2018ء میں مذہبی جماعتوں کا اتحاد قائم ہو گا


لاہور میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 120 کے ضمنی انتخاب میں جہاں پیپلز پارٹی کو بری طرح شکست ہوئی وہیں جماعت اسلامی 600 ووٹ بھی پورے نہ کر سکی۔ لیکن دو نئی سیاسی جماعتیں اُبھر کر سامنے آئیں ہیں۔ شدت پسند خیالات رکھنے والی دائیں بازو کی دو تنظیموں نے نئے ناموں سے ضمنی انتخاب میں شرکت کی جسے سیاسی مبصرین مستقبل کی سیاست کے لیے خطرہ قرار دے رہے ہیں اور ساتھ ہی اِن جماعتوں کے آئندہ عام انتخابات میں ایک اتحاد کی شکل اختیار کرنے کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔ اِن میں پہلی جماعت تحریکِ لبیک پاکستان اور دوسری ملی مسلم لیگ ہے۔

سینیئر صحافی و تجزیہ کار امتیاز عالم نے بی بی سی سے گفتگو میں بتایا کہ اتوار کو وہ انتخابی حلقے میں موجود تھے اور لبیک پارٹی اور ملی مسلم لیگ کے کیمپوں پر اُنھوں نے خاصہ رش دیکھا۔ امتیاز عالم کے مطابق ‘یہ بڑی خوفناک بات ہے کہ اِنھوں نے اپنی جڑیں پکڑ لی ہیں اور اِنھوں نے جماعت اسلامی طرز کی جماعتوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ یہ سول سوسائٹی اور معاشرے کے لیے خطرناک پیش رفت ہے۔’

اُنھوں نے بتایا کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا یہ منصوبہ تھا کہ شدت پسند جماعتوں کو انتہا پسندی سے باز رکھنے کے لیے سیاسی راستہ دیا جائے اور آئندہ عام انتخابات میں یہ مذہبی جماعتیں ایک اتحاد کی صورت میں تیسری یا چھوتھی بڑی قوت کے طور پر سامنے آئیں گی اور اتوار کا ضمنی انتخاب دراصل اُس کی تیاری تھی۔

امتیاز عالم کا کہنا تھا کہ ‘ضمنی انتخاب میں ایک سزا یافتہ شخص کے نام پر اور اُس کی تصاویر مہم کے دوران دکھا کر ووٹ مانگا گیا اور کسی نے اُس کو روکا نہیں یہ ریاستِ پاکستان کی دہری پالیسی کو ظاہر کرتا ہے۔’

لاہور میں قومی اسمبلی کے حلقہ 120 میں اتوار کے روز ضمنی انتخاب میں لبیک پارٹی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار شیخ اظہر نے 7130 ووٹ حاصل کیے جبکہ ملی مسلم لیگ کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار یعقوب شیخ نے 5822 ووٹ حاصل کیے۔

اُدھر لاہور میں ہی مقیم ایک سینیئر صحافی اور شدت پسندی پر کئی آرٹیکلز کے مصنف عامر میر نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ آئندہ انتخابات میں مذہبی جماعتوں کا اتحاد قائم ہوگا اور پاکستان تحریکِ انصاف کے ساتھ ملایا جائے گا۔ اُن کے مطابق ایسا کرنے پر کوئی اعتراض نہیں کرے گا کیونکہ تحریکِ انصاف کی مقبولیت خاصی ہو چکی ہے۔

اُدھر آزاد اُمیدوار شیخ اظہر کی حمایت کرنے والی جماعت تحریکِ لبیک پاکستان کے مرکزی ناظم نشرو اشاعت پیر محمد اعجاز اشرفی نے بی بی سی کو بتایا کہ اُن کی تنظیم اپنا اُمیدوار کھڑا کرنا چاہتی تھی لیکن الیکشن کمیشن نے اُنہیں انتخابی نشان نہیں دیا اور کسی آزاد اُمیدوار کی حمایت کرنے کی صلاح دی۔ اُن کا دعویٰ تھا ‘یہ حکومت ہماری مقبولیت سے خائف ہے اور ہمارے علما اور مشائخ کو فورتھ شیڈول میں ڈالا گیا اور مقدمات درج کیے گئے۔’

ملی مسلم لیگ کی حمایت رکھنے والے آزاد اُمیدوار یعقوب شیخ نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے اِس بات کو مسترد کیا کہ ملی مسلم لیگ غیر قانونی تنظیم جماعتہ الدعوۃ کا سیاسی نام ہے۔

ایک سوال کے جواب میں یعقوب شیخ نے کہا کہ ‘فوج کے بغیر حکومت نہ کرکٹ میچ کرا سکتی ہے نہ انتخاب۔ اِن (مقتدر سیاسی جماعتوں) کی صورتحال یہ ہے کہ انھوں نے فوج کے ساتھ خدا واسطے کا بیر پالا ہوا ہے۔ ہم نے اپنی سیاست کی ہے۔ اگر وہ (فوج) ہمارے پیچھے ہوتے تو ہم یہ نشست جیت جاتے، پھر صورت حال یہ نہ ہوتی۔’

ملی مسلم لیگ کے انتخابی کیمپ میں پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگائے جانے پر اُن کا کہنا تھا کہ اُنہیں فخر ہے اِس بات پر۔ انہوں نے کہا کہ اگر نواز شریف نریندر مودی کو گھر بلا سکتے ہیں اور جندال کو مری میں سیر کرا سکتے ہیں تو پھر وہ تو اپنے ملک کی فوج کو سراہ رہے ہیں۔

)عبداللہ فاروقی(


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32495 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp