کیا آپ اپنے شوہر پر شک کرتی ہیں؟


وہ بظاہر سکھی لیکن درپردہ بہت دکھی تھی۔ KAREN ٹرینیداد کی ایک نرس تھیں جو میری برسوں سے دوست تھیں۔ شادی سے پہلے وہ بہت خوشحال ہوا کرتی تھیں یہ علیحدہ بات کہ کچھ عرصے سے بہت افسردہ رہتی تھیں لیکن کسی پر ظاہر نہیں کرتی تھیں۔ بہت سی شادی شدہ عورتوں کی طرح ان کا ظاہر کچھ اور تھا اور باطن کچھ اور۔ ایک دن میں نے پوچھ ہی لیا

’کیرن آپ اندر سے خوش نہیں لگتیں؟‘

’آپ کو کیسے پتہ چلا؟‘ انہوں نے چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے کہا۔

’میں نے آپ کی آنکھوں میں پڑھ لیا ہے۔ آپ جانتی ہیں آنکھیں دل کی کھڑکیاں ہوتی ہیں وہ سب کچھ بتا دیتی ہیں‘

’آخر آپ ماہرِ نفسیات ہیں دل کی باتیں بھی جان لیتے ہیں۔ آپ سچ کہتے ہیں۔ میں اندر سے خوش نہیں کیوںکہ میں اپنے شوہر PETER پر اعتماد نہیں کرتی۔‘

میں نے پوچھا ’کیوں؟‘

کہنے لگیں ’ وہ بہت سی باتیں چھپ چھپ کر کرتا ہے۔ سوال پوچھوں تو سیدھا جواب نہیں دیتا‘ اوتیاں بوتیاں مارتا ہے ‘ ٹال مٹول کر دیتا ہے‘ْ

’آپ کو کس بات کا شک ہے؟ کیا دوسری عورت کا معاملہ ہے؟‘

’نہیں ایسا نہیں ہے۔ میرے ہوتے ہوئے وہ کسی اور عورت کے ساتھ ملوث نہیں ہو سکتا۔ اس کا مسئلہ دولت ہے عورت نہیں‘

’تو پھر آپ کیا کریں گی؟‘

’ میں نہیں جانتی۔ میں نے ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ اسی لیے تو اندر سے سلگتی رہتی ہوں۔ کڑھتی رہتی ہوں۔ بظاہر سب سمجھتے ہیں میں خوش ہوں۔ میں کامیاب نرس ہوں پیٹر کامیاب پولیس افسر ہے۔ دوست ہماری مثالی محبت کی مثالیں دیتے ہیں لیکن ان کو کیا خبر اس محبت کے دل میں گہرا سوراخ ہے۔ میں آج کل بہت کنفیوزڈ ہوں‘

میں پچھلے تیس برس میں نجانے کتنی مشرقی اور مغربی بیویوں سے مل چکا ہوں جو اپنے اپنے شوہر پر اعتماد نہیں کرتیں۔ نامساعد حالات کی وجہ سے ان کے دل میں شک کا بیج جنم لیتا ہے پھر وہ بیج بڑھتے بڑھتے شک کا درخت بن جاتا ہے پھر اس درخت میں کڑوے پھل پکتے رہتے ہیں‘ زہر گھلتے رہتے ہیں جس سے ازدواجی زندگی ایک عذاب بن جاتی ہے۔ محبت حسد میں تبدیل ہو جاتی ہے اور چاہت کو دیمک کی طرح کھا جاتی ہے۔

کیرن سے ملاقات کے بعد میں پیٹر کے بارے میں سوچتا رہا۔ وہ ایک PRIVATE DETECTIVE تھا۔جب کسی بیوی کو اپنے شوہر پر شک ہوتا کہ وہ کسی اور عورت سے خفیہ عشق لڑا رہا ہے تو وہ پیٹر کی خدمات حاصل کرتی۔

