ماہرہ خان کی کمر پہ کوڑے کیوں لگائے جائیں؟


ماہرہ خان کی کمر پہ کوڑے مارے جائیں، ماہرہ نے ملک کا وقار خاک میں ملا دیا، ماہرہ خان اس قابل نہیں رہیں کہ ان کی عزت کی جائے۔ نئی بات کیا ہے؟ملک کا وقار نہ ہوا، چورن ہو گیا، جو گر کے خاک میں مل گیا۔ ماہرہ بی بی کو بےنظیر، شرمین، ملالہ اور سبین محمود گروپ کا حصہ بننے پر مبارک ہو۔ جیسے نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کرنے والے بےغیرتوں سے نہیں، اس قتل پر لکھنے سے یا ڈاکومینٹری بنانے سے ملک بدنام ہوتا ہے، ویسے ہی بہت سی خواتین یوں بھی ممالک کو بدنام کرا سکتی ہیں جیسے ایک نے ستائیس دسمبر 2007ء کو خود پر ایک کامیاب حملہ کروایا ورنہ آمریت میں کسی شہری کو کوئی نقصان پہنچے، ایسا ممکن ہی نہیں۔ ایک نے ناکام حملے کی منصوبہ بندی کے بعد سر پہ پٹی باندھے باہر جانے کی راہ ہموار کر لی اور اب منہ ٹیڑھا ہونے کی اداکاری کر کے خود کو سچی ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے، کوئی باہر کے ویزے کے حصول کی خاطر ریپ وکٹم بننے کا ناٹک کرتی ہے، کوئی تیزاب گردی پر ڈاکومینٹری بناتی ہے، کوئی سوٹے لگاتی ہے۔

بدنامی تو یہ سندھ کی ہندو لڑکیوں کی وجہ سے بھی ہونی تھی کہ یہ مسلمانوں پر عاشق ہو کر مذہب تبدیل نہیں کرتیں بلکہ ان پہ جبر کیا جاتا ہے مگر اس پراپیگنڈے کے توڑ کی خاطر اتنی کوشش یہ دکھانے کی کر چکے کہ ہم پسند کی شادی کے قائل ہیں، کوئی بھی ہندو لڑکی چودہ سال کی عمر میں لوو میرج کی خاطر اسلام قبول کر کے گمراہی کی روش ترک کر دے، تو سب اس کا ساتھ دیں گے، کچھ خاطر خواہ کامیابی نصیب ہوئی ہے یہ ثابت کرنے میں کہ ہندو لڑکیاں تو باذوق ہیں جو عشق کر بیٹھیں مگر ایسے ہندو لڑکوں کی تعداد محض انگلیوں پہ گنی جا سکتی ہے اور اس کی وجہ پہ بات کرنے سے لوگوں کے جذبات کو ٹھیس ہی پہنچے گی۔ قابو تو یہ باقی لڑکیوں کو بھی کر ہی لیں۔ مگر مسئلہ یہ خدیجہ صدیقی جیسے معاملے کا ہے، اتنی کوشش کی، ایک حملے کو عاشقانہ ثابت کرنے اور یہ کہنے کی کہ صاحب ان کا تو کردار خراب ہے۔ پہلے سے دوستی تھی مگر عجیب جج تھے جنہوں نے لڑکے کو قصوروار ٹھہرایا۔ ایسے فیصلوں کی وجہ سے ہی یہ لڑکیاں ہاتھ سے نکلی جا رہی ہیں۔

بات یہ ہے کہ لڑکیاں تعلیم حاصل کر سکتی ہیں، گھر بھی چلا بھی سکتی ہیں اور اپنا خرچہ خود اٹھا سکتی ہیں۔ دفتر میں نوکری کر سکتی ہیں، ماہر تیراک بھی ہو سکتی ہیں اور ماہر رقاصہ بھی، شاعری بھی کر سکتی ہیں، فلسفیانہ گفتگو بھی کر سکتی ہیں، سانس بھی لے سکتی ہیں، گاڑی بھی چلا سکتی ہیں۔ کسی کو پسند بھی کر سکتی ہیں اور انکار بھی کر سکتی ہیں۔ وہی چوڑیاں جنہیں آپ کمزوری کی علامت سمجھ کر مردانگی کو للکارنے کا پیغام بھجواتے ہیں، انہی چوڑیوں کو پہنے فیصلے بھی کر سکتی ہیں اور آپ کے فیصلے کے خلاف احتجاج بھی کر سکتی ہیں۔ انتخابی مہم بھی چلا سکتی ہیں، ڈور ٹو ڈور کیمپین بھی کر سکتی ہیں، سیاسی جلسوں میں شرکت بھی کر سکتی ہیں اور خطاب بھی کر سکتی ہیں۔ کونے میں کھڑے رہنے کی بجائے سامنے بھی آ سکتی ہیں پھر چاہے آپ ان کی حکمرانی قبول کریں یا برداشت۔ پیراگلائیڈنگ بھی کر سکتی ہیں، سائیکلنگ بھی۔ الیکشن کے روز بال کھولے بال کھولے کالے چشمے لگائے جدید تراش خراش کا لباس پہنے ووٹ ڈالنے بھی جا سکتی ہیں، مارکیٹنگ سیکٹر میں بھی کام کر سکتی ہیں اور بینکنگ سیکٹر میں بھی۔ وہی آپریشن جو مرد حضرات کریں وہی خواتین بھی کر سکتی ہیں اور اسی مہارت سے گاڑی کا ٹائر بھی تبدیل کر سکتی ہیں جیسے آپ کریں۔ جنسی خواہش ان میں بھی ویسی ہی ہوتی ہے، تشنہ لبی ان کو بھی ستا سکتی ہے، انہیں سپیس بھی چاہیئے اور مستقل تقاضوں کی الجھن انہیں بھی تنگ کر سکتی ہے ۔

یاد آیا ایک انٹرویو میں اداکارہ ودیا بالن سے سوال کیا گیا

“What should men know about women that they do not?”

She replied, “We like it, need it, and want it as much as they do.”

 ناچنا گانا انہیں بھی پسند ہو سکتا ہے اونچی آواز میں موسیقی بھی سنتی ہیں، کمرے میں میوزک سسٹم بھی رکھتی ہیں اور اپنی مرضی کے لوگوں کے ساتھ وقت بھی گزارنا چاہتی ہیں۔ خواتین سگریٹ بھی پی سکتی ہیں اور شیشے میں اپنی پسند کے فلیور کا آرڈر بھی دے سکتی ہیں، سوشلی ڈرنک بھی کر سکتی ہیں اور اسے ناپسند بھی کر سکتی ہیں۔ کتاب بھی خرید سکتی ہیں اور کتاب لکھ بھی سکتی ہیں۔ اونچی آواز میں موسیقی بھی سن سکتی ہیں، کمرے میں میوزک سسٹم بھی رکھتی ہیں ۔کھانا بنا سکتی ہیں، کھیتوں میں کام کر سکتی ہیں، ٹرک بھی چلا سکتی ہیں اور ٹریکٹر بھی، پانی بھر کر بھی لا سکتی ہیں اور یہ سب پڑھنے کے بعد آپ کے لیے چلو بھر پانی کا انتظام بھی کر سکتی ہیں ۔ باقی اگر آپ کو بیک لیس پسند نہیں ہے تو مت پہنیں آپ کو مجبور کون کر رہا ہے۔

اب یہ باتیں یا ان میں سے کچھ باتیں کسی قصبے یا دیہات میں تیسری چوتھی بیٹی کی پیدائش پر غمگین ہوتے لوگوں کو سمجھاتی ہوں تو اتنی کوفت نہیں ہوتی۔ یہی باتیں یہاں بظاہر معقولیت کا مکھوٹا سجائے لوگوں کو سمجھانی پڑیں تو گڑبڑ آپ کی سوچ میں ہے اور اسے ٹھیک کرنے کی ضرورت بھی آپ کو ہے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).