم نواز کی سنت نگر، اسلام پورہ، آؤٹ فال روڈ جیسے علاقوں میں زبردست مہم اور مقامی لیگی عہدیداروں کی جانب سے بے پناہ دولت کا استعمال بھی پڑھے لکھے ووٹرز کو زیادہ متاثر نہیں کرسکا۔ اس کے برعکس ساندہ، بلال گنج، ملک پارک اور راوی روڈ جیسے علاقوں میں جہاں شرح خواندگی نسبتاً کم ہے، ن لیگ کو بڑے مارجن سے ووٹ ملے۔

حلقے میں موجود بے روزگاروں کی فوج کا ووٹ فطری طور پر ن لیگ کے سوا کسی بھی جماعت کو جانا چاہئے تھا لیکن حیران کن طور پر ساندہ خورد،راوی روڈ، موہنی روڈ، شام نگر، راج گڑھ، نیشنل ٹاؤن میں انہیں بے روزگاروں نے ن لیگ کو جتوایا۔ ن لیگ کے دفاتر کھولنے کے لیے ملنے والی رقم ہی ان کے لیے ن لیگ کو ووٹ دینے اور ووٹ ڈلوانے کا بہت بڑا جواز بن گئی۔ ۔

حلقہ این اے 120 کے اس ضمنی انتخاب نے الیکشن کمیشن کی کمزوریوں کا پردہ ایک مرتبہ پھر چاک کر دیا۔ ہر امیدوار کے لیے قانون کے مطابق 40 لاکھ تک کے اخراجات کی حد مقررتھی لیکن حلقے میں لگے پوسٹرز، بینرز اور انتخابی دفاتر سے اندارہ ہوتا تھا کہ بڑی جماعتوں کے کسی ایک امیدوار نے بھی کروڑوں روپے سے کم اخراجات نہیں کئے ہوں گے۔ الیکشن شیڈول جاری ہونے کے بعد متعلقہ حلقے میں ہر قسم کے ترقیاتی کاموں پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے لیکن یہاں دن رات ترقیاتی کام جاری رہے، امیدوار شور مچاتے رہے، الیکشن کمیشن لمبی تان کر سوتا رہا۔ پولنگ والے دن امیدوار ووٹروں کو کھلم کھلا ٹرانسپورٹ مہیا کرتے رہے لیکن الیکشن کمیشن نے قوانین کی اس خلاف ورزی پر بھی کوئی ایکشن نہ لیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).