جرگے کے حکم پر کرنٹ لگا کر قتل کیے جانے والے جوڑے کے گھروں کا حال


اس کے شوہرکو، سسرال والوں کو، برادری کو سب کو بیٹے کی خواہش تھی، لیکن ایک کے بعد ایک بیٹی پیدا ہوتی چلی گئی، دس بیٹیوں کے بعد اس نے دو بیٹوں کو یکے بعد دیگرے جنم دیا اور یوں وہ سب کے سامنے سرخرو ہوئی۔ وہ کراچی کے مضافات میں واقع ایک چھوٹے سے گوٹھ میں رہتی ہے۔ شاید ہم اس کے بارے میں کبھی جان نہیں پاتے، اگر ضیاء ا لرحمن اپنے اخبار میں یہ خبر شائع نہیں کرتے کہ کراچی میں جرگے کے فیصلے کے نتیجے میں نو عمرجوڑے کو بجلی کا کرنٹ لگا کے ہلاک کر دیا گیا۔ مرنے والی اس کی دس بیٹیوں میں سے ایک تھی۔ اور اس کا قصور یہ تھا کہ اسے محبت ہو گئی تھی۔ اور جرگے کے نزدیک محبت سے بڑا جرم اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ سندھ ہائی کورٹ جرگے کے انعقاد کو غیر قانونی قرار دے چکا ہے لیکن شمال مغربی علاقے سے روزگار کی تلاش میں کراچی آ کر آباد ہونے والے یہ لوگ اپنی روایات کو قانون سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔

اٹھارہ ستمبر کو نزہت شیریں مجھے اپنے ساتھ اس ہولناک واقعے کی تفصیلات جاننے کے لئے ابراہیم حیدری پولیس اسٹیشن لے گئیں۔ واضح رہے کہ نزہت حال ہی میں سندھ کے صوبائی کمیشن برائے وقار نسواں کی چئیر پرسن منتخب ہوئی ہیں۔ پہلے ہم نے ابراہیم حیدری سے فشر فوک فورم کے جمیل جونیجو، افضل شیخ اور ایوب شان کو ساتھ لیا اور پھر تھانے پہنچے۔ پورے علاقے میں سڑی ہوئی مچھلی کی نا قابل برداشت بساند پھیلی ہوئی تھی لیکن وہاں کے باسی اب اس بو کے عادی ہو چکے ہیں۔ تھانے والے پہلے تو ہمیں دیکھ کر حیران ہوئے اور پھر سر سے بلا ٹالنے والا رویہ اختیار کیا۔

ڈیوٹی افسر نے ہماری آمد کا مقصد جاننے کے بعد سپاہی سے کہا ’ان کو تحقیقاتی افسر کے پاس لے جاؤ‘۔ ہمیں دوسرے کمرے میں بیٹھے ہوئے شخص کے پاس لے جایا گیا۔ ایک دو سوالوں کے بعد اس نے پریشان ہو کر کہا ’جی میں تحقیقاتی افسر نہیں ہوں۔ میں تو منشی ہوں۔ اس مقدمے کی ایف آئی آر ہمارے تھانے میں درج ہوئی تھی لیکن دو دن بعد یہ مقدمہ دوسرے تھانے منتقل کر دیا گیا تھا‘۔ ہم نے سوچا، پہلے ہم مقتولین کے اہل خانہ سے مل لیتے ہیں۔ جمیل کا خیال تھا کہ سیکورٹی کے خدشات کے پیش نظر ہمیں ایک دو سپاہیوں کو ساتھ لے کر جانا چاہئیے۔ ڈیوٹی افسر سے بات کی تو اس نے کہا کہ اس علاقے میں ایک پولیس چوکی ہے ’میں انہیں فون کر دیتا ہوں، وہاں سے ایک موبائل آپ کے ساتھ جائے گی‘۔ لیکن جب ہم وہاں پہنچے تو پولیس چوکی والوں نے کہا ’ہمیں تو کوئی فون نہیں آیا‘۔ چنانچہ ہم نے اپنے رسک پر وہاں جانے کا فیصلہ کیا۔ اس واقعے کو ایک ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا ہے لیکن علاقے میں ابھی تک خوف و ہراس کی فضا طاری تھی۔ لوگ بات کرنے کو تیار نہیں تھے۔ بالآخر ایک شخص نے ہمیں لڑکی کا گھر دکھایا۔

یہ سیمنٹ کا بنا ہوا دو منزلہ چھوٹا سا مکان تھا۔ میں اور نزہت نیم تاریک زینہ چڑھ کر اوپر گئے، کچھ بچے اور ایک بوڑھی عورت ریلنگ کے پاس آ کر کھڑی ہو گئی۔ ’آپ لڑکی کی ماں ہیں؟ ’نہیں میں اس کی چاچی ہوں‘ اس نے کہا کہ اسے اردو نہیں آتی اور پشتو بولنا شروع ہو گئی۔ اور پھر وہاں موجود بچے ہمارے مترجم بن گئے۔ ہم اندر گئے تو بہت سی عورتیں، لڑکیاں اور بچے نظر آئے۔ ان کی آنکھوں میں خوف کے ساتھ ساتھ تجسس بھی تھا۔ ہم نے بتایا کہ ہم ان کا دکھ بانٹنے اور ان سے تعزیت کرنے آئے ہیں۔ لڑکی کی ماں کون ہے؟ ہم نے پوچھا۔ مترجم بچے نے ایک لمبی چوڑی عورت کی طرف اشارہ کیا اور پشتو میں اسے ہماری آمد کا مقصد بتایا۔ ’’میں نے معاف کیا‘‘ یہ پہلا جملہ تھا جو اس کے منہ سے نکلا۔ میں اور نزہت اس کی شکل دیکھتے رہ گئے۔ اور پھر چاچی بولنا شروع ہو گئی۔ وہ ہمیں سمجھانا چاہ رہی تھی کہ لڑکی تو مر گئی لیکن اس عورت کا اور اس کے باقی بچوں کا کیا ہو گا۔ کون انہیں کما کر کھلائے گا۔ گھر کے مرد جیل چلے گئے ہیں۔ اور عورتیں تو کچھ کر نہیں سکتیں۔ اس لئے الیکٹرک کرنٹ لگا کر مار دی جانے والی بچی کی ماں بار بار کہہ رہی تھی ’میں نے معاف کیا‘۔ تا کہ اس کی بچی کا قاتل واپس گھر آ جائے، اس کے پاس رہے اور اسے اور باقی بچوں کو کما کر کھلائے۔ جب ہم نے واقعے کی تفصیل پوچھی تو ساری عورتوں کا ایک ہی جواب تھا کہ ہم سب شادی پرگئے ہوئے تھے۔ ’تو پھر وہ لڑکی کیسے گھر پہ تھی؟ ’’اسے گھر کی دیکھ بھال کے لئے چھوڑ گئے تھے‘‘۔ جب کہ ایک بچے نے بتایا کہ اس روز ان سب کو یہاں سے ہٹا دیا گیا تھا۔

لڑکے کا گھر بالکل سامنے ہی تھا۔ سامنے لکڑی کا ٹال تھاجو خاندان کا ذریعہ ء روزگار تھا اور اس کے پاس ہی دروازے پر ایک میلا سا کپڑا لٹک رہا تھا۔ ایک بوڑھی عورت ہمیں اندر لے گئی۔ اندر ایک خوبصورت مگر سوگوار عورت قران شریف پڑھ رہی تھی۔ وہ لڑکے کی ماں تھی۔ جب کہ بوڑھی عورت اس افتاد کی وجہ سے اس کے پاس رہنے آئی ہوئی تھی۔ لڑکے کی ماں کا بھی یہی کہنا تھا کہ واردات کے وقت وہ گھر پہ موجود نہیں تھی بلکہ گاؤں گئی ہوئی تھی۔ جب ہم رخصت ہونے لگے تو ماں رونا شروع ہو گئی۔ میں نے اسے گلے سے لگا لیا لیکن اس کے غم کا مداوا میرے پاس نہیں تھا۔ وہ بھی چاہتی تھی کہ اس کے بیٹے کا قاتل گھر واپس آجائے اور دوسری عورت کا کہنا تھا کہ باپ نے بیٹے کو قتل نہیں کیا بلکہ جرگے والوں نے قتل کیا تھا۔ بہرحال دو معصوم جانیں جاہلانہ رسم و رواج کی بھینٹ چڑھ گئیں اور جرگے میں شامل افراد جن میں ان بچوں کے باپ، چچا اور ماموں بھی شامل تھے، اب جیل میں ہیں۔

کل سے میں یہی سوچ رہی ہوں۔ آخر انصاف کا مفہوم کیا ہے۔ مجرموں کو تو آپ نے جیل میں ڈال دیا لیکن اب ان کے بچے اور عورتیں جو فاقہ کشی کا شکار ہوں گے۔ ان کی مدد کون کرے گا؟ کیا ریاست کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ ان عورتوں اور بچوں کا کیا قصور ہے۔ ریاست کو ان کی کفالت کا کوئی انتظام کرنا چاہئیے۔ لڑکے اور لڑکی کی ماؤں کے سوگوار چہرے میں کبھی بھلا نہیں پاؤں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).