رجب خاں ولد بنے خاں ہلاک ہوا، شہید ہوا اور پھر مر گیا


معروف ہندوستانی ادیب ”وشنو ناکر‘ ‘کے افسانے ” شہید“ کا ترجمہ سیّد حیدر جعفری نے کیا ہے۔ کہانی کا آغاز ایک ایسے افلاس زدہ شخص کی موت سے ہوتا ہے جس کے پاس رہنے اور سونے کا واحد ٹھکانہ فٹ پاتھ ہے۔

”وہ فٹ پاتھ پر سو رہا تھا کہ ایک ٹرک اُس پر چڑھ دوڑا اور وہ وہیں مر گیا۔ معلوم نہیں ہوا کہ کراہا بھی تھا یا نہیں۔ اس شہر میں ایسے واقعات روز ہوتے رہتے ہیں۔  چار لائن کی خبر شائع ہو جاتی ہے۔ جو فرصت میں ہوتا ہے وہ پڑھ لیتا ہے، جو مصروف ہوتا ہے وہ نہیں پڑھتا۔ فرق کسی کو بھی نہیں پڑتا۔“

اب چونکہ کہانی میں مرنے والا غریب، وزیرِ اعظم کے انتخابی حلقے کا فرد تھا، جوالیکشن کے قریبی دنوں میں مارا گیا تھا، سو حزبِ اقتدار کے کسی خیر خواہ نے یہ خبر فوراَ وزیرِ اعظم تک پہنچا دی ، بس پھر کس بات کی دیر تھی، وزیرِ اعظم میت پر پھول چڑھانے بہ نفسِ نفیس خود تشریف لائے ۔ پورے ہسپتال کیا علاقے میں کھلبلی مچ گئی۔

”وزیرِ اعظم کے بعد تو اسپتال میں وزراء کا تانتا لگ گیا۔ مقابلہ شروع ہو گیا کہ وزیرِ اعظم کے بعد دوسرے نمبر پر کون اسپتال پہنچتا ہے۔ وزراء کی کاروں میں ریس ہونے لگی۔ کئی بار تو کاریں ٹکراتے ٹکراتے بچیں۔ وزیرِ داخلہ، وزیرِ مالیات سے اور وزیرِ مالیات وزیرِ دفاع سے اور وزیرِ دفاع وزیرِ صنعت و حرفت سے پہلے اسپتال پہنچ گئے، وزیرِ تجارت جو وزیرِ صنعت و حرفت سے 5 منٹ 46 سیکنڈ بعد اسپتال پہنچ سکے، انھیں یہ بات بہت ناگوار گزری ۔  انھوں نے دفترِ وزیرِ اعظم کو خاص اس بات کی شکایت کی کہ انھیں بر وقت اطلاع کیوں نہیں دی گئی۔ “

حزبِ اختلاف کے سربراہ کویہ اطلاع ذرا تاخیر سے موصول ہوئی، پہلے تو وہ اپنی لا علمی پر رنجیدہ ہوئے کہ حزبِ اقتدار کو اپنا نام بنانے کا ایسا نادر موقع کیونکر حاصل ہوا، بعد میں انھوں نے ’جان بوجھ کر اطلاع نہ دینے کا‘ بلند و بانگ شکوہ وزیرِ اعظم کے سر منڈھتے ہوئے، اس کارِ خیر میں اپنا حصہ کچھ اس انداز سے ڈالا۔

”انھوں نے نہ صرف میت پر پھول ڈالے بلکہ مرحوم کا نام بھی معلوم کر لیا۔ بعد ازاں کچھ اس قسم کا تعزیت نامہ جاری کیا۔  ’ہماری پارٹی شہید رجب خاں ولد بنے خاں کی مرگِ ناگہانی پر افسوس کا اظہار کرتی ہے۔ جب وزیرِ اعظم کے حلقہ انتخاب کا ایک فرد دارالحکومت میں اس طرح ہلاک کیا جا سکتا ہے تو اس بات کا تصور کرنا بھی دشوار ہے کہ ان حلقوں کے باشندوں پر کیا گزرتی ہوگی ، جہاں سے حزبِ اختلاف کے ارکاان منتخب ہو کر اسمبلی میں آتے ہیں۔ ہماری پارٹی شہید رجب کی یاد میں ایک فنڈ قائم کرنے والی ہے۔ جس سے شہید رجب کی ایک یاد گار بھی اُس جگہ قائم کی جائے گی، جہاں اُن کی بے وقت موت ہوئی۔ شہید رجب خاں نے اینٹیں ڈھو کر ملک کی اہم خدمت انجام دی۔  بھوکے رہ کر، فٹ پاتھ پر سو کر ملک کو ترقی سے ہمکنار کرنے کا اُن کا عزم ناقابلِ تسخیر تھا۔ اُن کے انتقالِ پُر ملال سے قوم کا ناقابلِ تلافی نقصان ہوا ہے۔ “

حزبِ اختلاف کے اِس رِقت آمیز بیان سے بازی پلٹتی دیکھ کر حزبِ اقتدار سے رہا نہ گیا۔فوراَ ہی وزیرِ اعظم نے ہنگامی بنیادوں پر اجلاس طلب کیا ، جس میں عوام کو حزبِ اختلاف کی ’میت کی سیاست ‘ سے خبردار کیا گیا اور شہید رجب علی کے پورے خاندان کو مالی امداد ، مفت تعلیم اور نوکری کے وعدوں کے ساتھ ساتھ یہ خوشخبری بھی دی گئی کہ:

”شہید رجب خاں کا جنازہ سرکاری اعزاز سے کل شام چار بجے دفن کیا جائے گا۔  ایسا اس لیے کیا جا رہا ہے کہ قوم کی جانب سے اُس احترام کا اظہار کیا جا سکے جو وہ اُن لوگوں کے لیے رکھتی ہے جو فٹ پاتھ پر سوتے ہوئے اس طرح شہید ہو جاتے ہیں، حکومت کے اس قدم سے اُن لوگوں کے دلوں میں بھی خودداری و اعتماد کا جذبہ پیدا ہو گا جو اینٹ گارا ڈھو کر ملک کی بے لوث خدمت کرتے ہیں اور آسمان کی چادر کے نیچے سوتے ہوئے ایثار اور قربانی کی مثالیں قائم کرتے ہیں۔ “

کہانی کے اس مقام پر، حزبِ اختلاف ایک بار پھر اپنا اختلافی بیان ریکارڈ کراتی ہے اور عوام کو، اب خود وزیرِ اعظم کی طرف سے کی جانے والی ’میت کی سیاست‘ یاد دلاتی ہے اور خود کو احتجاجی طور پر اس معاملے سے یکسر علیحدہ ہونے کا فیصلہ کر ڈالتی ہے۔ جس کا حزبِ اقتدار فراخدلی سے خیر مقدم کرتی ہے اور عوام کے لیے ایک نیا فرمان جاری کرتی ہے:

”لہٰذا حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ شہید رجب علی سے متعلق سبھی پروگرام اور اعلانات واپس لیتی ہے۔ امید ہے حزبِ اختلاف اس بحث کو سیاسی رنگ دینے سے باز رہے گی، اس کے ساتھ ہی حکومت نے ایک نوٹس جاری کر کے فٹ پاتھ پر سونے کی ممانعت کر دی ہے تاکہ رات کو گاڑیوں کی آمدورفت میں خلل نہ پڑے۔  تعزیراتِ ہند میں ضروری ترامیم کر کے ایک نوٹس الگ سے جاری کیا جا رہا ہے، جس کے تحت فٹ پاتھ پر سونے والوں کو تین ماہ کی قید با مشقت کے ساتھ، دس ہزار روپے جرمانہ بھی ادا کرنا ہو گا۔“

کہانی کا اختتام ایک بات واضح کیے دیتا ہے کہ سیاسی اختلافات، بار ہا بدلتے بیانیوں اوراقتدار کی شکست و ریخت کا بوجھ عوام کو ہی اُٹھانا پڑتا ہے۔ وہ عوام جو اپنے بنیادی حقوق سے قطعاَ نا بلد و نا آشنا ہیں۔ جن کی سماجی بہبود سے مشروط قیادتیں اپنی ذمہ داریوں اور کوتاہیوں کا بوجھ ایک دوسرے پہ ڈالتی دکھائی دیتی ہیں۔ بحیثیت باشعور عوام ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہمارا مستقبل ایک ایسی با عمل قیادت کا متقاضی ہے، جو شخصی مفاد سے بالاترہو، جس کی اولین ترجیح ریاست اور عوام ہوں وگرنہ وقت کی سرکش آندھیوں کے آگے کون ٹھہر سکا ہے!

عوام دنیا کے کسی بھی خطے سے تعلق رکھتے ہوں، ان کے بنیادی حقوق کا تحفظ اور ضروریات کی تکمیل ہمیشہ مقتدر طبقے سے وابستہ رہتی ہے۔ شاید اِسی لیے باشعور عوام نہ صرف اپنے حقوق اور فرائض سے آگاہ ہوتے ہیں بلکہ اپنے اچھے برے کی خاطر خواہ تمیز بھی رکھتے ہیں۔ وہ ماضی کی ناقدانہ تحقیق اور تاریخ کے اسباق کو تہہ کر کے وقت کی پرانی اور خستہ کتب میں نہیں رکھتے بلکہ آنے والے وقت کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے ایک باضابطہ اور منصفانہ نظامِ حکومت کے قیام کے لیے جدو جہد کے عملی مراحل سے بھی گزرتے ہیں۔ اگرچہ اس بات کو اس خطے کی بدقسمتی سے مشروط کیا جا سکتا ہے کہ یہاں ایک مثالی اور جمہوری نظامِ حکومت کو پنپنے میں ابھی بہت وقت درکار ہے ۔ ہماراسیاسی عدم توازن عوام کے ذہنی مزاج اور رویوں پر مستقل اثر انداز ہوتا رہتا ہے۔ ہمارے نام نہاد مقتدر طبقات، ملکی اقتدار کو اپنا حق سمجھ کر وصول کرتے ہیں اور عوام کو اپنی جا گیر خیال کرتے ہیں۔ وہ اپنی شعلہ بیانی سے عوام کو مستقبل کے اُن حسین اور نازک خوابوں اور وعدوں سے نوازتے ہیں، جن کی مدت قلیل اور اذیت کثیر ہوتی ہے۔ اقتدار کے حصول کی جنگ میں یہ طبقات کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کرتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).