پیٹر صبح و شام اس شوہر کا پیچھا کرتا اور چھ ہفتوں کی جاسوسی کے بعد بیوی کو ساری رپورٹ دیتا اور ہزاروں ڈالر کماتا۔ پیٹر کو بالکل خبر نہ تھی کہ اس کی اپنی بیوی اس پر شک کرتی ہے اور اب ایک جاسوس کی جاسوسی کر رہی ہے۔

چند ہفتوں کے بعد کیرن ملی تو مسکرا رہی تھی کہنے لگی ’ میں نے مسئلے کا حل تلاش کر لیا ہے‘

’کس طرح؟‘ میں متجسس تھا۔

’جب پیٹر BARBADOS اپنی ماں سے ملنے گیا تو مجھے خیال آیا کہ اس کا SAFE دیکھوں جس میں وہ تمام کاغذات مجھ سے چھپا کر رکھتا ہے۔ میں نے سیف کے ماہرین کو فون کیا اور کہا کہ مجھ سے چابی کھو گئی ہے۔ وہ آئے انہوں نے اپنے خاص اوزار سے سیف کھولا اور مجھے پیٹر کے سارے کاغذات مل گئے۔ میں نے ان کی فوٹو کاپی بنا لی۔ ان کاغذات نے میرے شک کو یقین میں بدل دیا۔ پیٹر نے بابیڈوز میں ایک گھر بنایا تھا جس کی مجھے بالکل خبر نہ تھی۔ وہ کئی لاکھ ڈالر کا بڑا سا گھر تھا۔ میں نے کاغذات کی فوٹی کاپی کرکے سب کاغذ سیف میں واپس رکھ دیے اور دوبارہ تالا لگا دیا۔

جب پیٹر واپس آیا تو میں نے پوچھا ’باربیڈوز میں کوئی خاص بات ہوئی ہے؟‘ کہنے لگا ’نہیں بس ماں کی خدمت کرتا رہا ہوں‘۔ اس دن میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ اس دن میں نے فیصلہ کر لیا۔ میں ایک جھوٹے دھوکہ باز مرد کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔ پھر میں نے ایک DIVORCE LAWYER سے مشورہ کیا اور اسے سب کاغذات دکھائے جو اس نے عدالت میں جمع کروا دیے‘۔

کیرن عدالت میں گئی اور شوہر سے طلاق مانگی۔ پیٹر نے اس کی مخالفت کی لیکن جج نے کیرن کے حق میں فیصلہ دیا اور پیٹر کو حکم دیا کہ وہ باربیڈوز کا گھر بیچ کر آدھی قیمت کیرن کو دے۔ پیٹر کو بالکل سمجھ نہ آئی کہ کیرن کو اس کے گھر کی خبر اور کاغذات کیسے ملے۔

میرا تجربہ اور مشاہدہ یہ ہے کہ جہاں بہت سی عورتوں کا شک صحیح ثابت ہوتا ہے وہیں بہت سی سی بیویوں کا شک غلط بھی ثابت ہوتا ہے۔ وہ بے وجہ پریشان رہتی ہیں۔ شک کرتی رہتی ہیں، کڑھتی رہتی ہیں اپنا دل جلاتی رہتی ہیں۔ اس کی ایک مثال میری مریضہ BARBARA ہیں۔

ایک دن باربرا مجھ سے کہنے لگیں ’میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ STAN کو طلاق دے دوں۔‘

’آخر اس کی وجہ؟‘

’میں اس کو ٹرسٹ نہیں کرتی۔ میں پچھلے تین سال سے دیکھ رہی ہوں وہ ہمارے جوائنٹ بینک اکائونٹ سے ڈالر غائب کر دیتا ہے، میں پوچھتی ہوں تو مسکراتا ہے لیکن جواب نہیں دیتا موضوع بدل دیتا ہے۔ اگر میں ڈالروں کے بارے میں اس پر اعتماد نہیں کر سکتی تو پھر کسی اور بات پر کیا اعتبار کر سکتی ہوں۔‘

میں نے کہا ’ میں سٹین سے مل چکا ہوں ۔ مجھے تو وہ قابلِ اعتبار انسان لگتا ہے۔ صاف گو ہے۔ مجھے اس کی آنکھوں میں آپ کے لیے محبت بھی نظر آئی ہے۔ اگر اجازت ہو تو طلاق لینے سے پہلے مجھے سٹین سے ایک دفعہ ملنے دیں۔‘

باربرا مسکرائی’میں سٹین پر بالکل اعتماد نہیں کرتی لیکن ڈاکٹر سہیل آپ پر پورا اعتماد کرتی ہوں‘

چنانچہ اگلے ہفتے میں سٹین سے ملا اور جب میں نے اسے بتایا کہ اس کی بیوی اسے ایک سرپرائز دینے والی ہے اور اس نے طلاق کا فیصلہ کر لیا ہے تو وہ زار و قطار رونے لگا اور کہنے لگا ’ میں باربرا کو ٹوٹ کر چاہتا ہوں۔ اگر اس نے مجھے چھوڑ دیا تو میں ٹوٹ کے بکھر جائوں گا خود کشی کر لوں گا۔ وہ میری جان ہے میری زندگی ہے میرا خواب ہے‘

’ اس نے مجھے بتایا ہے کہ تم ہر مہینے بینک سے ڈالر غائب کر دیتے ہو اور جب وہ پوچھتی ہے تو ٹال مٹول کرتے ہو۔ سیدھا جواب نہیں دیتے۔ اب مجھے سچ سچ ساری کہانی سنائو تا کہ میں تمہاری مدد کر سکوں‘

سٹین کافی دیر سوچتا رہا اور پھر کہنے لگا۔’ دس سال پیشتر جب میں نے باربرا سے شادی کی تھی تو اسے ایک انگوٹھی پسند تھی۔ وہ انگوٹھی بہت مہینگی تھی اور میرے پاس اتنے رقم نہیں تھی۔ اس لیے اسے میں نے ایک سستی انگوٹھی خرید کر دی تھی۔ جب مجھے ایک اچھا جاب ملا تھا تو تین سال پہلے میں نے اس انگوٹھی کی قیمت معلوم کی تھی۔ وہ دس ہزار ڈالر کی تھی۔ اب میں باربرا سے چھپ کر ہر مہینے دو تین سو ڈالر علیحدہ اکائونٹ میں جمع کروا دیتا ہوں۔ میں 9700 ڈالر جمع کر چکا ہوں۔ صرف تین سو ڈالر باقی ہیں۔ اگلے مہینے ہماری شادی کی دسویں سالگرہ ہے میں اس موقع پر باربرا کو وہ انگوٹھی بطورِ سرپرائز دینا چاہتا ہوں‘

’لیکن تمہاری انگوٹھی کی سرپرائز سے پہلے وہ تمہیں طلاق کی سرپرائز دینے والی ہے۔ میں نے سٹین سے کہا کہ وہ اگلی دفعہ اپنے ساتھ اپنی تمام رسیدیں اور انگوٹھی کے کاغذات بھی لے کر آئے‘

چنانچہ میں نے دونوں کو اکٹھے بلایا اور سٹین سے کہا کہ وہ تمام رسیدیں باربرا کو دکھائے۔ جب باربرا نے ساری کہانی سنی تو دھاڑیں مار مار کر روئی اور سٹین کو گلے لگا لیا۔ اسے اندازہ ہوا کہ اس نے ایک محبت کرنے والے شوہر پر شک کیا تھا۔

بطورِ ماہرِنفسیات اس دن میں بھی بہت خوش تھا کہ میں نے ایک بیوی کے دل سے شک کا کانٹا نکال دیا تھا اور ایک محبت کرنے والے جوڑے کی شادی بچا لی تھی۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail