پاکستانی حکمرانوں کی بیماریاں (2)


حکمرانوں میں ایوب خان کی بیماری نے سب سے بڑھ کر افواہوں اور وسوسوں کوجنم دیا۔ قدرت اللہ شہاب نے اس تقریب کا احوال لکھا ہے، جس میں ان کی طبعیت بگڑی :

’’ 29جنوری 1968ء کے روز اردن کے شاہ حسین کراچی آئی ہوئے تھے۔ اسی شام راولپنڈی کے انٹرکونٹی نینٹل میں ان کا عشائیہ تھا۔ صدر ایوب جب ہوٹل پہنچے تو ان کا رکھ رکھاؤ اور چہرہ مہرہ ان کے معمول کے حساب سے نارمل نظر نہ آتا تھا۔ دعوت کے ہال میں داخل ہونے سے پہلے وہ سیدھے بار (شراب خانہ) گئے۔ اور ایک گلاس میں بہت سی وہسکی ڈلوا کر پانی۔۔۔یا سوڈا واٹرملائے بغیر اسے ایک ہی سانس میں غٹا غٹ چڑھا گئے۔ اس کے بعد یہی عمل انھوں نے چند بار دہرایا۔ وہ شراب پیتے ضرور تھے لیکن اس طرح کھڑے کھڑے ندیدوں کی طرح نیٹ وہسکی کے گلاس پر گلاس چڑھانا ان کا دستور نہ تھا۔ ہوٹل کی بار میں میں اسی طرح کئی گلاس پینے کے بعد ان کی آواز کس قدر خمار آلود ہو گئی۔

کھانے کے بعد جب وہ پہلے سے تیار کردہ لکھی ہوئی تقریر پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے تو غالباً ان کا عارضہ قلب ان کے رگ وپے میں کسی نہ کسی صورت میں رینگنا شروع ہوچکا تھا۔ ان کی طبیعت ہرگز ٹھکانے نہ تھی۔ یہاں تک کہ اپنی تقریر پڑھتے پڑھتے وہ بیک بار اس کے دو ورق الٹ گئے۔ اور انھیں اپنی اس غلطی اور بے ربطی کا احساس تک نہ ہوا۔ اور و ہ بدستور آگے پڑھتے چلے گئے۔ دعوت ختم ہونے کے بعد جب وہ ایوان صدر واپس گئے تو اسی رات ان پر نہایت شدید ہارٹ اٹیک ہوا۔‘‘

اس صورت حال میں یحییٰ خان فوراً حرکت میں آگئے۔ ایوان صدر پر قبضہ جمالیا اور بیرونی دنیا سے اپنے باس کا رابطہ کاٹ کر ان کا پتا کاٹنے کا چارہ کرنے لگے۔ چند بندوں کے سوا ایوان صدر میں کسی کو آنے کی اجازت نہ تھی۔ سنیئر وزیر خواجہ شہاب الدین کو گیٹ سے موڑ دیا گیا، جس سے انھیں شک گزرا کہ شاید نیا انقلاب ہو گیا ہے اور ایوب خان مقید ہیں۔ اور تو اور ایوب خان کی ناک کا بال سمجھے جانے والے الطاف گوہر کو بھی اذن حضوری نہ ملا۔ ایک میڈیکل بلیٹین صدر کی صحت کے بارے میں جاری کیا جاتا، جس کے متن کی صحت پر کوئی یقین نہ کرتا۔ نامور براڈ کاسٹر برہان الدین حسن کے بقول’’ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی نے سرکاری ہدایات کے مطابق پہلے خبر دی کہ صدر کو انفلوئنزا ہوگیا ہے چند دن بعد وائرس سے ہونے والے نمونیہ کی خبر دی گئی جب وہ کئی ہفتے بستر علالت سے نہ اٹھ سکے توکہا گیا کہ وہ  pulmonary embolismکے عارضہ میں مبتلا ہیں۔ یہ انتہائی خطرناک مرض ہے جو جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔

جب عارضہ کی بابت خبر ریڈیو پاکستان کے نیوز ڈیسک پرپہنچی توسوال پیدا ہوا کہ اس بیماری کا اردو میں کیا ترجمہ کیا جائے۔ وزارت اطلاعات سے مشورہ کرنے کے بعد طے پایا کہ اس کا اردو میں ترجمہ نہ کیا جائے اور انگریزی لفظ ہی استعمال کیا جائے تاکہ سامعین کی اکثریت اس مہلک بیماری کی ماہیت کوقطعاً نہ سمجھ سکے۔ ‘‘

ایوب خان پر بیماری کا حملہ اس قدر مہلک تھا کہ خود انھیں جانبر ہونے کا یقین نہ تھا،اس لیے انھوں نے فرزند دلبند گوہر ایوب سے کاغذ قلم مانگا اور کہا ’’میں بچ نہیں سکوں گا۔ تم مجھ سے وعدہ کرو کہ مرنے کے بعد مجھے ریحانہ میں میری والدہ کی قبر کے پہلو میں دفن کرو گے۔ ‘‘

گوہر ایوب نے اپنی کتاب ’’ایوان اقتدار کے مشاہدات ‘‘میں بتایا ہے کہ ہانگ کانگ کے دورے کے دوران جب یحییٰ خان سے پوچھا گیا کہ پاکستان کا آیندہ صدر کون ہو گا تو موصوف نے اپنی طرف اشارہ کیا۔ یحییٰ خان کو لگتا تھا کہ ایوب خان نہیں بچیں گے مگر ان کی امیدوں پر اوس پڑ گئی۔ مغربی پاکستان کے گورنر جنرل موسیٰ سے ملاقات کی تصویراخبارات کو جاری کی گئی، لیکن لوگوں کے ذہنوں سے شکوک رفع نہ ہوئے۔ اس کے بعد ٹی وی پر بھی صدرکی رونمائی ہوئی لیکن بات بنی نہیں۔ صدرکی بحالی صحت کا یقین لوگوں کواسی وقت آیا جب انھوں نے قوم سے خطاب کیا، بقول الطاف گوہر ’’یحییٰ خان اور ان کا سازشی ٹولہ اقتدار کی غلام گردش میں جس خاموشی سے داخل ہوا تھا اسی طرح چپکے سے نکل گیا۔ لیلائے اقتدار ان کے پہلو سے آنکھ بچا کر نکل گئی تھی مگر وہ پرامید تھے کہ اقتدار کی منزل اب بہت دور نہیں ہے۔‘‘ تندرست ہونے کے بعد ایوب خان نے سرکاری فرائض انجام دینے شروع کر دیے، لیکن بقول اصغرخان ’’ ان میں پہلی سی توانائی نہ رہی اور وہ اپنے ان مشیروں پر زیادہ انحصار کرنے لگے، جن کی اپنی حیثیت مشکوک تھی۔‘‘ ایوب خان کی ڈائریوں میں بیماری کا ذکر ہے سیاسی ریشہ دوانیوں کا نہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو کے اپنے دورحکومت میں بیمار پڑنے کی خبردبا لی گئی تھی۔ 1974 میں تقریباً پانچ ہفتے ڈاکٹر نصیر شیخ نے وزیر اعظم ہاؤس میں خفیہ طور مقیم رہ کر ان کا علاج کیا۔ نصیر شیخ بیماری کے نوعیت بتانے سے گریز کرتے ہیں، البتہ اتنا ضرور کہتے ہیں کہ معاملہ اتنا گمبھیرتھا کہ بھٹو اپنا عہدہ چھوڑنے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوگئے تھے۔ یہ معلومات گذشتہ برس’’ ڈان‘‘ میں نصیر شیخ کے حوالے سے سامنے آئیں، جن میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ وہ اپنی خود نوشت پر کام کررہے ہیں جو تکمیل کے مراحل میں ہے۔ نصیر شیخ کے بقول، وہ پہلی دفعہ بھٹو سے اس وقت متعارف ہوئے جب اگست 1971 میں انھوں نے کراچی میں اپنے کلینک میں ان کا ہرنیا کا آپریشن کیا۔ بھٹو ان سے اس درجہ مطمئن ہوئے کہ ان کو ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ مقرر کیا۔ پیپلز پارٹی کے بانی چئیرمین سے قرب کے باعث ضیا دور میں وہ زیر عتاب بھی رہے۔

