کالج میں ایک اور کالج ۔۔۔ہمارا مؤقف کیا ہے


گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج چکوال میں ویمن کالج کے غیر دانشمندانہ قیام کے سلسلے میں پروفیسرز اینڈلیکچررز ایسوسی ایشن کےنمائندے کی حیثیت سے میں پچھلے کئی ہفتوں سے اپنے دوسرے ساتھیوں کےساتھ سرگرم عمل ہوں اور ہم  عوامی’ سیاسی اور سماجی سطح پہ اس قضیے کے حوالے سے اپنے موقف کو ہر جگہ پہ دلیل کے ساتھ بیان کر نے کی کوشش مسلسل جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ قومی سطح پر ایاز امیر’ ہارون رشید’ وقار خان اور ساجد چوہدری نے بھی اس موضوع کااپنے کالمز کا حصہ بنایا ہے۔ چونکہ زیر بحث مسئلہ سیاسی نہیں بلکہ تعلیمی  اداروں کے بہتر مستقبل کا ہے’ اسلئیے اس سارے عمل کا حل جذباتی نہیں بلکہ عقلی بنیادوں پہ طے ہو نا چاہئیے

 مذکورہ مسئلے کے حوالےسے ہمارا مؤقف کافی دوٹوک ہے اور  اسے عوام کی عدالت میں بھی پیش کرنے کی ضرورت ہے  تاکہ کوئی ابہام باقی نہ رہےاور نہ یہ سمجھا جائےکہ مذکورہ منصوبےکی مزاحمت کسی عناد’ ذاتی یا پارٹی مخالفت کی وجہ سے ہے۔

   ۔گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج چکوال کے تعارف کی ضرورت اسلئیے نہیں کہ اس کی جڑیں چکوال کے ہر گھر میں پیوست ہیں ‘ یہ سو سالہ تاریخ کا حصہ بھی ہے اور مقامی یاداشت کا ایک پیکرجمیل بھی ‘ اس کے پڑھے ہوئے ایک دو نہیں کارواں در کارواں ہیں اور اس ادارے نے زندگی سے صرف لیا نہیں اسے بہت کچھ دیا بھی ہے۔لیکن مجھے ماضی سے ذیادہ اس کے حال پہ بات کرنی ہے۔سرکاری تعلیمی اداروں کی زبوں حالی کے اس دور میں عمومی طور پہ ان اداروں کےپاس بیان کرنے کیلئیےان کے شاندار ماضی کا تزکرہ ہی رہ گیا ہے کیونکہ کچھ اپنی کوہتاہیوں اور کچھ حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے  ان کا حال بے حال ہو چکا ہے لیکن ذرا ٹھرئیے  گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج  ماضی کا مزار نہیں دور حاضر کا روشن مینار ہے۔

ابھی انہی  ہفتوں کی بات ہے ہمارے طالب علم ارسلان احمد نے روالپنڈی بورڈ کے امتحان میں مجموعی طور پر دوسری پوزیشن حاصل کی اور یہ بھی ابھی کی بات ہے کہ گجرات یونیورسٹی کے امتحانات میں ایم اے ایم ایس میں دو گولڈ میڈل اور بی ایس کی سطح پہ فزکس میں ایک اور گولڈ میڈل اور انگلش اور ریاضی میں تیسری پوزیشنز آئیں۔یہ بھی اسی مہینے کی بات ہے کہ ہمارے کالج میں انٹر اور بی ایس کے داخلے ہوئے اور میرٹ اتنا بلند ہؤا  کہ راولپنڈی اور لاہور کی یونیورسٹیز کی سطح کو چھونے لگا  ہے۔بی ایس کی سطح پہ صرف ایک تہائی افراد ہی داخلے کے حقدار ٹھرے اور باقی محروم رہ گئے۔بی ایس میں پڑھائے جانے والے آٹھ مضامین میں ہر ایک میں پچپن سیٹیں ہیں لیکن درخواستوں کی تعداد ہزاروں میں جا پہنچی ہے۔

ادارے کے معیار اور ترقی کی وجہ سے اب اکثر مضامین میں  دو سو سے زائد درخواستیں موصول ہوتی ہیں۔آئی ٹی ‘ فزکس اور میتھ جیسے مضامیںن میں یہ تعداد تین سو سے بھی تجاوز کر جاتی ہے۔اور اس بار تو انٹر لیول پہ موصولہ درخواستوں کی تعداد بھی اتنی ذیادہ  ہے کہ ایوننگ شفٹ میں بھی میرٹ کی وجہ سے  سینکڑوں طلبہ داخلے سے محرومی کا شکار ہو گئے۔کچھ تو ہے جو پرائیویٹ  جگمگ کرتے تعلیمی اداروں کی موجودگی میں بھی گورنمنٹ کالج کا قد کاٹھ  اتنا ہی بڑا ہے جتنا کہ پہلے ہؤا کرتا تھا۔  لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ مقامی  ویمن کالج میں داخلوں کی کمیابی کا رونا تو رویا جاتا ہے مگر یہ بات مکمل طور پہ نظر انداز کر دی جاتی ہے کہ سب سے ذیادہ وسعت کی ضرورت تو بوائز کالج چکوال کو ہے جہاں داخلوں سے رہ جانے والوں کا تناسب کسی اور ادارے سے کہیں ذیادہ ہے۔  ۔

دو سال پیشتر ایک کھنڈر نما  کمرے میں جس میں بمشکل ایک چھوٹا سا میز ہی سما سکتا تھا اور جس کا روشندان ٹوٹا ہؤا اور روشنی ناپید تھی میں اور دوسرے اساتذہ نے چار طلبہ پہ مشتمل ایک کلاس کو پڑھایا۔ ان چار میں سے ایک طالبہ نے گجرات یونیورسٹی میں تیسری پوزیشن حاصل کی اور دو سٹوڈنٹس اعلٰی تعلیم کے لئیےچین کا سکالر شپ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔میرا دل کرتا ہے میں ادارےکے دورہ کرنے والوں کو  یہ کمرہ ضرور دکھاؤں جس میں پرائیویٹ اداروں کی طرح نہ تو کوئی ایئر کنڈیشن تھا ‘ نہ وائٹ بورڈ اور نہ ہی وائٹ واش سے چمکتے ہوئے کلاس روم کی عظمت مگر مٹی نم ہو ‘ کلچر میں محنت کا عنصر ہو تو سہولیات سے تہی ادارے بھی زرخیز ثابت ہوتے ہیں۔اس محنت اور ٹیلنٹ  کی کئی داستانیں یہاں ہر استاد کے پاس مو جود ہیں۔ استادوں کا ذکر ہؤا ہے تو اس بارے بھی کچھ سُن لیں۔۵۵ اساتذہ میں سے تین  پی ایچ ڈی ڈاکٹرز ہیں  اور مزید تین پی ایچ ڈی ڈاکٹرز بننے کے قریب ہیں ‘ ۲۱ ایم فل کر چکے ہیں ارر ۵ ایم فل کرنے میں مصروف ہیں۔اس طرح ستر فیصد فیکلٹی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور یونیورسٹی سطح کی  تعلیم دینے کی مکمل استطاعت رکھتی ہے۔

حتیٰ کہ سی ٹی آئیزسٹاف میں بھی پی ایچ ڈی اور ایم فل لوگ موجود ہیں۔ادارے میں انٹر بی ایس اور ماسٹرز لیول کے تین سطحی تعلیمی انتظام کا ہونا’ درجنوں مضامین میں تعلیم کی سہولت ‘ اور اعلیٰ تعلیم یافتہ فیکلٹی کی وجہ سے ضلع بھر میں یہ وہ واحد تعلیمی ادارہ ہے جو ۲۰۱۳ کے انتخابات میں شہباز شریف اور نواز شریف صاحبان کے یونورسٹی بنانے کے وعدے کو وفا کرنے کی اہلیت رکھتا ہے ۔ اس ادارے کا یونیورسٹی میں اپ گریڈ ہونا چنداں  مشکل نہیں  مگر ممبران اسمبلیز کو دوسری یونیورسٹیز کے سب کیمپس بنانے کی جدوجہد سے ہی فرصت نہیں کہ وہ اس امکان پہ بھی غور کر سکیں۔اقتدار کے ایوانوں میں صاحبان اقتدار سے قربت ہو تو سب کچھ ممکن ہوسکتا ہے۔احسن اقبال صاحب نے نارووال اور خرم دستگیر صاحب نے  گوجرانوالہ میں خود مختار یونیورسٹیز کے خواب کو حال ہی میں شرمندہ تعبیر کیا ہے۔ ۔

بات اس کالج کے مسائل کی نشاندہی سے شروع ہوئی تھی اور اس ضمن میں کلاس رومز کی نایابی کا یہ عالم ہے کہ دو سال پیشتر سردار عباس کے دور میں بنائے ہوئے کلاس رومز کی پارٹیشن کر دی  گئی اور یوں پچیس افراد کی گنجائش والے کمرے میں پچپن طلبہ و طالبات کو ٹھونس دیا گیا۔کیا ہی اچھا ہو کالج میں وقتاًُ فوقتاً آنے والے معزز مہمان آڈیٹورئیم کی آرام دہ کرسیوں پہ بیٹھنے کے بجائے ان کمروں کا دورہ بھی کریں اور اپنی آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھیں ۔سٹاف کی کمی’ کلاس رومز کی ضرورت’ گرلز کیلئے ہاسٹلز’ نئی لائیبریری کا قیام’ گرلز سپورٹس سنٹر اوران جیسے مطالبات بڑے تواتر سے کالج کے فنکشنز میں آنے والے ذی اثر طبقے کے سامنےاٹھائے جاتے رہے مگر وائے قسمت کے ان مطالبات کو ایسے کان میسر نہ آسکے جو درد دل سے یہ سب سُن سکتے۔موجودہ تعمیراتی منصوبہ کےلئیےجب کالج پرنسپل سے این او سی مانگا گیا تو انہوں نے ان سب تحفظات کا تحریری ذکر بھی کیا’ ڈپٹی ڈائریکٹر کالجز نے بھی  جگہ کے انتخاب اور اس کی ناموزونیت کی طرف توجہ دلائی مگر اس کو در خود اعتنا نہیں جانا گیا۔  مزید ستم ظریفی یہ کہ ارباب اختیار نے مندرجہ بالا تعمیرات کے انتظار میں موجود جگہوں کو “خالی اور بےآباد” قرار دیتے ہوئے ان کے اوپر ایک علیحدہ ویمن کالج لاد دینے کا باقاعدہ فیصلہ کر لیا جیسے ایک ادارے کے اندر ایک اور ادارہ قائم کرنا  کوئی خود کار کمپیوٹر گیم ہو  حالانکہ عقلی تقاضہ یہ تھا کہ پہلے سے موجود ویمن کالج کے اندر بے حدوحساب خالی زمین پہ یہ منصوبہ ذیادہ بہتر طریقے سے پنپ سکتا تھا اور اس میں ہر لحاظ سے طالبات اور عوام کو سہولت بھی ہونی تھی۔پنوال نوروال اور شہر کے اندر کچھ دیگر مقامات کو بھی نئے ویمن کالج کے لئیے موزوں قرار دیا گیاتھا مگر جیسا کہ  مشیراں تاریخ انسانی میں کرتے آئے ہیں  قرعہ فال وہاں پڑا جہاں  اس کی توقع بھی نہیں تھی اور بقول شخصے” تُک ” بھی نہیں تھی۔ مزید کسی پریشانی سے بچنے کےلئیے موسم گرما کی چھٹیوں کو اچھا موقع جانتے ہوئے اس پہ تعمیر کا آغاز بھی کر دیا گیا تاکہ کسی کو کسی اجتجاج کی  زحمت بھی نہ کرنا پڑے۔

کسی کامیاب تعلیمی ادارے کے اندر اسی سطح کے ایک اور تعلیمی ادارے کا قیام کس جذبے کے تحت عمل میں آیا ہے ہم اس کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔گورنمنٹ کالج کے اندر بی ایس اور ماسٹر لیول کی مخلوط تعلیم میں ستر فیصد تعداد طالبات کی ہے اور اسی احاطے میں ایک اور ویمن کالج کا قیام  کا نتیجہ سوائے اس کے کچھ نہ ہو گا کہ پہلے سے موجود ادارے کو کمزور کر دیا جائےاور پہلے سے موجود ادارے کی روز افزوں ترقی ماشااللہ اب اس مقام پہ ہے کہ اسے ایک مکمل یونیورسٹی کی صورت دی جا سکتی ہے جس کے لئے آمدہ وقت میں اسے بحرحال زمین کی ضرورت ہو گی۔ویمن کالج کے قیام سے اس کی زمین میں مزید کٹوتی ہو گی جس کو پچھلے پچاس سالوں میں قبضہ گروپس سے بچانے کے لئے اساتذہ اور طلبہ نے بےمثال جدوجہد کی ہے۔اس زمین کے ایک حصے پہ اب بھی ایک پرائیویٹ اسکول قابض ہے اور کچھ حصے محکمہ اوقاف کی مہربانی سے متنازعہ ہیں۔ایسے میں کالج احاطے کے اندر اس طرح کے ایڈوینچر پہ جس غوروغوص کی ضرورت تھی وہ بدقسمتی سے روبہ عمل نہ ہو سکااور نہ ہی مشاورت کا کوئی سلسلہ تشکیل پا سکا جس سے مجوزہ منصوبے کے سب پہلوؤں کا احاطہ ہو سکتا۔

پروفیسرز ایسوسی ایشن اپنی نمائندہ حیثیت میں   مقامی اور قومی سطح پہ اس ایشو پہ مختلف زاویوں سےسر گرم عمل ہےجس کے اثرات ہر دونوں سطح پر مثبت انداز میں سامنے آئے ہیں۔جہاں چکوال کو نئے وومن کالج کی  ضرورت ہے وہاں موجودہ پوسٹ گریجویٹ کالج کی مزید وسعت اور اپ گریڈیشن بھی مقامی قیادت کی ذمہ داری جو ظاہر ہے منصوبے کی موجودہ صورت میں ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ کالج سے متعلقہ دیگر سابقہ اور موجودہ حلقے اور سول سوسائٹی کے افراد بھی اس موضوع پہ ایک رائے رکھتے ہیں  خواب اور زمینی حقائق میں ٹکراؤ کی صورت کے بجائے کوئی قابل عمل لائحہ عمل ہی اس مسئلے کا حل ہے۔ ویمن کالج کے قیام پہ کسی کو اختلاف نہیں مگر موجودہ مقام پہ اس کی تعمیر ہر لحاظ سے متنازعہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).