پانی سے چلنے والی ٹائم مشین اور سوہنی کا کچا گھڑا


\"zeffer05\"وجاہت مسعود صاحب، معاملہ از حد پیچیدہ ہے، چوں کہ آپ ٹھیرے پاکستان کے ایک چھوٹے موٹے سے دانش ور، تو آپ کو سمجھانا اور بھی مشکل ہوگا۔ پھر بھی میں اپنی سی کوشش کرتا ہوں، کہ آپ کو بتا سکوں، ان دنوں میں کہاں ہوں۔ سنتے آے ہیں، کہ سفر وسیلہ ظفر ہے، تو میں ان دنوں ظفر کی کھوج میں ہوں۔

یہ سفر معمولی نہیں ہے۔ ثقلی امواج کی دریافت نے میرا جیون دھارا ہی بدل دیا ہے۔ میں یہ بتانے میں کوئی عار نہیں محسوس کرتا، کہ میں نے پانی سے چلنے والی ٹائم مشین ایجاد کر لی ہے۔ آپ ہنسیں گے…. ہنس لیجیے۔ کہا جاتا ہے، کہ ہنسی غم کا علاج ہے۔ آپ کو یہ غم تو ہوگا، کہ مجھ سا غیر معروف آدمی، اتنی ترقی کیسے کر گیا، کہ ٹائم مشین بنا کر، زمانوں کا سفر کرتا پھرے، ظفریاب ہو جاے۔

ممکن ہے، آپ کو یہ خط پڑھتے لگتا ہو، کہ میں پاگلوں کی سی باتیں کر رہا ہوں۔۔۔ مجھے اس کی بھی پروا نہیں۔ کیوں کہ میں زمان و مکان کی قید سے آزاد، مختلف زمانوں کی سیر کر رہا ہوں۔ مجھے آپ کے عصر کی ان باتوں سے کوئی غرض نہیں، چوں کہ میرا تعلق کبھی آپ کے جہاں سے رہا ہے، تو سوچا، اس دنیا کا قرض چکا دوں۔ وہ ایسے کہ جو میں نے دیکھا، آپ سے سچ سچ بیان کروں۔

کچھ دیر پہلے کی بات ہے، میں دلی کی جامع مسجد کے سامنے نماز عصر کے لیے ٹھیرا۔ کیا شان ہے، کیا خوب صورتی ہے۔ اِس زمانے میں مسجد کے سامنے وہ بد وضع بازار نہیں، جو آپ کے زمانے میں ہے۔ اس ہندستان کی آبادی لگ بھگ اتنی ہے، جتنی آپ کے زمانے میں پاکستان کی۔ کیا سنتا ہوں، کہ ایک نمازی دوسرے سے کہتا ہے، \’امیاں یہ انگریزوں کے پِٹھو سید احمد خان کو \’سر\’ کا خطاب الاٹ ہوا ہے…. اس سے پہلے کہ دوسرا نمازی کوئی جواب دے، میں لقمہ دیتا ہوں، \’یہ وہی سید احمد خان تو نہیں، جو دیسی لبرل ہے؟\’ اللہ کے وہ نیک بندے حیران ہوا کیے۔ \’میاں کیا دلی سے باہر کے ہو؟۔۔ زبان کے پیچ و خم بتلا رہے ہیں۔\’ میں نے شرمندہ ہوتے ہوے جواب دیا، کہ کرانچی میں رہتے، زبان کیسے بہتر ہو سکتی ہے؟ میرے عذر کو قبول کیا گیا، ان میں سے ایک گویا ہوے، \’سید احمد خان نے ہندستان کی میا بیچ کر، سر کا خطاب لیا ہے۔\’ میں نے غیر مرئی ٹائم مشین کے بٹن پر ہاتھ رکھتے ہوئے فقرہ چست کیا، ”آپ برا مت مانیے گا، جس دلی کا ہم سنتے آے، اس کے باسیوں کی سوچ آج کے پاکستانیوں سے اوپر کی نہیں۔“

\"Theاضطراری کیفیت میں ٹائم مشین کا بٹن دبایا تھا، تو خود کو زمانہ اضطراب میں پایا۔ تحریک خلافت کا زمانہ ہے۔ جوہر صاحب، مسلمانوں کی زبوں حالی کا رونا رو رہے ہیں، اور حاضرین جلسے کے بعد بٹنے والے کھانے کے منتظر ہیں۔ ایک عام ہندستانی ہر دور میں بھوک ہی سے لڑتا دکھائی دیتا ہے۔ وجاہت صاحب، میں نے اکبر کے زمانے کی بھوک بھی دیکھی، اور اورنگ زیب کے زمانے کی بھی…. شیر شاہ سوری کا وہ عہد بھی دیکھ چکا ہوں، جب وہ بھوکے ننگے غلاموں سے جبری مشقت لیتے، دلی سے کابل تک کی سڑک بنوا رہا تھا…. مزدوروں کو نہ اوور ٹائم ملتا تھا، نہ کام کے اوقات مقرر تھے۔ میں نے کوشش بھی کی، کہ شیر شاہ سوری کی شکایت نیب میں کرسکوں…. لیکن کیا ہے، کہ سوری جمہوری رہ نما نہیں ہے، رہی نیب کی بات، تو یہ محمود غزنوی سے لے کر ظہیر الدین بابر تک ہر سپہ سالار کا احتساب کرنے سے معذور رہی ہے۔