قائد اعظم، غلام محمد اور ایوب خان اس اعتبار سے خوش قسمت تھے کہ وہ زمانہ الیکٹرانک میڈیا اور اینکروں کا نہ تھا وگرنہ ان کی بیماری کی خبریں خوب مرچ مسالہ لگا کر پیش کی جاتیں۔ الیکٹرانک میڈیا کو آصف علی زرداری اور نوازشریف نے اپنی بیماری کے دوران خوب بھگتا۔ دونوں سیاسی بحران کے دنوں میں علاج کرانے بیرون ملک گئے،اس لیے بھی قیاس آرائیوں نے زیادہ سر اٹھایا۔

آصفزرداری میمو گیٹ اسیکنڈل کے باعث شدید دباؤ میں آکر بیرون ملک سدھارے۔ کسی نے کہا کہ انھیں فالج ہو گیا تو کسی نے لقوہ ہونے کی خبر اڑائی۔ امریکی جریدے فارن پالیسی میگزین نے دعویٰ کیا کہ زرداری میمو سیکنڈل کی وجہ سے بہت زیادہ دباؤ میں ہیں اور طبی بنیادوں پر صدارت کے عہدے سے سبکدوش ہو سکتے ہیں۔ سب خبریں باطل ثابت ہوئیں اور زرداری قصر صدارت میں واپس آ گئے۔

وزیر اعظم نوازشریف کے بیٹوں کا نام پانامہ لیکس میں آنا،ان کے لیے پریشانی اور خفت کا باعث بنا۔ قوم سے اور پارلیمنٹ میں خطاب میں انھوں نے اپنی پوزیشن واضح کرنے کی بہتیری کوشش کی، لیکن سب بے سود گیا۔ ان پر سیاسی دباؤ بڑھ رہا تھا کہ ایسی خبریں آنی شروع ہوئیں کہ ان کی طبیعت ناساز ہے، جس کی وجہ پانامہ لیکس کو قرار دیا گیا۔ قیاس آرائیوں کو اس وقت بڑھاوا ملا جب یہ خبر نکلی کہ وزیر اعظم اپنے چیک اپ کے لیے لندن جائیں گے۔ اس پر کسی نے کہا کہ وہ آصف علی زرداری کے دربار میں حاضری دینے گئے ہیں، تو کسی نے فرمایا، اس دورے کا تعلق پانامہ لیکس سے ہے۔ مائنس ون فارمولے کی بات بھی اڑی۔ متبادل وزرائے اعظم کے نام پیش ہوئے۔ اور تو اور ان کے بیمار ہونے کی خبرکی صحت سے انکار ہوا اور اسے لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹنے کی چال بتایا گیا۔ شہباز شریف کی پانامہ لیکس کے معاملے میں خاموشی اور نواز شریف کا دفاع نہ کرنے کی یہ شرح ہوئی کہ دونوں میں لڑائی ہے۔ یہ تبصرہ بھی ہوا کہ شریف خاندان میں سیاسی وراثت کا تنازع پیدا ہوگیا ہے۔ ایک صاحب نے نواز شریف کی وطن واپسی سے ایک دن پہلے پیش گوئی کی کہ وہ وطن واپس نہیں آئیں گے لیکن وہ لندن سے اوپن ہاٹ سرجری کرانے کے بعد پاکستان واپس آ گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).