اشک آباد میں شام غارت نہیں ہوئی


فیض احمد فیض اشک آباد کے دورے پر گئے تو سید سبط حسن بھی ان کے ہمراہ تھے۔ شام ہوئی تو سید صاحب دیگر ساتھیوں کے ساتھ سیر کرنے نکل گئے۔ فیض صاحب اکیلے بیٹھے رہے۔ اس شام وہ نظم لکھی گئی جسے فیض صاحب نے اپنے دھیمے اور شرمیلے انداز میں سبطے بھائی کی ہجو قرار دیا تھا

اشک آباد کے نیلے افق پہ

غارت ہو گئی شام

فیض صاحب ہی نے لکھا تھا، فیض دلوں کے بھاگ میں ہے، بھر پانا بھی لٹ جانا بھی۔۔۔۔ پچھلے دنوں ہمیں اشک آباد جانے کا موقع ملا تو ہماری شام غارت نہیں ہوئی۔ بہت کچھ دیکھنے اور سمجھنے کو ملا۔

اشک آباد! سنگ مرمر کی خوبصورت چمچماتی عمارتوں کا شہر، جسے عشق آباد بھی کہا جاتا ہے۔ خوبصورت لوگوں کے ملک ترکمانستان کا دارالحکومت۔ دن ڈھلنے کو تھا جب ہم اُغذخان کے دیس ترکمانستان کے دارالحکومت اشک آباد کے ہوائی اڈے پر اترے۔ اُغذخان کو ترکمانستان میں وہی مقام حاصل ہے جو پاکستان میں علامہ اقبال کو۔ ترکمانستان کے کرنسی نوٹوں پر بھی اُغذخان کی ہی تصویر چھاپی جاتی ہے۔ اشک آباد پہنچے تو ذہن میں یہ تھا کہ خوبصورتی میں اپنی مثال آپ اس شہر کی یادیں بھی بہت خوبصورت ہوں گی لیکن گاڑی میں بیٹھتے ہی ہمارے رہنما نے جو بتایا اس نے ہمارے سارے خواب چکنا چور کر دیئے۔ ایوب خان کی آمریت اور ضیا ءالحق کے کوڑے ایک عظیم نعمت معلوم ہونے لگے، ایسا لگا کہ ترکمانستان نے سوویت یونین سے توجان چھڑا لی لیکن کمیونزم سے آزاد نہیں ہو سکا۔ یوں محسوس ہوا جیسے ہم معصوم پرندے ہیں جنہیں چالاک شکاری نے دانے کا لالچ دے کر اپنے سنہرے دام میں پھنسا لیا ہے اور اب سونے کی یہ جیل ہمارا مقدر ہے۔ احمد فراز، فیض احمد فیض اورحبیب جالب کی مزاحمتی شاعری کے ساتھ ساتھ معلوم نہیں ذہن کے پردہ سکرین پر کیا کچھ آیا اور گزرگیا۔ لیکن اس بیچارے کا بھی کیا قصور ؟اپنی صحافتی حس سے مجبور ہو کر سوالوں کی بوچھاڑ تو میں نے کی تھی، اب وہ کیا کرتا؟ جھوٹ بولتا؟ بولتا بھی تو حقیقت کب تک چھپتی ؟

لیکن آخر کار جو تاثرپہلے پانچ دن تک قائم ہوا وہ اگلی رات کے پہلے پانچ گھنٹوں میں یکسر تبدیلی ہوگیا۔ کوئی شک نہیں کہ اشک آباد ایک بہت خوبصورت شہر ہے۔ اسی فیصد سیاہ ریت کے صحرا پر مشتمل اس ملک کے لوگ بہت صاف ستھرے اور نفیس ہیں اور ان کی یہ نفاست اشک آباد کی صفائی ستھرائی سے جھلکتی ہے۔ مجال ہے جو پورے شہر میں آپ کو گندگی تو دور کی بات ہے سڑک کنارے کاغذ کا ایک ٹکڑا ہی نظر آ جائے۔ ہو ائی اڈے سے نکل کر شہر میں کسی طرف نکل جائیں سرمئی چوڑی سڑکیں اور ان پر بنی سفید لائنیں مضبوط نظم کی نوید سناتی ہیں۔ پولیس والے موجود ہیں لیکن جدید ٹریفک سگنلز کی خلاف ورزی کوئی نہیں کرتا، تمام گاڑیوں کی رفتار کی نگرانی سیٹلائٹ سے کی جاتی ہے اور مقررہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ جس طرف جائیں، سفید براق پتھروں سے بنی بلند عمارتیں، ہر عمارت پر لہراتا ترکمانستان کا سبز پرچم اور درودیوار پر سنہری دھات سے کیا گیا آرائشی کام ایسے دکھائی دیتا ہے جیسے کسی شہنشاہ کا محل۔ لیکن یہ سب ایسے لگتا ہے جیسے الف لیلوی داستانوں کا سویا ہوا شہر، جیسے کوئی ویمپائر شہر میں تباہی پھیلا گیا ہوں۔ سڑکوں پرٹریفک انتہائی کم ہے، کہیں کہیں آپ کو سڑک کنارے کوئی فرد آتا جاتا دکھائی دیتا ہے۔ کالج میں چھٹی کے اوقات میں سڑک کنارے، درختوں کی روشوں کے درمیان طالب علموں کی جوبھیڑ ہم نے دیکھی اس کی زیادہ سے زیادہ تعداد تیس یا چالیس رہی ہو گی۔

