افتخار چوہدری کے غلط فیصلوں کی قیمت کون ادا کرے گا؟


جن دنوں افتخار چوہدری کی پتنگ ساتویں آسمان پر اڑ رہی تھی۔ اور پورا پاکستان اسے امام مہدی (نعوذ باللہ) کے روپ میں دیکھ رہا تھا ناچیز قانون کا طالبعلم ہونے کے ناطے کسی اور حساب کتاب میں غرق تھا۔ کوئی بھی پروجیکٹ سرکار کی جانب سے یا BOT بلڈ آپریٹ اینڈ ٹرانسفر کی صورت میں لگایا جاتا ہے تو حکومت اس پروجیکٹ کی ٹوٹل قیمت کا پانچ سات فی صد اس کنٹریکٹر کو دیتی ہے جسے موبلائزیشن ایڈوانس کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد متعلقہ ادارہ اپنے وسائل۔ بینک لون یا بین الاقوامی انویسٹمنٹ سے پروجیکٹ مکمل کرتا ہے۔

پی پی پی کی حکومت نے 2008 میں اپنی پاور پالیسی دی اور بیسیوں انویسٹرز نے اپنے پروجیکٹ لگائے۔ پوری پالیسی کی بنیاد قطر سے گیس کی امپورٹ تھی۔ چونکہ پٹرول کی قیمت 115 روپے لٹر تھی اور وہ کسی صورت بجلی بمانے کے لئے قابلِ عمل نہ تھی۔ اب انویسٹر کا کام پروجیکٹ یا بجلی گھر مکمل کر کے آپریشنل کرنا تھا اور ایندھن یعنی گیس سپلائی کی ذمہ داری حکومت کی تھی۔

ایک روز سپریم کورٹ میں جناب افتخار چودھری کے ڈائیلاگ سنے تو بڑا حیران ہوا۔ صاحب فرما رہے تھے اس کمپنی نے ایک ارب لے لیا اور ایک یونٹ بھی بجلی پیدا نہیں کی۔ اٹارنی جنرل نے سمجھانے کی کوشش کی کہ ایندھن کی سپلائی پر حکم امتناعی۔ ۔ ۔ مگر قاضی وقت پھٹ پڑا۔ ایک یونٹ بجلی پیدا کیے بغیر اتنے پیسے لے گئے۔
فیصلہ آ گیا پیسہ واپس کرو۔ کیا نادر شاہی حکم تھا۔

انویسٹر نے معمولی رقم حکومت سے لی نوے فیصد خود بندوبست کرکے پروجیکٹ مکمل کھڑا کر دیا۔ ایندھن کی سپلائی اس کی ذمہ داری تھی ہی نہیں۔ اگر حکومت ایندھن مہیا کرتی تو وہ بجلی پیدا کرتا۔ اس صورتحال میں مجھے موبلائزیشن ایڈوانس کی واپسی کا حکم اخیر فضول غیر قانونی اور مبنی بر جہالت لگا۔ میں نے سوچنا شروع کیا کہ یہ انویسٹر کوئی خیراتی ادارہ تو چلا نہیں رہا کہ زیادتی برداشت کرے۔ بالآخر یہ حکومت کے خلاف مقدمہ کرے گا اور مقدمہ جیتے گا بھی۔ انویسٹر نے مقدمہ جیت لیا۔

اربوں ڈالر کے جرمانے ہو چکے ہیں۔ اربوں روپے ہرجانے کے نہ جانے کئی سو مقدمات ابھی پائپ لائن میں ہوں گے۔ کیا کوئی صورت بن سکتی ہے کہ افتخار چودھری کی جائیداد سے ریکوری کی جائے یا پھر چوہدری صاحب کے غلط فیصلوں کی قیمت پاکستان کے غریب عوام کو ہی چکانی ہو گی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).