شادی ایک اور نکاح متعدد – ایک غلط فہمی


\"saad-usman\"کچھ دن قبل مفتی عبدالقوی صاحب نے ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے اپنے علم کا نچوڑ بیان کرتے ہوئے فرمایا \” آج اکیسویں صدی میں جب ہم نے بدکرداری اور بداخلاقی کا دروازہ بند کرنا ہے تو قرآن و سنت کا خلاصہ یہ ہے کے شادی ایک ہو گی اور نکاح متعدد ہو سکتے ہیں۔ جو عورت آپ کی محرم نہ ہو اور کسی کی منکوحہ نہ ہو اس سے آپ جو معاہدہ کریں گے وہ شرعاً نکاح ہو گا\”۔

پہلی بات تو یہ کے ایک مختصر ویڈیو میں مبہم طور پر ایک ایسے مسئلے کو پبلک کرنا جس کے معاشرے پر دور رس اثرات ہو سکتے ہیں، مذاق کے سوا کچھ نہیں ہے۔ معلوم نہیں کہ  اس بات سے مفتی صاحب ڈھکے چھپے لفظوں میں نکاح متعہ و نکاح موقت کو جائز قرار دے رہے ہیں یا مارکیٹ میں کچھ نیا لا رہے ہیں؟ شادی میں اصل یہ ہے کے اس میں استمرار اور ہمیشگی ہو۔ اللہ تعالٰی نے تو خاوند اور بیوی کے مابین مودت و محبت اور رحمت پیدا کی ہے اور خاوند کے لیے بیوی کو سکون والا بنایا ہے اور اولاد پیدا کرنے کی رغبت ڈالی ہے۔ کیا عارضی نکاح میں یہ سب موجود ہو گا؟ کیا اس طور پر نکاح صرف شہوت پوری کرنے کا ذریعہ نہیں رہ جائے گا؟ \”شادی ایک ہو گی اور نکاح متعدد\” معلوم نہیں مفتی صاحب شادی اور نکاح میں فرق کس طور پر کر رہے ہیں، اور پتہ نہیں وہ یہ بات کہاں سے لائے ہیں۔ شریعت میں تو اس بات کا کوئی وجود نہیں۔

سورہ نساء میں اللہ تعالٰی ارشاد فرماتے ہیں ترجمہ : \”جو عورتیں تم کو پسند ہیں ان سے نکاح کرو دو دو سے تین تین سے اور چار چار سے اور اگر تمہیں یہ خدشہ ہو کہ ان کے درمیان انصاف نہیں کر سکو گے تو صرف ایک نکاح کرو یا اپنی کنیزوں پر اکتفا کرو\”۔ اللہ تعالٰی نے قضاء شہوت کی صرف دو جائز صورتیں بیان فرمائی ہیں، ایک سے چار بیویوں تک نکاح کر سکتے ہیں یا پھر اپنی باندیوں سے نفسانی خواہش پوری کی جا سکتی ہے اور بس۔ اگر عارضی نکاح بھی قضاء شہوت کی جائز شکل ہوتا تو اس کا بھی ان دو صورتوں کے ساتھ ذکر ہوتا۔ اس جگہ کسی اور شکل کا بیان نہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ کوئی اور شکل جائز نہیں.

ایک اور جگہ ارشاد باری تعالٰی ہے ترجمہ : \”اور جو لوگ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں سوائے اپنی بیویوں اور لونڈیوں کے، یقینا یہ ملامتیوں میں سے نہیں۔ جو اس کے علاوہ کچھ اور چاہیں وہ ہی حد سے تجاوز کرنے والے ہیں\”۔ (سورہ المؤمنون) عارضی نکاح والی عورت آپ کی بیوی قرار دی جا سکتی ہے اور نہ ہی لونڈی، یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ اس طرح وقتی معاہدہ کر کے نکاح صرف عیاشی ہے۔ اس میں مرد پر عورت کے لیے نان نفقہ ھو گا اور نہ طلاق، نہ عدت اور نہ ہی وہ مرد کی وارث بنے گی۔ عارضی نکاح پر ائمہ اربعہ کا اتفاق ہے کے یہ حرام ہے۔ کیا مفتی صاحب چاروں میں سے کسی ایک امام کی بھی اس سلسلے میں کوئی واضح دلیل پیش کر سکتے ہیں؟ کیا مفتی صاحب نے عارضی نکاح کی خرابیوں کے بارے میں سوچا؟ آج جب کہ انصاف کا فقدان ہے تو ان معاہدوں سے حاصل ہونے والی نسل کا مستقبل کیا ہو گا؟ کیا وہ دردر کی ٹھوکریں نہیں کھائے گی؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ مفتی صاحب ہمیں بد کرداری اور بد اخلاقی سے بچاتے بچاتے ایسی دلدل میں پھنسا دیں جس سے ہمارا خاندانی نظام ہی تباہ ہو کر رہ جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
7 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments