احوال ایک لبرل کے حج کا!


 

وہ ہم سب سے مختلف تھا اور اس کا احساس مجھے اس سے ملنے کے دوسرے دن ہی ہو گیا تھا جب وہ صبح سویرے جینز کی پینٹ پہن کر نکل آیا تھا۔ میں نے بظاہر لاپرواہی سے اس سے پوچھا شلوار قمیض نہیں لائے۔ وہ میرے سوال کو بھانپ گیا۔ ہنس کر کہنے لگا لباس بھی بھلا اسلامی یا غیر اسلامی ہوتا ہےکیا، بس ستر کی شرائط پوری ہونی چاہئے۔

اس کا نام وحید تھا، پاکستانی تھا لیکن اب امریکہ کی شہریت لے چکا تھا۔ اپنے انداز اطوار سے اچھا خاصا پڑھا لکھا اور خوشحال دکھتا تھا اور حج کے دنوں میں ہمارے گروپ میں شامل تھا۔ غیر ضروری گفتگو نہیں کرتا تھا اور چہرے پر نرمی طاری کئے، ہر وقت زیر لب مسکراتا رہتا تھا۔

ہم احرام کے دنوں میں نہایا نہیں کرتے تھے، اس کےبرعکس وہ ہر روز صبح سویرے نہا کر نکل آتا تھا۔ ایک ساتھی نے جب اس کے نہانے پر سوال اٹھایا کہ احرام کے دن تو درویشی کے ہوتے ہیں تو الٹا اس نے ہم پر سوال داغ دیا کہ نہانے پر پابندی حضورؑ کے کس حکم میں ہے۔ بات بڑھی توحیرت سے پوچھنے لگا کیا آپ لوگ صابن میسر ہونے کے باوجود رفع حاجت کے بعد صابن سے ہاتھ نہیں دھو رہے؟ صفائی نصف ایمان ہونے کے حکم کا کیا ہوا؟ کیا یہ پانبندیاں خود ساختہ تو نہیں؟ کیا اسلام کا یہ منشا ہو سکتا ہے؟

ہم نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ صابن میں خوشبو ہوتی ہےجس کا احرام میں استعمال ممنوع ہے، البتہ بغیر خوشبو کے صابن کو استعمال کیا جا سکتا ہے، لیکن وہ ہار ماننے پر آمادہ نہیں تھا۔

احرام کے ایام کے علاوہ وہ ہر روز شیو کرتا تھا۔ ایک صبح میں نے اس سے مودٔبانہ گزارش کی کہ کیا وہ اپنے سعودیہ میں قیام کے دوران روزانہ شیو کرنے کو ترک نہیں کر سکتا، جھٹ سے کہنے لگا اگر میں نے داڑھی رکھنی ہو تب تو ٹھیک ہے، بصورت دیگر یہ محض شیو بڑھی ہوئی ہو گی، الٹا میں صاف ستھرا دکھائی نہیں دونگا۔ اب ایسی سوچ کے حامل سے کون بحث کرے!

احرام کھلا تو ایک روز ہم جمعے کی نماز کو روانہ ہونے لگے۔ حافظ صاحب نے، جو ہمارے گروپ کے امیر بھی تھے، ہمیں عطر لگانے کو دیا۔ وحید نے معذرت کر لی کہ اسے عطر کی خوشبو تیز لگتی ہے۔ حافظ صاحب نے اسے حضورؐ کی سنت کا حوالہ دیا تو کہنے لگا میں اپنا پرفیوم لگا لیتا ہوں۔ ہم نے اپنا سر پکڑ لیا کہ پرفیوم میں الکحل ہوتی ہے جسے خدا نے حرام قرار دیا ہے۔ وہ بحث پر آمادہ نظر آنے لگا کہ الکحل کے جس استعمال کو اور جس شکل میں ممنوع قرار دیا گیا ہے وہ قطعی مختلف ہے اور باقی صورتوں میں اسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ بحث بڑھی تو انگور کا حوالہ دینے لگا کہ اس سے شراب کشید کی جاتی ہے جو حرام ہے تو کیا انگور کے دیگر استعمال بھی بند کر دئے جائیں؟

نہ ہم نے اس کی بات مانی نہ اس نے ہماری!

ہم نے اسے حج کے دوران سنتیں پڑھتے نہ دیکھا تھا۔ میرے استفسار پر کہنے لگا ہم حالتِ سفر میں ہیں کہ جس میں فرض بھی محدود ہو جاتے ہیں، سنتوں اور نفلوں کا کیا ذکر۔ ہمارے ایک ساتھی نے جواب دیا رعایت اپنی جگہ پر لیکن اگر وقت اور سہولت ہو تو ثواب کی خاطر سنتیں پڑھنے میں کیا حرج ہے۔ وہ کہاں ماننے والا تھا، دور کی کوڑی لے آیا کہ سفر میں سنتیں پڑھنا نہیں بلکہ سنتیں ترک کرنا سنت ہے، تو کیا میں تم لوگوں کی مانوں کہ سنت کو پکڑوں!

ایک بات البتہ اس کی قابل تعریف تھی۔ اگرچہ سنتیں اور نوافل پڑھنا اس کی ترجیح نظر نہیں آتی تھی، جتنی بھی اور جب بھی نماز پڑھتا تھا، کم از کم میں نے اس سے زیادہ پُر سکون انداز میں کسی کو پڑھتے نہ دیکھا تھا۔ نہایت آہستگی اور احترام سے رکوع و سجود اور دیگر اعمال کرتا تھا۔ بہت آہستگی سے اور چبا چبا کر لفظ ادا کرتا تھا۔ اسے دیکھ کر گمان ہوتا تھا جیسے زمانہ ٹھہر گیا ہو، وقت تھم گیا ہو۔ وہ اپنے اوپر سمندر کا سا سکوت طاری کر لیتا تھا۔ ہمارے پوچھنے پر کہنے لگا کہ باوجود کوشش کے، میں نماز میں اپنے ذہن کو اِدھر اُدھر بھٹکنے سے نہیں بچا پاتا، البتہ اتنا تو کر سکتا ہوں کہ ہر لفظ کو علیحدہ سے ادا کر کے اس کے ترجمہ کو ذہن میں لاؤں اور پھر یہ کہ بظاہر دیکھنے میں تو خدا کو میری نماز قابل قبول نظر آئے۔

ہمارے تئیں اپنی اس عادت کی وجہ سے وہ کبھی کبھی نقصان میں بھی رہتا تھا۔ مقدس مقامات پر جہاں ہم بہت سے نوافل پڑھ کر لوٹتے تھے اس کی گنتی چند نفلوں سے آگے نہ بڑھ پاتی تھی۔ اور جب ہم نے اسے ایک آدھ بار سمجھانے کی کوشش کی تو وہ مقدار کے مقابل معیار کی دلیل دینے لگا۔ کہنے لگا کہ پرندوں کی طرح ٹھونگیں مارنا اس کو اچھا نہیں لگتا تھا تو خدا کو کیا پسند آتا ہو گا۔ اِس پر میں وحید سے بہت ناراض بھی ہوا کہ اس کا مطلب ہے ہم ٹھونگیں مارتے ہیں۔ وہ بار بار معذرت کرتا رہا کہ اُس کا یہ مطلب نہیں تھا اور وہ مثال تو اس نے محض اپنے حوالے سے دی تھی۔

بہت سے معاملات میں حافظ صاحب سے اتفاق نہیں کرتا تھا لیکن جب وہ کوئی فیصلہ سنا دیتے تھے تو وحید سر تسلیم خم کر دیتا تھا کہ اسلام میں امیر کا حکم ماننے کی بڑی سختی سے تاکید ہے۔ اسی دلیل کے پیش نظر سعودی منتظمین اور رضاکاروں کی ہر ہدایت بھی فوراً مان لیا کرتا تھا۔ اگر کبھی راستے میں کھڑا ہو جانا پڑ جاتا تو ’طریق طریق‘ کی آواز سنتے ہی جگہ چھوڑ دیتا۔ ’یلا یلا‘ کی پکار آتی تو فوراً چل پڑتا۔ ہم وحید کی اس روش سے بہت تنگ تھے کہ منتظمین تو عادتاً بھی ایسا کہتے ہیں اور اگر ان کی ہر بات مان لی جائے تو ہو چکی عبادت۔

ریاض الجنۃ کے بارے میں ہمیں بتایا گیا کہ جنت کا حصہ ہے سو جس قدر ہو سکے نوافل ادا کریں اور اس حوالہ سے منتظمین کی بھی ایک نہ سنیں۔ طویل انتظار کے بعد جب ہماری باری آئی تو وہ چار نوافل پڑھ کر ہی باھر نکل گیا کہ جی نیت تو زیادہ پڑھنے کی تھی لیکن ایک اور صاحب کو جگہ کے لئے منتظر پایا۔ ایسے ثواب کا ویسے بھی کیا فائدہ جو کسی دوسرے کی قیمت پر کمایا جائے۔اور پھر یہ کہ وہاں کے منتظمین بھی جلد باہر جانے کا کہہ رہے تھے۔ ہم سر پیٹ کر رہ گئے کہ وہ تو ہمیشہ ھی ایسا کہتے ہیں۔ وہ بھی کہاں ماننے والا تھا، کہنے لگا کچھ بھی ہو وہ ہمارے منتظمین ہیں، انہیں معاملات کی ذمہ داری دی گئی ہے، ان کا کہا ماننا لازم ہے اور نہ ماننے کی صورت میں خرابیاں، اور بعض اوقات حادثات، جنم لے سکتے ہیں۔

میں نے یہ بھی دیکھا کہ فارغ اوقات میں جہاں ہم نوافل یا کلام پاک کی تلاوت شروع کر دیتے تھے وہ ایک کتاب کھول کر بیٹھ جاتا تھا۔ بتانے لگا کہ سیرت پر لکھی ایک انگریز محقق کی کتاب ہے۔ اسے کہا واپس جا کر پڑھ لینا، ابھی عبادت کر لو۔ کہنے لگا ایک تو واپس جا کر پھر زندگی کے دھندوں میں جت جائیں گے اور دوسرا حصول علم کو ویسے بھی عبادت پر فضیلت حاصل ہے۔

مجھے اس کے علم حاصل کرنے پر نہیں، اسکے موقع محل پر اعتراض تھا۔ اسے بتایا کہ حرم میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہوتا ہے تو کہنے لگا جو خدا چھوٹے سےچھوٹے عمل کے بدلہ میں اتنا زیادہ ثواب عطا کرنے پر آمادہ نظر آتا ہے، شاید اس کے نزدیک نمبر اہمیت نہیں رکھتے، وہ اور ہی کوئی معیار ہو گا جو نجات کا باعث بنتا ہو گا!

 بات بڑھی تو کہنے لگا ہمارا تو اب مسئلہ ہی یہ ہے کہ منبر و محراب سے محض اذکار و عبادات کا درس دیا جاتا ہے اور حصول علم اور اعمال و معاملات سے پہلو تہی برتی جاتی ہے۔

 پوچھا انگریز محقق کی کتاب ہی کیوں تو کہنے لگا میں اپنے مذہب اور نبی کے بارے میں ایک غیر جانبدارانہ اور جذباتی وابستگی سے عاری رائے جاننا چاہتا تھا جو یقینًا میرے دل میں ان کی قدر و منزلت میں مزید اضافے کا سبب بنے گی، بس شرط یہ ہے کے تحقیق مستند اور غیر متعصب ہونی چاہئے۔

ہم کڑی دھوپ میں بھی طواف یا باجماعت نماز کے لئے نکل کھڑے ہوتے تھے اور پُر یقین تھے کہ ان تکالیف کے بدلے میں ہمیں ثواب بھی زیادہ ملے گا، اسکے مقابل اس کا اصرار تھا کہ جہاں تک ممکن ہو ہمیں اپنے آپ کو غیر ضروری مشقت اور جسمانی تکلیف میں ڈالنے سے بچنے کی تاکید ہے۔

حرم اکثر جانا ہوتا تھا۔ ایک روز ہم سب نے فیصلہ کیا کہ کسی نہ کسی طور حجر اسود تک پہنچیں گے، اسے چھوئیں گے، چومیں گے، اور ہو سکا تو حطیم میں نوافل بھی ادا کریں گے۔ حطیم میں نفل تو سب ادا نہ کر سکے البتہ حجر اسود کو چھونے کی سعادت سب نے حاصل کی۔ پتا چلا وحید یہاں بھی محروم رہ گیا۔ ہم نے اس کی بد قسمتی پر اظہار افسوس کیا۔ بہت سوں نے تو یہ بھی سوچا کہ شاید طلب کی، شوق کی کمی تھی اور یہ کہ وحید تو محض گنتی ہی پوری کر رہا ہے ورنہ یہ سب کچھ اس قدر ناممکن بھی نہ تھا۔ ہمارے تیکھے سوالوں کے جواب میں وحید بس اتنا ہی گویا ہوا کہ میں اپنے ثواب کے لالچ میں لوگوں کو دھکے نہیں دے سکتا۔

