ہاروی طوفان کا آنکھوں دیکھا حال


شہر والوں کو کیا خبر کہ کوئی
کون سے موسموں میں زندہ ہے

ہاروی طوفان ریاست ٹیکساس میں تباہی پھیلا رہا تھا اور میں ٹی وی کے آگے بیٹھا، دم بخود، صغیر ملال کا یہ شعر پڑھتا جاتا تھا۔ نیو یارک میں ملاقات کے دوران، تاریخ دان دوست ربیکا نے پوچھا تھا کہ ٹیکساس میں کہاں قیام کرو گے؟ گیلوسٹن (Galveston) کا نام سن کر وہ چونکی اور کہا: تم جانتے ہو کہ یہ طوفانوں کا موسم ہے اور گیلوسٹن تو اس حوالے سے بدنام ہے۔ میں نے اس وقت تو ہنس کر ٹال دیا تھا لیکن دماغ میں ایک گرہ سی لگ گئی تھی۔ ہیوسٹن (Houston) جو آبادی کے لحاظ سے امریکہ کا چوتھا بڑا شہر ہے، گیلوسٹن جزیرے سے ستر میل کے فاصلے پر ہے۔ ہیوسٹن، وہ شہر کہ جہاں کئی برس انتظار کے بعد کچھ خوش گوار وقت گزارا تھا۔ نیو یارک سے ہیوسٹن پہنچا تو حسب معمول، گستاوو(Gustavo) کے ہاں پڑاؤ ڈالا۔ گستاوو جیسے مہربان لوگ میں نے کم ہی دیکھے ہیں کہ جو مشکل وقت میں آپ کے کام آئیں اور جن پر بھروسہ کیا جا سکے۔ اس نے میرے مختصر قیام کے دوران مجھ سے کرایہ طلب نہیں کیا بلکہ الٹا مجھے اپنی گاڑی پر گیلوسٹن چھوڑ کر آیا۔ گیلوسٹن جزیرے کو ہیوسٹن سے ملانے کے لئے کئی مضبوط پل موجود ہیں۔ سولہویں صدی میں جب یہ علاقہ میکسکو کے زیر نگیں تھا تو اس علاقے کے گورنر گیلویز (Galvez) کے نام پر خلیج میکسکو کے کنارے اس جزیرے کو گیلوسٹن کا نام دیا گیا تھا۔ انیسویں صدی میں ٹیکساس ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا حصہ بنا تو گیلوسٹن میں بندر گاہ قائم کی گئی اور یہ جزیرہ امریکہ کے جنوبی حصے کی تجارتی کارروائی کا مرکز بن گیا۔ انیسویں صدی کے اختتام تک گیلوسٹن کا شمار امریکہ کے بڑے تجارتی مراکز میں ہوتا تھا۔ اس دوران یورپ سے ہجرت کرنے والے بہت سے افراد اس جزیرے پر قیام پذیر ہوئے۔ ٹیکساس میں پہلی دفعہ بجلی کے بلب یہاں روشن ہوئے، پہلا اوپرا ہاوس یہاں تعمیر ہوا، پہلا گالف کلب، بینک، پہلا ٹیلی فون، پہلا ہسپتال اور پہلا میڈیکل سٹور بھی یہاں قائم ہوا۔ گیلوسٹن کے باسیوں کی امارت اور شاہانہ طرز زندگی کے قصے زبان زد عام تھے۔

انیسویں صدی میں ہیوسٹن ایک دلدلی علاقہ تھا جہاں کچی سڑکیں اور کیچڑ بھری گلیاں موجود تھیں اور امن وامان کی صورت حال ابتر رہتی۔ گیلوسٹن کے لوگ، ہیوسٹن والوں کی جانگلی اور اجڈ سمجھتے تھے۔ جزیرے پر کشادہ سڑکیں تھیں، یورپی طرز کے گھر اور ان میں مقیم تہذیب یافتہ شہری۔ ہر عروج کو بالآخر زوال آنا ہے۔ ستمبر سنہ 1900ء میں گیلوسٹن نے اپنا پہلا زوال دیکھا۔ ایک ہیبت ناک سمندری طوفان نے جزیرے کو تہس نہس کر دیا۔ اس طوفان کی زد میں آ کر لگ بھگ چھے ہزار افراد لقمئہ اجل بنے۔ ابھرتی ہوئی سمندری موجوں کے باعث جزیرہ کی آدھی سے زیادہ عمارتیں زمین بوس ہو گئیں۔ اس قیامت خیز واقعے کے بعد شہر کے حکام کو ہوش آیا اور انہوں نے ساحل پر سطح سمندر سے سترہ فٹ بلند سمندری دیوار (Seawall) تعمیر کی۔ طوفان کے بعد جزیرے پر بسے تین امیر خاندانوں نے حکومت کی باگ دوڑ اپنے ہاتھ میں لی اور تعمیر نو کے لئے اپنا سرمایہ بھی استعمال کیا۔ لیکن اس طوفان نے گویا گیلوسٹن کی کمر توڑ دی اور اگلی صدی میں ترقی ہیوسٹن کا مقدر بنی۔ گیلوسٹن میں آخری بڑا طوفان سنہ 2005ء میں آیا تھا جس کے آثار اب بھی جزیرے کے مختلف مقامات پر دیکھے جا سکتے ہیں۔

ہر سال جون سے نومبر کے دوران امریکہ کے ساحلی علاقے سمندری طوفانوں کے لئے تیار رہتے ہیں۔ ان مہینوں کے دوران بحر اوقیانوس میں پانی گرم رہتا ہے اور ہوا کو کھینچ کر طوفان بن سکتا ہے۔ اس برس اگست کے اختتام پر سمندر میں طوفان بننے کی اطلاعات موصول ہو رہی تھیں۔ گیلوسٹن کی تاریخ کے باعث میں خوف زدہ تھا کہ کہیں طوفان میں نہ گھر جاوٴں لیکن موسمی پیش گوئی کے مطابق ہیوسٹن میں سیلاب کا خطرہ زیادہ تھا۔ طوفان کی آمد سے ایک رات قبل کچھ دوستوں کے ہمراہ کیرولین کے گھر ’سیلاب پارٹی‘ پر گیا تو اس نے طوفان کے دوران ٹھکانے کی پیشکش کی۔ اس کا گھر سمندر کے نزدیک، لیکن بلندی پر ہے اور بارہ برس قبل طوفان کے دوران محفوظ رہا تھا۔ میں نے کچھ دیر سوچنے کے بعد اس کی پیشکش قبول کر لی اور طوفان کے دوران اس کی طرف رہا۔ طوفان کا پہلا دن جمعے کے روز تھا۔ میں حسب معمول لائبریری پہنچا تو وہاں ہو کا سماں تھا۔ ابھی پڑھائی کا آغاز کیا ہی تھا کہ ایک لائبریرین نے بتایا کہ یہ عمارت خالی کروائی جا رہی ہے، آپ اپنا کوئی اور بندوبست کریں۔ میں ملحقہ ہسپتال چلا گیا اور کچھ دیر پڑھائی کے بعد قریبی گروسری سٹور کا رخ کیا کہ طوفان کی پیش نظر ضروری اشیاء سٹاک کر لی جائیں۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ آدھے سے زیادہ کاوٴنٹر خالی ہیں اور محدود اشیاء دستیاب ہیں۔ کیرولین کے گھر پہنچا تو وہاں پہلے سے کافی سامان موجود تھا۔ طوفان کا آغاز تیز ہوا اور بارش سے ہوا۔ سمندر سے زمین پر جس جگہ طوفان لینڈ کرتا ہے اسے Landfall کہتے ہیں اور جس علاقے میں یہ واقعہ پیش آتا ہے وہاں طوفان کی شدت سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ ہاروی نے ہم سے تین سو کلومیٹر دور Corpus Christi نامی علاقے میں لینڈ کیا اور آہستہ آہستہ ہیوسٹن کی جانب بڑھنے لگا۔ اتوار کے روز طوفان کے اثرات ہیوسٹن تک پہنچ چکے تھے۔ گیلوسٹن میں وقفے وقفے سے بارش ہوتی اور تیز ہوا کے جھونکے چلتے۔ ایک رات ہوا اتنی تیز تھی کہ ڈر تھا کہیں چھت ہی نہ اڑا کر لے جائے۔ ہفتے کے روز کئی گھنٹے بجلی کے بغیر گزارے۔ بدھ تک طوفان نے ہمیں ڈرائے رکھا لیکن گیلوسٹن کے کچھ نشیبی علاقوں میں سیلاب کے علاوہ ہمیں کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ہیوسٹن میں موجود احباب سے مسلسل رابطہ قائم تھا اور دن کا زیادہ تر وقت ٹی وی یا موبائل پر خبریں دیکھنے میں صرف ہوتا رہا۔ ہیوسٹن میں سڑکیں نالوں کی شکل اختیار کر گئیں اور گاڑی چلانا ممکن نہ رہا۔

طوفان کی وجہ سے صرف جانی نقصان ہی نہیں بلکہ معاشی اور سماجی نقصان بھی پہنچتا ہے۔ روزگار کی عدم دستیابی کے باعث دیہاڑی کمانے والے بے روزگار ہوتے ہیں، جرائم کی سطح بڑھ جاتی ہے، بے گھر ہونے والےافراد دربدر ذلیل ہوتے ہیں۔ خوف کا سماں طوفان گزر جانے کے بعد بھی موجود رہتا ہے۔ روزمرہ استعمال کی اشیاء (خوراک، پانی، پیٹرول) کی دستیابی مشکل ہو جاتی ہے۔ دن کا بیشتر وقت گھر کے اندر گزارنا اور ہر وقت ممکنہ آفت کا خوف وحشت کا سبب بنتا ہے۔ اس وحشت کو Cabin Fever کہتے ہیں اور یہ عام طور پر ملاح، لمبے بحری سفر کے دوران اس کا شکار بنتے ہیں۔ محتاط اندازے کے مطابق امریکہ میں فی گھرانہ گاڑیوں کا تناسب   ہیوسٹن میں سب سے زیادہ ہے۔ طوفانی بارش کے باعث سیلاب میں گاڑیوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ ہاروی کے باعث کم از کم دو لاکھ گاڑیوں کو نقصان پہنچا۔ اس طوفان کے دوران انسانی ہمدردی اور ایثار کے مظاہروں کو بیان کرنے کے لئے الفاظ ناکافی ہیں۔ ہیوسٹن سے تعلق رکھنے والے celebrities کے علاوہ ملک بھر سے امداد موصول ہوئی۔ سرکاری ادارے تو ایک طرف، عام لوگوں نے جس طرح اپنی بساط کے مطابق اجنبی افراد کی مدد کی، وہ قابل تحسین ہے۔ ہیوسٹن میں سیلاب کے باعث بے گھر ہونے والوں کے شیلٹر کے باہر رضاکاروں کا تانتا بندھ گیا اور وہ قطار ایک میل سے زیادہ لمبی تھی۔ شیلٹر انتظامیہ کو اعلان کرنا پڑا کہ ہماری ضرورت پوری ہو گئی ہے، آپ اپنی خدمات دوسرے اداروں کو سونپ سکتے ہیں۔ ہمسایہ ریاست لویزیانا میں سنہ2005ء میں ایسا طوفان آیا تو وہاں کچھ رضاکاروں نے ایک تنظیم بنائی جو نجی کشتیوں اور ٹرکوں کے ذریعے پانی میں گھرے افراد کو بچانے کا کام کرتی تھی۔ ہاروی کی خبر ملتے ہی اس تنظیم کے افراد اپنی کشتیوں اور ٹرکوں سمیت ہیوسٹن پہنچے اور بلا معاوضہ طوفان زدہ افراد کی مدد کی۔ گیلوسٹن میں ایک ٹور کمپنی کی دو گاڑیاں Amphibian طرز کی ہیں یعنی خشکی اور پانی میں چل سکتی ہیں۔ طوفان کے دوران وہ گاڑیاں بھی بلامعاوضہ متاثرین کی مدد کے لئے استعمال کی گئیں۔ پانی میں گھرے ایک بزرگ نے مشہور فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ Chick Fil-A کو فون پر دو برگر اور ایک چھوٹی کشتی کا آرڈر لکھوایا۔ آدھ گھنٹے کے اندر ان تک دونوں اشیاء اس برانچ کا مینیجر خود لے کر پہنچا۔

پاکستان میں زلزلے اور سیلاب کے بعد حالات دیکھ رکھے ہیں۔ یہاں صورت حال چنداں مختلف تھی۔ پاکستان کے مقابلے میں یہاں جانی نقصان کم ہوا۔ سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر طوفان سے متعلق معلومات اور ہدایات جاری کی گئیں۔ اگر کسی علاقے میں پانی کی سطح ایک حد سے بڑھ جاتی تو وہاں کے باسیوں کو لازمی طور پر محفوظ مقامات کی جانب منتقل ہونے کی ہدایت کی جاتی اور اس مقصد کے لئے تمام وسائل بروئے کار لائے جاتے۔ ہوائی طوفان یعنی Tornado یا سیلاب کی آمد سے قبل متعلقہ علاقے میں ہر موبائل فون پر انتباہی ٹیکسٹ میسج وصول ہوتا تھا۔ کچھ علاقوں میں حالات اتنے بگڑ گئے کہ فوجی دستوں کو طلب کرنا پڑا۔ امن و امان کی صورت حال بھی متاثر ہوئی اور کچھ لوگوں نے موقعے سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی لیکن پولیس والے طوفان کے باوجود ڈیوٹی سر انجام دیتے رہے۔ اسی طرح کچھ دوکانداروں نے اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں وقتی طور پر اضافہ کیا۔ ایک ہفتے کے دوران اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ اس نقصان کا ازالہ کرنے میں کئی سال لگ جائیں گے۔

ا

عبدالمجید عابد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عبدالمجید عابد

عبدالمجید لاہور کے باسی ہیں اور معلمی کے پیشے سے منسلک۔ تاریخ سے خاص شغف رکھتے ہیں۔

abdulmajeed has 36 posts and counting.See all posts by abdulmajeed