بہت ساری خوبیوں کے باوجود اشک آباد شہر کی سڑکوں، چوک چوراہوں، گلیوں اور عمارتوں میں زندگی کی وہ رونق دکھائی نہیں دیتی جو آپ کو کراچی، لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی، فیصل آباد یا ملک کے دوسرے شہروں میں دکھائی دیتی ہے۔ اشک آباد ایک جدید شہر ہے لیکن یورپ یا امریکہ کے دوسرے جدید شہروں کی طرح اس میں شراب یا جواخانے عام نہیں ہیں، سیاحت یا غیر ملکیوں کی آمد تو نہ ہونے کے برابر ہے، پورے ملک میں صرف چھ پاکستانی ہیں ان میں سے بھی پانچ دوسرے ملکوں کے اداروں میں نوکریوں کی وجہ سے ترکمانستان پہنچے ہیں صرف ایک پاکستانی ہے جس کی ترکمانستان میں شادی ہوئی ہے اور اس کا اس ملک سے جذباتی لگاؤ بھی ہے۔ سورج غروب ہوتے ہی شہر کے برقی قمقمے پوری آب و تاب کے ساتھ روشن ہو جاتے ہیں تو شہر کی خوبصورتی کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ شہر کی ہر عمارت اور ہر کونے پر مختلف رنگوں اور ڈیزائنوں کی ایسی روشنیاں لگائی گئی ہیں کہ رات کے وقت شہر بقعہ نور بن جاتا ہے۔ لیکن اگر غور کیا جائے تو شہر کی ہر عمارت کا نصف سے زیادہ حصہ غیر آباد نظر آتا ہے، اس لئے کہ ترکمانستان میں آبادی میں اضافے کی شرح بہت مناسب ہے، ملک کی کل آباد ی تقریبا پچپن لاکھ ہے۔

دنیا میں گیس کے سب سے زیادہ ذخائر رکھنے والے ملکوں میں چھٹے نمبر اور کپاس پیدا کرنے والے ملکوں میں نویں نمبر پر آنے والے اس ملک کے نوے فیصد کے قریب لوگ سرکاری ملازم ہیں اور اس میں چوبیس ہوائی اڈے ہیں جوآئندہ کئی دہائیوں کی ضروریات کے لئے کافی ہیں۔ اشک آباد کی عمارتوں کو بھی دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آنے والے بیس پچیس برس کی ضروریات کا بندوبست کر لیا گیا ہے۔ انسانوں سے بھرے ہوئے ہوئے شاپنگ مالز، ٹریفک جام کے مناظر، شام کو نوجوان جوڑوں کی رونق سے مالامال ریستوران یا چائے خانے، فلم اور تھیٹر کے شوقین افراد کے لئے سینما ہالز کا کوئی تصور نہیں۔ ترکمانستان میں سگریٹ پینا بھی جرم ہے، یہ الگ بات ہے کہ بعض ملکی اور غیر ملکی خواتین اور مرد پولیس سے آنکھ بچا کر تمباکو نوشی کر لیتے ہیں لیکن پورے ملک میں آپ کو سگریٹ فروخت کرنے کی کوئی دکان نظر نہیں آتی۔ ملک میں تین چار ٹیلی ویژن چینلز ہیں اور ہر چیز کی طرح وہ بھی حکومت کی ہی ملکیت ہیں۔ ایسی بہت سی سہولیات اور آسائشیں بلکہ عیاشیاں بھی ہیں جو ہمیں پاکستان میں آسانی سے میسر ہیں لیکن ترکمانستان میں جن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا لیکن حیرت ہے کہ اس کے باوجود ہم پاکستانی اکثر و بیشتر اپنے ہی ملک کو گالیاں دیتے رہتے ہیں۔