تو کیا ہے کہ وجاہت صاحب! میں تلاش میں ہوں، اس دور کی، جب اس دھرتی پہ کوئی انقلابی تحریک بپا ہوئی ہو۔ بلوے ہوتے تو بہت دیکھے ہیں، لیکن رعایا کو صحیح معنوں میں اپنے حقوق کی جنگ لڑتے اب تک نہ دیکھ پایا ہوں۔ رعایا حقوق کے لفظ سے بھی آشنا نہیں ہوئی…. عوام تو ہر زمانے میں طبقات میں بٹے ہوے ہیں۔ ان کی آپسی نفرت کی بہت سی وجوہ رہی ہیں…. اپنی اپنی قومیں ہیں۔ مذاہب ہیں…. اور اس پر مستزاد ان میں فرقے ہیں…. ان نفرتوں کے بیچ میں ان کا سب سے بڑا سچ، ان کے پیٹ کی بھوک ہے…. ان کے پیٹ کی بھوک مٹ جاتی ہے، پھر نفرت کی مزدوری کرنے لگتے ہیں…. انھیں کوئی ایسی بھوک ہے ہی نہیں…. جیسے نفرت سے آزادی کی بھوک۔

ارے!…. وجاہت صاحب۔ مجھے آپ سے ایک اور بات کرنی تھی۔ یہ آپ کا بھگت سنگھ ہے، نا؟…. اس میں اور مولویوں کے بیت اللہ محسود سے کیا فرق ہے؟…. یہ تو وہی ہے…. دہشت پھیلا کر نمایاں ہونے والا۔۔۔ میں نے خود اپنی گنہ گار آنکھوں سے اسے پنجاب اسمبلی پہ بم پھینکتے دیکھا ہے۔۔۔ پلیز! آپ اس کو اپنا ہیرومت مانیے۔۔۔ میں ساٹھ ستر کی دہائی سے گزرا تو ان فلم سازوں کو بھی سمجھاوں گا، کہ وہ دہشت گردی کو فروغ دیتی فلمیں نہ بنائیں۔ ایسی فلمیں جن کا ہیرو، سواراج کے حصول کے لیے، ٹرین کی پٹڑی تلے بم رکھتا ہے۔۔ مسافر مرتے ہیں۔ انگلشیہ سرکار کے کارندے ہیرو کا پیچھا کرتے ہیں، وہ چکما دے کر نکل جاتا ہے۔ ہال میں بیٹھے ناظرین سر مستی میں سیٹیاں بجاتے ہیں، خوشی سے تالیاں پیٹتے ہیں۔ یہ نا سمجھ تماشائی نہیں جانتے، کہ الٹنے والی ٹرین کے مسافر، انھی کے ابا و اجداد میں سے تھے۔ ان میں اور بندر کا تماشا دیکھنے والوں میں کیا نسبت ہے۔۔ آپ بتا سکتے ہیں، جناب؟ یہ نہیں سمجھتے کہ ان کی نسلیں ایسے ہی بموں کا شکار ہو کر تماشا بنیں گی، تب وہ بم لگانے والوں کو دہشت گرد کے نام سے پکاریں گے۔ انھیں بتانا ہوگا، وجاہت صاحب، کہ آزادی بارود کی بو پھیلا کر نہیں، شعور کا دِیا جلا کر حاصل کی جاتی ہے۔ انھیں بتایئے، ان کو اپنی ذات پر تنے تعصبات کے پنجروں کو توڑنا ہے، جن زنجیروں سے وہ واقف ہی نہیں ہو پاے، انھیں جانے بغیر وہ کیسے توڑ سکتے ہیں۔

وجاہت صاحب۔ میں ایک زمانے میں سوہنی بھی رہا ہوں، جو ٹائم مشیبن پر تیر کر، مہینوال سے ملنے جاتی ہے۔ میں رانجھا بھی رہا ہوں، جس کا کل اثاثہ ایک بانسری تھا۔ میں فرہاد بھی تھا، اور تیشے سے نہ بچ سکا۔ پر میری تلاش جاری ہے۔ ابھی تک کم بخت ظفر نہیں دکھائی دِیا۔ اس لیے بھی کہ میں ماضی کے سفر پہ ہوں۔۔۔ آپ مستقبل کی جانب بڑھ رہے ہیں، امید کرتا ہوں، وہ وہیں کہیں ہوگا۔ آپ نے اسے مرنے سے بچانا ہے۔ بچایا جا سکتا ہے۔ محبت سے ظفریاب ہوا جا سکتا ہے۔ ابھی تک میں جس زمانے سے گزرا ہوں، یہی دیکھا ہے۔ نفرت ڈبو دیتی ہے، محبت پار اتارتی ہے۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran

Subscribe
Notify of
guest
8 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments