آمر برے لوگ نہیں ہوتے


سیاستدان بھلے جتنا بھی منہ پھٹ یا دلیر ہو وہ ایسی باتیں کہنا افورڈ نہیں کر سکتا جو ایک ڈکٹیٹر کر سکتا ہے۔ ڈکٹیٹرز بالخصوص فوجی ڈکٹیٹرز کو جوابدہی کا کھٹکا نہیں ہوتا۔ اپنے اردگرد کی دنیا پر نگاہ ڈالیے۔ اگر 20ویں صدی میں 100 ڈکٹیٹر گزرے تو ان میں سے کتنے کسی سیاستدان کی طرح کٹہرے میں کھڑے کیے جا سکے یا سزاوار بنائے جا سکے۔ انڈونیشیا کے آمر سہارتو کے 30 سالہ دور کا ریکارڈ اور اس کا زوال دیکھیے۔ کیا سزا و جزا کا کوئی تناسب بنتا ہے؟ وجہ یہ تھی کہ سہارتو معزول ہوا مگر اس کے پشت پناہ تو معزول نہیں ہوئے۔

پنوشے کو دیکھ لیجیے۔ پنوشے نے جو چلی کے عوام کے ساتھ کیا، کیا اسے متعدد ممالک میں مطلوب ہونے کے باوجود اندرون و بیرون ملک اسی تناسب سے مرتے دم تک کوئی سزا ملی؟ حسنی مبارک نے 30 برس جو چاہا سو کیا، کسی نے چند دن جیل میں رکھ کے کیا بگاڑ لیا اور اب اس کی فوٹو کاپی عبدالفتح السیسی کو ملاحظہ کر لیں۔ چنانچہ انجمنِ ڈکٹیٹرانِ کرہِ ارض خود کو عقلِ کل اور ناقابلِ تسخیر کیوں نہ سمجھے؟

اب کوئی مائی کا لال سیاستدان وہ سب دھڑلے سے کہہ سکتا ہے جو پرویز مشرف صاحب نے پاکستان کے 70 برس پورے ہونے پر ایک خصوصی انٹرویو میں کہا۔ فرماتے ہیں کہ ایشیا میں جہاں بھی ترقی ہوئی ڈکٹیٹروں کی وجہ سے ہوئی۔ پاکستان بھی ڈکٹیٹروں نے ٹھیک کیا لیکن جب وہ گئے تو سویلینز نے بیڑہ غرق کر دیا۔ آگے فرماتے ہیں کہ آئین مقدس ہے مگر قوم سے زیادہ نہیں۔ اب میں یہ سوچوں کہ آئین کے آرٹیکل چھ میں کیا لکھا ہے یا ملک بچا لوں؟ مجھے لٹکا دو۔ میں فوج کا سربراہ رہا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ فوج میری ویلفیئر دیکھتی ہے۔

جب کوئی ڈکٹیٹر اس قدر پراعتماد ہو کہ اس سے کچھ غلط ہو ہی نہیں سکتا۔ وہ غلط سوچ ہی نہیں سکتا تو وہ قومی اخبارات کے ایڈیٹرز کے منہ پر یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ بلوچستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے پیچھے دو یا تین قبائلی سردار ہیں۔ ماضی کی حکومتیں ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے سودے بازی کرتی رہیں مگر میری حکومت اپنی رٹ قائم رکھنے کے لیے پرعزم ہے۔ یہ لڑائی منطقی انجام تک پہنچائی جائے گی۔

وہ یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ ‘ہمیں مجبور نہ کرو۔ یہ 1970 کی دہائی نہیں کہ تم حملہ کر کے بھاگ کر پہاڑوں میں چھپ جاتے تھے۔ اس بار پتہ بھی نہیں چلے گا کہ تمہیں کیا چیز آ کے لگی ہے۔’ اور وہ یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ ‘جو کوئی پاکستان کو نہ مانے اور ملکی بقا کے خلاف ہو اسے مارنا چاہیے۔ ‘آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس مسیحانہ سوچ کے سبب بلوچستان پچھلے 14 برس میں کس قدر پرامن ہو چکا ہے۔

ایک ڈکٹیٹر کو یقین ہوتا ہے کہ اس سے بہتر حب الوطن، جج اور جیوری کوئی نہیں۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ سکیورٹی رسک بن جائے۔ وہ جو بھی کہہ دے اس سے ملک کی شہرت خراب ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ملک اگر بدنام ہوتا ہے تو سیاستدانوں کے کرتوتوں سے۔

لہٰذا وہ غیرملکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کو انٹرویو میں دھڑلے سے فیصلہ صادر کر سکتا ہے کہ ‘آپ کو پاکستان کا ماحول جاننے کی ضرورت ہے۔ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر آپ (عورت) باہر جانا چاہتے ہیں، کینیڈا کا ویزہ یا شہریت چاہتے ہیں اور دولت بھی تو آسان راستہ ہے کہ خود کو ریپ کروا لو۔’

اور یہ سب کہنے کے بعد ڈکٹیٹر اس پر حیران بھی ہوتا ہے کہ میں نے ایسا کیا کہہ دیا کہ کینیڈین وزیرِ اعظم پال مارٹن چھت سے لگ گیا اور ایمنسٹی انٹرنیشنل بھی مطالبہ کر رہی ہے کہ یہ توہین آمیز بیان واپس لیا جائے۔

سیاستدان کسی بھی قبیل کے ہوں چونکہ طرح طرح کے علاقائی و نظریاتی سانچوں سے ڈھل ڈھلا کے آتے ہیں لہٰذا ان کا زاویہِ نگاہ بھی ایک دوسرے سے مختلف رہتا ہے مگر ڈکٹیٹرز ایک ہی سانچے میں ڈھلے ہوتے ہیں لہذا ان کی سوچ ، برتاؤ، دیکھنے، سننے اور سوچنے کا انداز بھی لگ بھگ جڑواں جڑواں سا لگتا ہے۔ یہ قدرِ مشترک جنوبی امریکہ سے افریقہ و ایشیا تک یکساں ہے۔

سب ڈکٹیٹرز نجات دہندہ ہوتے ہیں، سب کسی مقدس مشن کی تکمیل کر رہے ہوتے ہیں، سب اپنی ذات کے لیے بھی جو سوچتے ہیں وہ بھی قومی فلاح کا ہی لازمی جزو ہے۔ کوئی بھی پالیسی، دستاویز، شخصیت یا شخصی کردار ان کی سوچ سے زیادہ پاک نہیں ہوتا۔

مثلاً ضیاالحق صاحب نے 90 روز میں انتخابات کروا کے جمہوریت کو دوبارہ پٹڑی پر چڑھانے کے پہلے وعدے کے صرف تین ماہ بعد ستمبر 1977 میں ایک ایرانی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا ‘آئین کیا ہے؟ دس یا 12 صفحات کا کتابچہ؟ میں اسے ابھی ابھی پھاڑ کے کہہ سکتا ہوں کہ کل سے یہ ملک ایک نئے ضابطے کے تحت چلے گا۔ آج میں جہاں جاؤں لوگ پیچھے چلیں گے۔ اپنے وقت کے طاقتور بھٹو سمیت تمام سیاستدان بھی دم ہلاتے میرے پیچھے آئیں گے۔’

سقوطِ مشرقی پاکستان سے صرف چار ماہ پہلے 31 اگست 1971 کو یحیٰی خان نے امریکی ٹی وی چینل این بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ‘ کیا تم نے سرحد دیکھی ہے۔ تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ یہ سرحد ہے۔ سرحد کوئی کھنچی ہوئی لکیر تو نہیں ہوتی۔ یہ تو درختوں، جھاڑیوں، دریائی نالوں کا مجموعہ ہوتی ہے۔ تم نے جن لوگوں کو سرحد پر دیکھا وہ مشرقی پاکستان سے انڈیا جانے والے پناہ گزین نہیں۔ میرے ساتھ چلو میں دکھاتا ہوں کہ انڈیا سے پاکستان کتنے پناہ گزیں آ رہے ہیں۔

‘یہ ایک مبالغہ آمیز پروپیگنڈا ہے کہ فوج یا میری حکومت مشرقی پاکستان کے عام لوگوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ فوج کبھی ظلم نہیں کرتی۔ فوج نے تو مشرقی پاکستان کے 70 ملین لوگوں کو عوامی لیگ کی مسلح علیحدگی پسند بغاوت سے بچایا ہے۔ فوجی ایکشن کے بعد مشرقی پاکستان کی اکثریت نے سکھ کا سانس لیا ہے۔

میں فوجی ہوں کوئی سیاستدان نہیں۔ جس وقت بھی محسوس کیا کہ میں حقیقت سے کٹ چکا ہوں فوراً عہدہ چھوڑ دوں گا۔ مشرقی پاکستان کو میں اپنی ہتھیلی کی لکیروں کی طرح جانتا ہوں۔ جتنا میں جانتا ہوں اتنا تو کوئی مشرقی پاکستانی بھی اپنے بارے میں نہیں جانتا۔۔۔’

سیاستدان وقت و حالات کے حساب سے خود کو اور اپنے نقطہ نظر کو ایڈجسٹ کر سکتا ہے مگر ڈکٹیٹرز چونکہ ہوتے ہی درست ہیں لہٰذا وہ عروج پر رہیں یا زوال میں آ جائیں آپ ان کی شخصیت اور رائے نہیں بدل سکتے۔

ایسا ہونے لگے تو پھر ڈکٹیٹر کون کہے؟

اگر ایوب خان نے 1962 میں سابق وزیرِ اعظم حسین شہید سہروردی کے بارے میں فتویٰ دیا کہ وہ ایک بیرونی گماشتہ اور شرپسند ہے اور پھر 1964 میں ٹائم میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے کہہ دیا کہ فاطمہ جناح بھارت کے زیرِ اثر ہیں تو یہ کوئی جز وقتی سیاسی الزام نہیں تھا بلکہ ایوب خان واقعی یہی سمجھتے تھے۔

ویسے بھی ایک میان میں ایک ہی محبِ وطن رہ سکتا ہے۔

یہ ملنگ لوگ ہیں جینے کا ہنر جانتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).