ایک روز تواس نے ضمناً یہ بھی بتایا کہ حج کے دوران غیر شعوری طور پر کسی کو ہاتھ لگ گیا ہو تودوسری بات ہے، ارادتاً میں نے کسی کو دھکا نہیں دیا نہ ہی ہاتھ سے ہٹا کر جگہ بنائی۔

مدینہ پہنچے تو ہماری کوشش ہوتی تھی کہ ہر نماز کے بعد حضورؐ کے روضہ مبارک پر سلام کیا جائے اور دعائیں مانگی جائیں۔ پہلی دفعہ تو وحید ہمارے ساتھ گیا لیکن محض فاتحہ پڑھ کر آگے بڑھ گیا۔ بعد میں ہم نے جب بھی اسے ساتھ چلنے کو کہا تو گمان ہوتا تھا وہ ہمارے سلام اور دعائیں کرنے والے عمل سے متفق نہیں اور محض فاتحہ پڑھنے کو ہی مناسب خیال کرتا تھا۔ بد نصیب تھا کہ ایسا موقع روز روز کہاں ملتا تھا!

ایک روز ہم لوگوں نے سوچا کہ نفلی عبادات کے وقت ہم اپنے بزرگ ساتھیوں کو پیچھے چھوڑ کر جا سکتے ہیں کہ ان کی وجہ سے سب کو آہستہ چلنا پڑتا تھا اور بعض اوقات دیر بھی ہو جاتی تھی۔ وحید کا موقٔف پھر مختلف تھا۔ کہنے لگا عبادت ثواب کے لئے کی جاتی ہے، اگر ہم بزرگوں کی وجہ سے وقت پر نہ بھی پہنچ سکے تو ہمیں اپنی نیت کی وجہ سے پورا پورا ثواب ملے گا بلکہ بزرگوں کی مدد کا ثواب الگ سے ملے گا۔

ہمارا اس سے سب سے بڑا اختلاف مزدلفہ میں رات کے قیام کے دوران پیش آیا۔ اس روز ایک سعودی ہمارے گروپ کی قیادت کر رہا تھا۔ نصف شب کو اس نے قافلے کو کوچ کرنے کا حکم دیا کہ اس میں بزرگ بھی شامل تھے اور ایسے لوگوں کے لیے آدھی رات کو مزدلفہ سے نکل جانے کی اجازت ہے۔حافظ صاحب کا کہنا تھا کہ رعایت کا غلط فائدہ اٹھایا جا رہا تھا، بزرگوں کو بھیج کر باقی لوگوں کو وہیں قیام کرنا چاہئے۔ حافظ صاحب کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان عربیوں کی بات کو سوچ سمجھ کر ماننا چاہئے کہ انہوں نے دین سے صحیح اور غلط طور پر بہت سی رعایتیں نکال رکھی ہیں۔

 دوسری طرف وحید کا اصرار تھا کہ ہم ایک گروپ کی صورت میں سفر کر رہے تھے اور گروپ کے قائد کو ہر فیصلہ اپنے کمزور ترین افراد کو پیش نظر رکھتے ہوئے کرنا چاہئے۔ فیصلے کی اطاعت سب پر لازم ہے اور گروپ کو گروپ کی ہی صورت میں رہنا چاہئے، اور اس پر کسی کی پکڑ نہ ہو گی۔ اس رات کچھ لوگ لوٹ آئے اور حافظ صاحب سے متفق ہمارے جیسے کچھ لوگ مزدلفہ میں ہی ٹھہر گئے۔

وحید کسی پر اپنی رائے ٹھونسنے کی کوشش نہیں کرتا تھا نہ ہی کسی کی رائے کو یکسر غلط قرار دیتا تھا۔ اس کے بقول ہر ایک کے پاس کوئی نہ کوئی دلیل ہے سو کسی کو بھی صحیح یا غلط کہنے کی ضرورت نہیں۔

 

وہ جیسا بھی تھا اپنا وقت اور پیسہ لگا کر حج کرنے آیا تھا، اس کے لئے مشقت کی تھی سو آپ سب میرے ساتھ ہاتھ اٹھا کر اس کے لئے دعا کیجئے کہ خدا تو رحیم و کریم ہے، وحید کی تمام تر کمیوں، کوتاہیوں اور گستاخیوں کے باجود اس کے حج کو قبول کرے، آمین!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).