اقوام متحدہ میں وزیراعظم کی تقریر: اب کیا کرنا ہے


وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کا مقدمہ بھرپور طریقے سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے دنیا، مشرق وسطیٰ اور ایشیا کو لاحق مسائل کا تذکرہ کرتے ہوئے پاکستان کے حوالے سے علاقائی صورتحال کا تفصیل سے جائزہ پیش کیا اور دنیا کے لیڈروں پر واضح کیا ہے کہ دہشت گردی کے حوالے سے ان کی کوششیں دو پہلوؤں سے نامکمل رہی ہیں۔ پاکستانی لیڈر کے بقول عالمی دہشت گردی سے نمٹنے کےلئے جامع اور ہمہ جہتی حکمت عملی پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم دنیا اس حوالے سے ریاستوں کی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی پر توجہ مبذول نہیں کر سکی۔ اسی طرح ان حالات سے نمٹنے کی کوشش بھی نہیں کی گئی جو دہشت گردی پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ ان دو باتوں میں سے وزیراعظم عباسی کی پہلی بات کو مقبوضہ کشمیر میں موجودہ صورتحال اور بھارتی حکمت عملی کی طرف اشارہ سمجھا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان یہ بھی قرار دیتا ہے کہ بھارت افغانستان کے راستے پاکستان دشمن عناصر کے ذریعے دہشت گردی کو فروغ دینے کا سبب بن رہا ہے۔ عالمی دہشت گردی کے حوالے سے وزیراعظم عباسی کا دوسرا نکتہ امریکہ اور مغربی ممالک کی وسیع تر حکمت عملی میں نقائص کی نشاندہی کرتا ہے۔ تاہم اس پہلو کو اجاگر کرنے کےلئے پاکستان کو ہم خیال ملکوں کے ساتھ مل کر زیادہ مستعدی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے حوالے سے وزیراعظم کی اقوام متحدہ میں موجودگی کے دوران بعض مثبت اشارے بھی سامنے آئے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی کی امریکی نائب صدر مائیک پنس سے ملاقات ہوئی جس میں دونوں لیڈروں نے دہشت گردی کے خلاف کام کرنے کےلئے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر چلنے کے عزم کا اظہار کیا۔ پاکستان میں وزیراعظم کی امریکی نائب صدر سے ملاقات کو پاکستانی حکومت کی سفارتی ناکامی قرار دیا جا رہا تھا۔ سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی نے تو یہاں تک کہا تھا کہ اگر امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے ملنے کےلئے تیار نہیں تھے تو انہیں امریکی نائب صدر سے ملنے سے انکار کر دینا چاہئے تھا۔ اگرچہ امریکی صدر سے براہ راست ملاقات نہ ہونے سے امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں دوری کا تاثر سامنے آتا تھا لیکن اگر وزیراعظم مائیک پنس سے ملنے سے بھی انکار کر دیتے تو دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تناؤ میں اضافہ ہو سکتا تھا۔ اس دوری کے سبب پاکستان کےلئے مشکلات میں اضافہ ہو سکتا تھا۔ گزشتہ ماہ صدر ٹرمپ کی طرف سے جنوبی ایشیا کے بارے میں نئی امریکی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے پاکستان پر دہشت گردی کی سرپرستی کا الزام عائد کیا گیا تھا اور بھارت کو افغانستان کے ترقیاتی منصوبوں میں زیادہ سرگرمی دکھانے کی دعوت دی گئی تھی۔ پاکستان نے اس امریکی موقف کو مسترد کیا تھا اور قومی اسمبلی نے ایک قرارداد میں واضح کیا تھا کہ پاکستان پر الزام تراشی سے مسائل حل نہیں ہوں گے اور نہ ہی بھارت کو افغانستان میں اثر و رسوخ فراہم کرکے پاکستان کے اندیشے کم کئے جا سکتے ہیں۔ اسلام آباد سے تند و تیز بیانات کے علاوہ متعدد سفارتی رابطوں کو معطل کرکے بھی واشنگٹن سے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا گیا تھا۔ پاکستان جیسا چھوٹا اور بے وسیلہ ملک امریکہ جیسی سپر پاور کے سامنے اس سے زیادہ مزاحمت کرنے کے قابل بھی نہیں ہے۔

اس پس منظر میں امریکی نائب صدر سے ملاقات کی دعوت کو قبول کر کے حکومت پاکستان اور وزیراعظم نے ایک دانشمندانہ اور معقول فیصلہ کیا تھا۔ اس طرح یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ پاکستان نے درشت امریکی موقف کے خلاف اپنا احتجاج رجسٹر کروا لیا ہے لیکن وہ دہشت گردی کے علاوہ دیگر شعبوں میں مثبت تعاون سے گریز نہیں کرنا چاہتا۔ اسی مثبت اور بظاہر غیر مقبول ڈپلومیسی کا نتیجہ ہی تھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے شمالی کوریا کو تباہ کرنے اور ایران کو دہشت گردی برآمد کرنے سے باز رہنے کی پرجوش دھمکی دی تھی لیکن انہوں نے پاکستان کے خلاف اپنے الزامات کو دہرانا مناسب نہیں سمجھا۔ حالانکہ افغانستان کی جنگ امریکی حکومت کےلئے زبردست چیلنج بنی ہوئی ہے۔

اس حوالے سے پاکستان کا کردار بھی بے حد اہم ہے اور امریکہ کے صدر نے پاکستان کے خلاف کوئی تبصرہ کرنے سے گریز کر کے پاکستان کی اس اہمیت کو قبول بھی کیا ہے۔ اسے پاکستانی حکومت کی خاموش سفارت کی کامیابی کے طور پر دیکھنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دنیا کے لیڈروں کے اعزاز میں دیئے گئے استقبالیہ کے دوران وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے ملاقات بھی کی اور پاکستان کے ساتھ تعاون اور تعلقات کی اہمیت کو تسلیم کیا۔ اس طرح یہ قیاس اور امید کی جا سکتی ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں صدر ٹرمپ کے جوشیلے اور عاقبت نااندیشانہ پالیسی بیان کی وجہ سے جو دوری پیدا ہوئی تھی، اسے کم کرنے کی کوششوں کا آغاز ہوا ہے۔ امریکہ نے بھی یہ تسلیم کیا ہے کہ پاکستان پر الزام تراشی سے مسائل حل نہیں ہو سکتے بلکہ افغانستان میں امن و امان کی بحالی اور علاقے میں دہشت گرد گروہوں کی روک تھام کےلئے پاکستان کا ساتھ بے حد ضروری ہے۔

اسی طرح پاکستان بھی واضح کرنے میں کامیاب ہو رہا ہے کہ اگرچہ وہ چین کے ساتھ تعلقات پر مطمئن اور خوش ہے اور اقتصادی شعبہ کے علاوہ فوجی اور اسٹریٹجک پہلوؤں سے بھی دونوں ملکوں کے درمیان قربت پیدا ہوئی ہے لیکن وہ ایک ملک کے ساتھ دوستی کےلئے دوسرے ملک کے ساتھ تعلقات کو قربان کرنے کی پالیسی پر گامزن نہیں ہے۔ یہ ایک متوازن اور نپی تلی پالیسی لائن ہے۔ ورنہ پاکستان میں ایسے عناصر کی کمی نہیں ہے جو پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ اور روس، چین اور وسطی ایشیائی ملکوں سے پاکستان کی قربت کا حوالہ دیتے ہوئے حکومت کو امریکہ کے ساتھ تصادم اور دشمنی کا راستہ اختیار کرنے کا مشورہ دیتے نہیں تھکتے۔ البتہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور ان کی حکومت نے ایک متوازن اور مثبت رویہ اختیار کر کے عالمی سفارت کاری میں اپنی جگہ بنانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔

اس کا اظہار جنرل اسمبلی میں برطانیہ کی وزیراعظم تھریسامے کے خطاب کے دوران بھی دیکھنے میں آیا۔ انہوں نے پاکستان کی سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کو دہشت گردی کے خلاف مزاحمت اور جمہوری حقوق کی علامت قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی قربانیوں کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ دنیا کے ایک اہم ملک اور امریکہ کے قریبی حلیف ملک کی وزیراعظم کی طرف سے یہ اعتراف پاکستانی حکومت کی سفارتی کوششوں کی کامیابی ہی ہے۔ اس سے یہ تاثر بھی کمزور ہوا ہے کہ بھارت نے پاکستان کو سفارتی طور پر تنہا کرنے کی جس حکمت عملی پر عمل شروع کر رکھا ہے، اس کی وجہ سے دنیا میں پاکستان کی باتوں کو مسترد کیا جا رہا ہے اور اسے مسائل سے بھرپور ایک ایسی ریاست کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جو بالواسطہ دہشت گردی کے فروغ کا سبب بھی بن رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے دوران پاکستانی وزیراعظم کی مصروفیات اور اس حوالے سے سامنے آنے والی خبروں کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان نے خارجہ تعلقات کے حوالے سے زیادہ مستعدی سے کام کا آغاز کیا ہے۔ تاہم پاکستان کو دنیا میں اپنا اعتبار بحال کرنے اور موجودہ مشکلات سے نکلنے کےلئے انتہا پسندی کے خلاف عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہوگی اور دنیا کے ان اندیشوں کو غلط ثابت کرنا ہوگا کہ پاکستان، افغانستان میں بدامنی کا ذمہ دار ہے، طالبان کو عسکری امداد یا محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتا ہے یا دنیا کے دہشت گردوں کا تربیتی مرکز بنا ہوا ہے۔

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو نیویارک کی متعدد تقریبات اور انٹرویوز کے درمیان اس حوالے سے سوالات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اسی بارے میں یہ بھی پوچھا گیا کہ لاہور میں حال ہی میں منعقد ہونے والے ضمنی انتخاب میں کیوں کر ایک پارٹی عالمی دہشت گرد حافظ سعید کی تصویروں والے بینرز کے ساتھ اپنی انتخابی مہم چلاتی رہی تھی۔ ملک کے توہین مذہب قوانین کو استعمال کرتے ہوئے اقلیتوں کے خلاف امتیازی رویوں کے فروغ کی باتیں بھی پاکستان میں انتہا پسندی کے حوالے سے بنیادی اہمیت رکھتی ہیں۔ وزیراعظم کو ان سوالات پر غور کرنے اور وطن واپس آ کر ان حالات سے نمٹنے کےلئے سیاسی مفاہمت پیدا کرنے کا کام کرنا ہوگا جو بجا طور سے ملک کے مسائل اور پاکستان کے بارے میں دنیا کی تشویش کا سبب بن رہے ہیں۔ تب ہی پاکستانی لیڈر کی اس بات پر یقین پیدا ہوگا کہ پاکستان، افغانستان کی جنگ میں کسی گروہ کا آلہ کار نہیں بنے گا اور اپنی سرزمین کو بیرونی تنازعات کی آماجگاہ نہیں بننے دے گا۔ اسی صورت میں مقبوضہ کشمیر کے بارے میں پاکستان کی آواز بھی زیادہ غور سے سنی جائے گی۔

ایک پرامن ، مستحکم اور خوشحال پاکستان ہی بھارت کی سفارتی مہم جوئی کا سب سے موثر جواب ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کےلئے جدوجہد کا آغاز پاکستان کو اپنے گھر سے ہی کرنا پڑے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali