شیرون مسیح کی جھوٹی ماں، معصوم قاتل اور ذمہ دار استاد


محض پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے بوریوالہ کے ایک سکول میں ہونے والے ایک مسیحی طالب علم کے قتل کو بلاوجہ ہی اچھالا جا رہا ہے۔ مقتول کی ماں رضیہ بی بی کا بیان دیکھیے۔ کیا آپ اس پر یقین کریں گے؟ وہ کہتی ہے کہ سکول میں نئے داخل ہونے والے اس کے بیٹے کو تعصب کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ کلاس کے بچے شیرون مسیح کو اس کے عقیدے کی وجہ سے واٹر کولر اور گلاس استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ وہ گرم مرطوب موسم میں سارا دن پیاسا رہتا تھا اور چھٹی کے بعد ہی پانی پی سکتا تھا۔ رضیہ بی بی نے کلاس ٹیچر نذیر موہل سے شکایت بھی کی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

اب آپ خود ہی انصاف سے کام لیجیے۔ کیا ہمارے معاشرے میں غریب مسیحیوں کے کھانے پینے کے لئے الگ برتن رکھنے کا رواج ہے؟ کیا ان لوگوں کے لئے کوئی ٹوٹے پھوٹے کپ پلیٹیں وغیرہ الگ رکھتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ ہم تو رنگ، نسل یا عقیدے کی بنیاد پر کسی کو برتر یا کمتر نہیں جانتے۔ ہمیں یقین ہے کہ ہمیں بدنام کرنے کے لئے رضیہ بی بی جھوٹ بول رہی ہے۔

اور تماشا دیکھیے کہ الزام لگایا جاتا ہے کہ شیرون مسیح نے پانی پینے کی کوشش کی تو اس کے ہم جماعت احمد رضا نے اسے مارا پیٹا۔ رضیہ بی بی یہ الزام بھی لگاتی ہے کہ پہلے دن سے ہی شیرون کو یہ لڑکا مار پیٹ اور تضحیک کا نشانہ بنا رہا تھا۔ بھلا وطن عزیز میں کسی شخص کو بھی اس کے عقیدے کی وجہ سے کمتر سمجھا جاتا ہے؟ انتہا ہوتی ہے جھوٹ کی۔

ہمیں تو اس بات پر بالکل اعتبار نہیں ہے۔ ہمیں تو یہ موقف ہی درست لگتا ہے کہ متوفی شیرون مسیح ایک شریر لڑکا تھا۔ اس نے ان تین میں سے ایک شرارت کی یا ممکن ہے تینوں کی ہوں گی۔ یعنی اس نے یا تو اس شریف النفس معصوم بچے احمد رضا کی سیٹ پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ یا پھر دوسری روایت کے مطابق احمد رضا کے موبائل کی سکرین توڑ دی۔ یا تیسری روایت کے مطابق کمرہ جماعت سے زبردستی باہر جانے کی کوشش کی تو احمد رضا نے اس محبت میں کہ اس کی تعلیم کا حرج ہو گا، اسے مار پیٹ کر روکنے کی کوشش کی۔ تینوں صورتوں میں احمد رضا معصوم ہی قرار پائے گا اور شیرون مسیح ایک سنگین جرم کا مرتکب جس کی سزا موت بھی ہو سکتی ہے۔

اب احمد رضا نے تو شیرون مسیح کی بھلائی ہی چاہی تھی مگر ظلم دیکھیے کہ سکول کے چار اساتذہ کو سزا دی جا رہی ہے۔ حالانکہ سکول سے تعلق رکھنے کے دعویدار بعض افراد بتا بھی رہے ہیں کہ شیرون مسیح ایک نالائق لڑکا تھا جسے داخلوں کا سیزن بند ہونے کے باوجود اسے بطور پرائیویٹ طالب علم سکول میں بٹھا لیا جبکہ احمد رضا ایک نہایت ہی ہونہار اور ذمہ دار میٹرک فیل نوجوان تھا جو اسی انداز میں داخلے کے بغیر بٹھایا گیا تھا۔ اب اس نے محض شیرون مسیح کی بھلائی کے لئے اس کے ساتھ مار پیٹ کی تو وہ بے سدھ ہو کر زمین پر گر گیا۔ محض اتفاق تھا کہ کلاس ٹیچر بھی کمرہ جماعت میں موجود نہیں تھے اور کہیں نکلے ہوئے تھے۔ لیکن پی ٹی ماسٹر محمد رمضان اور دلدار اسلم شور و غل سن کر آ گئے۔ انہوں نے بچے کے منہ پر پانی کے چھینٹے مار کر اسے ابتدائی طبی امداد دینے کی کوشش کی مگر شیرون مسیح ہوش میں نہ آیا۔ دونوں اساتذہ نے نہایت ذمہ داری اور فرض شناسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بچوں کو حکم دیا کہ وہ شیرون مسیح کو ہسپتال لے جائیں اور خود ہیڈ ماسٹر سلیم طاہر کو اطلاع دینے ان کے دفتر کی طرف چل دیے۔ لیکن فرض شناس ہیڈ ماسٹر صاحب کیمرے پر یہ سب کچھ ہوتا دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے دونوں اساتذہ کو حکم دیا کہ وہ چند سو گز دور ہسپتال پہنچ جائیں مگر ادھر ڈاکٹر نے بتایا کہ شیرون مسیح تو فوت ہو چکا ہے۔ ہمیں تو اس افسانے پر سو فیصد یقین ہے۔