پاکستان میں اکثر جمہوریت اورآمریت کا بہت رونا رویا جاتا ہے، ہر شخص اپنے نظریات کے مخالف شخصیات یا نظام کو گالیاں دیتا ہے اور بعض تو جوش جذبات میں پاکستان کو بھی گالیاں دینا کارثواب سمجھتے ہیں۔ ذاتی طور پر میں جمہوری نظام کا حامی ہوں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سیاسی یا حکومتی نظام کوئی بھی ہو اگر اسے چلانے والاملک وقوم سے مخلص نہ ہو تو بیڑہ پار نہیں لگ سکتا۔ ترکمانستان تیل اور گیس کی دولت سے مالامال ملک ہے اور خطے میں تیزی سے ترقی کرنے والا ملک ہے، اس میں صدارتی جمہوری نظام نافذ ہے اور اس کی جمہوریت کی اندازہ آپ اس بات سے کر لیں کہ موجودہ صدر گربان گلی بردی محمدو اٹھانوے فیصد ووٹ لے کر منتخب ہوئے ہیں۔ اشک آباد میں پہنچنے کے کچھ ہی دیر بعد ہم پر انکشاف ہوا کہ یہاں واٹس ایپ، فیس بک اور اس جیسی دوسری سوشل میڈیا جیسی آزادیوں کا کوئی تصور نہیں ہے جبکہ پاکستان میں آپ کسی بھی عزت دار آدمی کے نام سے اکاؤنٹ بنا کر اسے سر بازار رسوا کر سکتے ہیں۔ اشک آباد میں قیام کے دوران ہمیں انٹرنیٹ کی ضرورت محسوس ہوئی تو پتہ چلا کہ انٹرنیٹ فراہم کرنے والی صرف ایک ہی کمپنی ہے اور وہ سرکاری کمپنی ہے۔ ہم اس کے دفتر پہنچے، بیس گیگا بائٹ ڈیٹا کی سم طلب کی تو پتہ چلا زیادہ سے زیادہ دس گیگا بائٹ ڈیٹا کی سم دستیاب ہے اور اس کی قیمت بھی ایک سو امریکی ڈالر ہے جو پاکستانی دس ہزار روپے سے بھی زیادہ ہیں اور پورے ملک میں انٹرنیٹ کی رفتار کچھوے کی رفتار سے کچھ ہی بہتر ہے جبکہ پاکستان میں تقریباَ ہزار پندرہ سو روپے میں دس گیگا بائٹ انٹرنیٹ ڈیٹا آسانی سے دستیاب ہے۔

اشک آباد ترکمانستان کا دارالحکومت ہونے کے ناطے اس ملک کا چہرہ ہے اور اس شہر میں کچھ دن گزارنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ایک اچھا ملک ہونے کے باوجو د اس ملک کے شہریوں کو پاکستان کی نسبت بہت سی پابندیوں کا سامناہے، اس قدر پابندیاں کی دوسرے ملکوں سے آنے والے بھی پریشان ہوجاتے ہیں، پاکستانی سفارت خانے نے ہماری سہولت کے لئے ایک گاڑی کرائے پر حاصل کرنے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ سرکاری ٹیکسی سروس پیشگی کرائے کے عوض مخصوص وقت کے لئے گاڑی فراہم کرتی ہے اور وقت ختم ہونے پر آپ جہاں بھی ہوں آپ کو چھوڑ کر واپس چلی جاتی ہے۔ اشک آباد میں پانچویں ایشین ان ڈور مارشل آرٹس گیمز کی افتتاحی تقریب تھی، میرے کیمرہ مین نے ہوٹل سے باہر نکل کر کچھ ویڈیو بنانے کی کوشش کی تو فوراََپولیس نے آ لیا لیکن پاکستانی میڈیا مبارکباد کا مستحق ہے کہ لوگوں کی خواب گاہیں فتح کرنے کے قریب ہے۔ یقین کیجئے اشک آباد میں گزرے وقت میں مجھے اس بات کا شدت کے ساتھ احساس ہو کہ خالق کائنات نے ہمیں پاکستان کی صورت میں ایک عظیم نعمت سے نواز رکھا ہے لیکن ہم نے اس نعمت کی وہ قدر نہیں کی جس کا یہ ملک مستحق ہے۔ لیکن ترکمانستان میں بہت سی پابندیاں جو میرے لئے ناگواری کا باعث تھیں ان کا سامنا کرنے کے باوجود مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ اگر اس ملک کو مخلص قیادت میسر رہی تو یہ سنٹرل ایشیا کا قائد بن کر ابھرے گا۔ ترکمانستان میں گزری پانچویں رات کے پہلے پانچ گھنٹوں کی روداد انشا ءاللہ اگلے کالم میں بیان کروں گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).