بڑے ڈاکو کی پکڑ


ستمبر سے کچھ پہلے سے ہی ملک میں سیاسی گہما گہمی عروج پر ہے۔ گرم ترین ماہ میں ضمنی انتخاب کا محاذ بھی گرم رہا جس میں پی پی کے جیالے، کپتان کے ٹائیگر اور ن لیگ کے متوالے سرگرم نظر آئے۔ لاہور کے ضمنی انتخاب کا نتیجہ انتخابی عمل کی شفافیت کو دھول میں اُڑاتا ہوا گزرا گیا۔ این اے 120 کی وکٹ پر کپتان نے میچ ٹی ٹوئنٹی سمجھ کر کھیلا اور روایتی حریف کے ہزاروں ووٹوں کو کلین بولڈ کردیا۔ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر جو خبر سب سے زیادہ زیر بحث رہی وہ یہ ہے کہ نہ صرف انتخابی حلقے کی منتخب اُمیدوار بلکہ پورا خاندان خود ساختہ جلا وطنی اختیار کرچکا ہے۔ کیا کہیں کہ لندن یاترا کو ناکام بنانے کے لیے حکومت نے کوئی رکاوٹ کھڑی کرنے کی زحمت تک گوارہ\ا نہ کی اور کیوں کرتی، ن لیگی حکومت اور بعض اداروں کو وفاداری ثابت کرنے کا اس سے بہترین موقع پھر کبھی نہ ملتا۔ برائے نام“ شریف“ خاندان نہ صرف ملک کے مخلص ووٹرز کے بنیادی مسائل سے پہلو تہی کیے ہوئے ہےکہ بلکہ عدالت عالیہ کے معزز ججز کے فیصلوں کو رد کرکے، احتساب عدالت سے بھی کنی کترا رہا ہے۔

چلیں، پریکٹس میچ تو گزر گیا لیکن اصل انتخابی معرکہ تو اگلے سال ہوگا جسے لڑنے کےلیے سیاسی جماعتیں عوامی حلقو ں کے درمیان ابھی سے وارم اپ میچز میں مصروف ہیں۔ نامی گرامی رہنما ”ناکام ”ن لیگ کی شان میں قصیدہ گوئی میں مصروف ہیں۔ اور تو اور نا اہل نواز شریف کی لندن تک دوڑ پر بھی کرارے بلکہ چٹخارے تبصرے سننے کو مل رہے ہیں۔ کچھ کے خیال میں سابق وزیر اعظم لندن نماز عید کی سنتوں کی ادائیگی کےلیے گئے تو پلٹ کر نہیں آئے جبکہ بعض نے کہا کہ بیگم صاحبہ کی عیادت سنت نہیں بلکہ فرائض میں شامل ہے۔

ناکام لیگ پر نیب کے کاری وار پچھلے کئی ہفتوں سے جاری ہیں۔ نیب ریفرنسز میں غیر حاضر شریف فیملی کی پیشی کو یقینی بنانے کے لیے احتساب عدالت نے طلبی کے سمن اب لندن تک بھیجنے کا فیصلہ سنا دیا۔ سوال یہ ہے کہ اگر 26 ستمبر کو بھی پیشی نہ ہوئی تو کیا مذکورہ خاندان کے افراد کی گرفتاری کے لیے نیب کا گھیرا مزید کس حد تک تنگ کیا جائے گا؟ کیونکہ اب اس معاملے سے ملک کی عوام بری طرح تنگ آچکی ہے۔ گھیرا تنگ کرنے سے سے یاد آیا کہ سابق وزیر اعظم کے سمدھی نیب حکام کی گرفت میں تو نہ آسکے لیکن ان کی رہائش گاہ تک نیب حکام نے رسائل حاصل کرلی۔ وزیر خزانہ کے گھر سے بے شک عوام کی دولت اور لوٹا ہوا خزانہ تو نہ مل سکا لیکن کسی بھی معزز وزیر یا مشیر کے شفاف دامن اور برائے نام“ عزت ”پر اس نوعیت کا چھاپہ، نمایاں طور پر بدنما داغ ہے۔

تحریک انصاف کے رہنما نے کچھ عرصہ قبل قومی دولت کو لوٹنے والے چھوٹے چوروں اور بڑے ڈاکووں کی تشریح کی تھی۔ کپتان نے بھولے عوام کو یہ بتایا تھاکہ ملک کو چھوٹے چور نہیں بلکہ بڑے ڈاکو تباہ کر رہے ہیں۔ کرپشن کی ڈسی قوم کو یہ معلوم ہی نہیں کہ ” کیوں نکالا“ طبقے نے اس کے ساتھ ہاتھ کردیا۔ قوم یہ بات جان لےکہ بڑے ڈاکو پیسہ ملک سے باہر لے کر جاتے ہیں جبکہ چھوٹے چور پیسہ ملک میں خرچ کرتے ہیں۔ عدالت عالیہ کی قائم کردہ جے آئی ٹی کی ٹیم ” بڑے ڈاکووں ” کو تفتیش کے تاریخی کٹہرے تک لے کر آئی مگر ان اداروں کے بارے میں کیا کہا جائے جن کی جابنداری اس خاندان کے لیے کھل کر سامنے آگئی۔ اس واضح جانبداری کا رونا تمام اپوزیشن جماعتیں مسلسل رو رہی ہیں۔ آمدنی اور اثاثوں میں بڑے فرق کی بنیاد پر جس حکومت کا تختہ اُلٹا گیا تھا، وہی خاندان بادشاہت کے خواب آنکھوں میں سجائے برطانیہ میں سکونت اختیا ر کیے ہوئے ہے۔

پاناما کیس کے تاریخی فیصلے کے بعد بے شک ن لیگ کی عوامی مقبولیت میں واضح کمی دیکھنے میں آئی لیکن عوام کو اس بات کی یقین دہانی کیسے کرائی جاسکتی ہے کہ اگلے انتخابات میں ان ہی کے ڈالے ووٹوں کی بدولت، ملک میں لوٹ کھسوٹ کرنے والے مخصوص خاندان کا اس ملک پر دوبارہ راج نہیں ہوگا؟ عوام کرپٹ حکمران کے لیے واضح اور حقائق پر مبنی جواب چاہتی ہے۔ عوام تقاضہ کرتے ہیں کہ ”مجھے کیوں نکالا“ کی رٹ لگانے والے جلد یہ جان بھی لیں اور مان بھی لیں کہ اُنھیں ”کیوں ”نکالا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).