ہمیں نوازشریف نہیں چاہئے


پاکستان میں کسی سیاسی رہنما کا بہت زیادہ مقبول ہونا اس کیلئے خطرناک ہوتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو بھی یہی مسئلہ درپیش تھا اور نوازشریف کی پاپولیرٹی نے بھی ان کیلئے سخت مشکلات پیدا کی ہیں پہلی بار نہیں بلکہ یہ دوسری بار ہوا ہے۔ اس سے قبل 1999ء میں پرویزمشرف نے اپنی نوکری بچانے کیلئے مارشل لاان کی مقبولیت سے ڈر کر ہی لگایا تھا ۔ لہٰذا ’’ہمیں‘‘ نہ تو نوازشریف اور نہ ہی ذوالفقار علی بھٹو جیسے بہت پاپولر لیڈر چاہئیں۔ آخر ہمیں کیسے رہنما چاہئے اس کا جواب بڑا سادہ سا ہے۔ ہمیں شوکت عزیز چاہئے جو وزیر اعظم ہوتے ہوئے بھی اپنے صدر (پرویزمشرف) کو اس طرح کی باتیں کہیںکہ سر آپ میرے وزیروں کو اچھی کارکردگی نہ دکھانے پر ڈانٹتے کیوں نہیں ہیں۔ ہمیں ایسے وزراء اعظم چاہئیںجن کی عوام میں بالکل جڑیں نہ ہوں ،جو اپنا عہدہ برقرار رکھنے کیلئے صرف ’’ہم‘‘ پر ہی انحصار کرتے رہیں اور جن کو جب ہم چاہیں کان سے پکڑ کر چلتا کریں اور اپنے نکالے جانے پر وہ بالکل خاموش رہیں یہ سمجھ کر کے یہ حکم ہے جس کو من وعن تسلیم کیا جانا ہے ورنہ ان کے خلاف بہت کچھ ہوگا۔ ہمیں ایسی جمہوریت چاہئے جس میں وزیراعظم کی کسی قومی معاملے پر کوئی رائے نہ ہو اور وہ یس باس کرتا رہے۔

ہمیں میر ظفر اللہ جمالی جیسا سیاسی وزیراعظم بھی نہیں چاہئے جو اس عہدے پر براجمان ہونے کے کچھ عرصہ بعد ہی اپنے پر نکالنا شروع کر دے حالانکہ ایک لحاظ سے یہ ہمارے نقطہ نگاہ سے وزیراعظم کے عہدے کیلئے بہت فٹ تھے کیونکہ ان کی عوام میں جڑیں نہیں تھیں اور مزید یہ کہ وہ ایک چھوٹے صوبے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہمیں محمد خان جونیجو جیسا شریف النفس اور ایماندار وزیراعظم بھی نہیں چاہئے جو یہ بڑا عہدہ سنبھالنے کے دو سال بعد ہی ’’باغیانہ‘‘ رویہ اختیار کر لے اور ہماری ہاں میں ہاں نہ ملائے حالانکہ ہم نے اسے بڑی سوچ بچار کے بعد وزیراعظم کے عہدے کیلئے چنا تھا صرف اس وجہ سے کہ وہ سیاسی طور پر انتہائی کمزور ہیں اور کبھی بھی کسی مسئلے پر اپنی کوئی رائے نہیں دیں گے۔ ہمیں عمران خان جیسا وزیراعظم بھی نہیں چاہئے حالانکہ انہیں ہماری بھرپور کوششوں کی وجہ سے ہی عوامی سطح پر کافی پذیرائی مل گئی ہے مگر یہ بات ان کے دماغ میں بیٹھ گئی ہے کہ وہ بہت پاپولر ہوگئے ہیں ۔ہم نے چیئرمین پی ٹی آئی کو انتہائی مقبول عوامی رہنما نوازشریف اور ان کے اتحادیوں بشمول مولانا فضل الرحمن وغیرہ کی پگڑی اچھالنے کیلئے بہت استعمال کیا ہے اور ان سیاسی رہنمائوں کو مزید ’’گندا‘‘ کرنے کیلئے استعمال کرتے رہیں گے۔ فی الحال عمران خان کو بڑا زعم ہے کہ وہ ان کے وزیراعظم کے عہدے کیلئے بہت بڑے ڈارلنگ ہیں۔ تاہم اس وقت تو ان کاسپریم کورٹ سے بچنا خاصا مشکل لگ رہا ہے اور اگر وہ اس عدالتی پراسس میں نااہل ہوگئے تو ان کا پتہ بھی صاف ہو جائے گا۔

ہمیں ایسا وزیراعظم چاہئے کہ جب ہم اسے کسی بھی طریقے سے ڈس مس کریں تو وہ چپ چاپ اپنے گھر چلا جائے اور اس کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے اسے اپنی قسمت سمجھ لے۔ ظفراللہ جمالی نے ایسا ہی کیا لہٰذا ہمیں اس پر کبھی غصہ نہیں آیا اور نہ کبھی ہم نے اس کے خلاف گھیرا تنگ نہیںکیا ۔ محمد خان جونیجو نے بھی اپنی برطرفی کے بعد خاموشی اختیار کر لی تھی لہٰذا وہ بھی مشکلات سے بچ گئے۔ دوسری طرف ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی حکومت کی برطرفی کے خلاف بہت شور مچایا تھا اور اس کا ہم نے وہ حال کیا جو کہ ایسے سیاست دانوں کیلئے ایک انتہائی تلخ سبق ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اگر مارشل لا کے نفاذ کے بعد بھٹو صاحب خاموشی سے لاڑکانہ چلے جاتے تو ان کے ساتھ وہ کچھ نہ ہوتا جو کچھ ہوا یعنی ان کا عدالتی قتل نہ ہوتا۔ سپریم کورٹ کی طرف سے کی جانے والی ڈس کوالیفکیشن کے بعد نوازشریف کو بھی چاہئے تھا کہ وہ بھی خاموشی سے رائے ونڈ چلے جاتے ۔چار روز تک جی ٹی روڈ پر اپنی عوامی طاقت کا مظاہرہ نہ کرتے تو ان کی مشکلات بھی کم ہو جاتیں۔ لیکن کیا کیا جائے سیاست دان جو عوامی سطح پر بہت مقبول ہوتے ہیں وہ عوام کی طاقت پر بہت بھروسہ کرتے ہیں اور اپنے خلاف ہونے والی زیادیتیوں پر شور ضرور مچاتے ہیں۔

