کالا پتھر پی کر مرنے والے اور مرنے والیاں…


گھر والے زبردستی شادی کرنا چاہتے ہیں، جہاں آپ چاہتے ہیں، وہاں کے لیے نہیں مانتے۔ امتحان میں ناکامی، حالات کی سختی، وٹے سٹے کے مسائل، محبوب نے دھوکا دیا ہے، والدین کی ڈانٹ ڈپٹ سمیت ہر روز شعبہ حادثات میں آنے والے ہر فرد کی مختلف کہانی ہوتی ہے لیکن گندم میں رکھنے والی گولیوں سے سپرے تک سب کو ایک زہرِ قاتل نے پیچھے چھوڑ دیا اور یہ کالا پتھر ہے۔۔۔ کہنے کو سفید ہے، بال رنگنے کی خاطر استعمال ہوتا تھا۔ جانے کس ناہنجار نے پہلی بار خودکشی کا یہ انوکھا طریقہ سوچا اور اب آئے روز لوگ کالا پتھر پی کر ہسپتال پہنچے ہوتے ہیں۔ اس سے زیادہ سفاک اور آسانی سے دستیاب ہونے والی شے شاید ہی کوئی اور ہو، ڈینگی کی وبا پھیلتی ہے، چکن گونیا کی پھیلتی ہے، اب یہ سب دیکھ کر لگتا ہے یہاں کالا پتھر پی کر مرنے کی وبا پھیلی ہوئی ہو، جس سے کم ہی لوگ بچ کر نکلے ہیں۔

بنیادی مراکز صحت ، رورل ہیلتھ سینٹر سمیت بہت سی چھوٹی جگہوں پہ ایسے انسان کی زندگی بچانے کے لیے سہولیات ناکافی ہوتی ہیں۔ اکثر اوقات کسی بھی ایسی شے کے استعمال کے ایک دو گھنٹے بعد ہی کوئی ہسپتال پہنچتا ہے اور تب تک حالت اتنی بگڑ چکی ہوتی ہے کہ وہاں سے بھی ان کو آگے کسی بڑے شہر بھیجنا پڑتا ہے۔ وہ گولڈن ٹائم جس میں کسی کو بچایا جا سکے سواری کے انتظام، ایمبولینس کے انتظار اور فاصلوں کی الجھن میں نکل جاتا ہے۔ ایسی ہی ایک بگڑی حالت والے مریض کو بچانے کی ہر کوشش ناکام ہو جائے تو اس لمحے غصہ، ہمدردی، افسوس، دکھ، بے بسی، معلوم نہیں، کون کون سا احساس غالب ہوتا ہے۔

آج ایسی ہی ایک خاتون جنہیں یہ محلول پینے کے دو گھنٹے بعد ہسپتال لایا گیا ان کی حالت دیکھ کر دکھ ہو رہا تھا۔ ایک اور زندگی وٹے سٹے کی روایت کی بھینٹ چڑھ گئی۔ کل کو اس کا بھائی، نند، شوہر سب اپنی زندگیوں میں مگن ہو جائیں گے کہ آخر موت کسی کی بھی ہو، زندگی ٹھہرتی تو نہیں ہے۔ بس اس سارے سلسلے میں جیت سب کی ہوئی، سبھی کی انا جیت گئی اور ایک زندگی ہار گئی۔ زندگی ایک ہی بار ملتی ہے، اسے کسی کی محبت کی خاطر، کسی ایڈونچر کے چکر میں، اپنی کوئی ضد منوانے کی خاطر داؤ پر لگانا مناسب نہیں ہے۔

بڑے ہسپتالوں میں جو لوگ زندہ بچ جائیں انہیں سائیکاٹرک کاؤنسلنگ کی خاطر بھیجا جاتا ہے گو کہ وہاں بھی لوگ برا مناتے ہیں مگر چھوٹے شہروں میں تو ایسا سوچنا بھی محال ہے۔ کبھی والدین گلہ کرتے ہیں کہ بچے کسی کی نہیں سنتے تو کبھی اولاد کہتی ہے ہمارے لئے تو وقت ہی نہیں، گھریلو جھگڑے، مار پیٹ، روایات کا جبر کتنا کچھ ہے جو لوگوں کو یہ انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کر رہا ہے ۔ کچھ سال قبل شاہ نواز نامی میڈیکل کالج کے ایک سٹوڈنٹ نے خودکشی کی تھی تو مبشر علی زیدی کی سو لفظوں کی کہانی کا ایک جملہ تھا، میڈیکل کالج مسیحا بناتے ہیں، مسیحا بچاتے نہیں۔ امتحان دوبارہ بھی دیا جا سکتا ہے، زندگی دوبارہ نہیں ملتی۔ مسیحا بن کر بھی کہیں انسان کا اختیار ختم ہو جاتا ہے اور وہ ایسی ہی جگہ ہے۔ اسے کوئی مسائل سے چھٹکارا کہتا ہے تو کوئی حالات سے فرار اختیار کرنا۔ کسی کو بھی جوانی میں ایسی تکلیف دہ موت مرتے دیکھنا بےانتہا اذیت کا باعث ہے۔ سب کی زندگی آگے بڑھ بھی جائے تو وہ ایک زندگی بہرحال کھو جاتی ہے اور کوئی نہ کوئی پیارا ایسا ہوتا ہے جسے جینا بھول جاتا ہے۔۔۔ مگر اب دیکھنے والا وہ ایک شخص نہیں رہتا، جسے زندگی میں گلہ تھا کہ اسے کوئی پیار نہیں کرتا۔

اپنے بچوں سے بات کریں، ان کی سنیں۔ وہ مضمون جو انہیں پسند نہیں، اسے ان کا کیریئر بنانے پر زور مت ڈالیں۔ وہ الفت و وارفتگی جو آج ہے، شاید کل نہ رہے تو ایسے کسی اظہار پر سخت ردعمل دینے سے اچھا ہے اسے بہتر طریقے سے ہینڈل کریں۔ روایات کے نام پر جبر کی حمایت کرنا مناسب نہیں۔ نہ ہی شادی ہو جانا سب مسائل کا حل ہے نہ ہی شادی ختم ہو جانا اصل مسئلہ ہے۔ معاشرے میں پھیلی تنگ نظری، فرسودگی، دقیانوسیت اور رشتوں کے بیچ انا کی جنگ میں خسارہ ہی خسارہ ہے۔ یہ سستا سا کالا پتھر کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ اربابِ اختیار کے مسائل گو کہ این اے 120، پانامہ، جنرل الیکشن، عدالتی فیصلہ، نااہلی، اقامہ اور بیانیہ ہیں لیکن اگر آپ کچھ کرنا چاہتے ہیں تو کم از کم اس کالے پتھر کی خرید و فروخت پہ پابندی لگا دیں۔ سپرے اور گندم میں رکھنے والی گولیوں سمیت بہت سے عام طریقوں کو اس کالے پتھر نے پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ انجیو ایڈیما میں گئے ایک مریض جس کی سانس کی نالیاں پھول چکی ہوں اسے سانس لینے میں سخت دشواری کا سامنا ہو، وہ اتنی تاخیر سے اتنی بری حالت میں پہنچے کہ زیادہ کچھ کرنے کی مہلت دیے بغیر ہی مر جائے تو اس پابندی کا مطالبہ اتنا بےجا بھی نہیں ہے۔ جنوبی پنجاب کی حد تک یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ یہاں پچھلے کچھ عرصے میں کالا پتھر پینے والوں کی اموات کا سلسلہ بہت بڑھ گیا ہے۔ یہ کالم خودکشی کے عوامل، نفسیاتی مطالعے اور شخصی رجحانات جیسے موضوعات کا احاطہ کرنے کے لئے لکھا بھی نہیں ہے، یہ بس ایک گزارش ہے کہ مختلف ٹی وی چینلز پر اس حوالے سے پیکج اور رپورٹس دکھائی جا چکی ہیں، یہ بھی انہی کوششوں میں سے ایک کوشش ہے کہ کوئی کارروائی کی جائے اور اس زہرِ قاتل کی خرید و فروخت ممنوع قرار دی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).