بھٹو صاحب کی پھانسی کی وجہ سے دنیا میں جو پاکستان کا منہ کالا ہوا وہ تو ہوا مگر ملک میں ایک عرصہ تک سیاسی انتشار رہا اور سندھ کے لوگوں نے کبھی بھی اس بات پر ایسا کرنے والوں کو معاف نہیں کیا۔ ان کی پھانسی کی وجہ سے قومی سطح پر پیپلزپارٹی کئی الیکشن جیتی اور ابھی بھی یہ سلسلہ سندھ میں جاری ہے جہاں اس کا کوئی مدمقابل نہیں۔ نوازشریف کی برطرفی اور ان کے خلاف ہونے والی دوسری کارروائیوں بشمول ریفرنس نے ان کی مقبولیت کو ذرہ برابر ٹھیس نہیں پہنچائی بلکہ اس میں اضافہ ہی ہوا ہے اور یہی ان کا ہمارے لئے بہت بڑا ’’مائنس‘‘ پوائنٹ ہے کیونکہ ہمیں ان جیسا مقبول لیڈر سرے سے چاہئے ہی نہیں۔ اس وقت بھی شاید ہی کوئی ذی شعور بندہ ہو جو اس بات پر اتفاق نہ کرے کہ باوجود بہت سی مشکلات کے نون لیگ ہی اگلے الیکشن میں سب سے زیادہ فیورٹ ہے۔ نوازشریف کی پاپولیرٹی نے ابھی ان کی جماعت کیلئے مزید نا مساعد حالات پیدا کرنے ہیں اور اگر ان کی یہی مقبولیت رہی اور اس میں اضافہ ہوتا رہا تو اس کو پرانے طریقہ کار کے ذریعے توڑنے کی کوششیں بھی کی جائیں گی۔ یقیناً اس میں کچھ دراڑیں پڑ سکتی ہیں مگر یہ پھر بھی ایک بڑی سیاسی قوت کے طور پر قائم رہے گی جو اس قابل ہوگی کہ وہ اگلے انتخابات جیت سکے۔

ہمیں اس بات کی بالکل پروا نہیں ہے کہ این اے 120 لاہور کے ضمنی انتخاب میں نوازشریف کی جماعت نے بڑی اعلیٰ کارکردگی دکھائی ہے جبکہ اس کیلئے حالات مشکل ترین بنا دیئے گئے تھے تاکہ کسی نہ کسی طرح بیگم کلثوم کو ہرایا جائے اور اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو پھر ان کے وکٹری مارجن کو اتنا کم کر دیا جائے جس کی وجہ سے نون لیگ کافی ڈی مورولائیز ہو جائے اور اپنی فتح کو بھی صحیح طرح بطور فتح منانہ سکے۔ نون لیگ کو بار بار یہ طعنہ دیا جا رہا کہ وفاقی حکومت بھی اس کی تھی، صوبائی حکومت بھی اس کی تھی اور لوکل باڈیز بھی اس کی تھیں لہٰذا اس کیلئے تو موجیں ہی موجیں تھی لہٰذا یہ کیسے کہہ سکتی ہے کہ حالات اس کے لئے ساز گار نہیں تھے مگر یہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی اس کے بندوں کو اغوا کیا گیا صرف اس وجہ سے کہ وہ ضمنی انتخاب میں اپنا بھر پور کردار ادا نہ کرسکیں۔ یہ تمام حکومتیں ہونے کے باوجود بھی پولنگ اسٹیشنز پر ’’گوسلو‘‘ کی حکمت عملی اپنائی گئی تاکہ ٹرن آئوٹ کم ہو اور نون لیگ کو نقصان ہو۔ اگر واقعی یہ حکومتیں بااختیار ہوتیں اور پاور کسی اور کے پاس نہ ہوتی تو نون لیگ کے بندوں کا اغوا ناممکن تھا۔ یہ سب حکومتیں تو ضمنی انتخاب میں بے بسی کی تصویر بنی رہیں اور الیکشن کمیشن حسب سابق خاموش تماشائی۔ عام حالات میں الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوں کی یہ التجا مان لیتا ہے کہ پولنگ کا وقت بڑھایا جائے مگر چونکہ این اے 120 کیلئے مخصوص حالات پیدا کئے گئے تھے لہٰذا اس نے بھی یہ درخواست فوراً مسترد کردی۔ پی ٹی آئی کیلئے اس انتخاب میں موجیں ہی موجیں تھیں مگر پھر بھی یہ نہ جیت سکی اور اس کا یہی حال آئندہ الیکشن میں بھی ہوگا۔ یہ صرف اس بات پر ہی خوش ہوتی رہے گی کہ اس نے بہت بڑی تعداد میں ووٹ حاصل کر لئے ہیں۔

بشکریہ روز نامہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).