مگر چند نہایت غیر ذمہ دار اور جھوٹے افراد معتبر قومی اخبارات میں مسلسل عجیب و غریب خبریں اور کالم شائع کر رہے ہیں کہ شیرون مسیح نے کولر سے پانی پینے کی کوشش کی تو احمد رضا نے اسے آٹھ دس منٹ تشدد کا نشانہ بنایا کہ تم ”چوہڑے“ ہو کر معززین کے برتن کیوں استعمال کر رہے ہو۔ وہ بے ہوش ہوا تو چار طالب علم اسے موٹرسائیکل رکشا میں ڈال کر بورے والا تحصیل ہسپتال لے گئے۔ جس وقت شیرون مسیح کو ہسپتال لے جایا جا رہا تھا تو نہ تو گیٹ پر چوکیدار موجود تھا اور نہ ہی کوئی چپڑاسی۔ مقتول کی والدہ تو یہ بھی کہہ رہی ہے کہ اس کے بیٹے کو صبح 11 بجے کلاس روم میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہو گا اور ہسپتال میں 12 بجے اسے مردہ قرار دیا گیا جبکہ اسکول کے اساتذہ دوپہر ڈیڑھ بجے ہسپتال پہنچے۔ یہ الزام بھی لگایا کہ قتل کا سبب مذہبی منافرت تھی۔

اخباری اطلاعات کے مطابق واقعے کی ایف آئی آر میں صاف صاف بتایا گیا ہے کہ مار پیٹ کے واقعے کے وقت دونوں طالب علموں کے والدین اور دیگر رشتے دار سکول میں موجود تھے۔ لیکن نہ جانے کیوں شیرون مسیح کی ماں رضیہ بی بی جھوٹ بول رہی ہے کہ وہ اپنے بیٹے کے انتقال کی خبر سن کر سکول نہیں بلکہ ہسپتال پہنچے تھے حالانکہ ہم یہ بات جانتے ہی ہیں کہ جب بچے سکول میں پڑھ رہے ہوں تو ان کے والدین اور دیگر اقارب ہمیشہ سکول میں ہی موجود ہوتے ہیں۔ اس ایف آئی آر پر بھی ہمیں سو فیصد اعتبار ہے۔ اب اگر سکول میں موجود ہونے کے باوجود والدین اپنے بچے کو خود ہسپتال نہیں لے کر گئے بلکہ اسے دوسرے بچے لے کر گئے ہیں تو یہ افسوس کی بات ہے۔ دنیا سے انسانیت تو اٹھتی جا رہی ہے۔

لیکن اس سے بھی زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ انکوائری کمیٹی اور وفاقی حکومت معصوم احمد رضا کا ساتھ دینے کی بجائے شیرون مسیح کی جھوٹی ماں کا ساتھ دے رہی ہے۔ انکوائری کمیٹی نے سکول کے چار اساتذہ کو واقعے کا ذمہ دار ٹھہرا دیا ہے۔ اس نے پولیس رپورٹ کو بھی جھٹلا دیا ہے کہ دونوں طلبا کے درمیان جھگڑے کی وجہ موبائل فون تھا بلکہ یہ کہا ہے کہ شیرون کو احمد رضا نے کلاس سے باہر جانے سے روکا تھا اور مار پیٹ کی تھی۔ انکوائری کمیٹی نے کلاس ٹیچر نذیر موہل کو جبری ریٹائر کرنے، ہیڈ ماسٹر سلیم طاہر کی ایک برس کی ملازمت ضبط کرنے اور فزیکل ایجوکیشن ٹیچرز رمضان اور دلدار کو ایک سال کا انکریمنٹ روکنے کی سزا دی ہے اور ان کے بارے میں کہا ہے کہ وہ نہایت ناقص سکول اور کلاس روم مینجمنٹ، حکومتی ضوابط کی پاسداری نہ کرنے اور اپنی ڈیوٹی میں قطعاً کوئی دلچسپی نہ لینے کے مجرم قرار پائے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق کہ سکول میں 125 افراد کا سٹاف موجود ہے مگر شیرون مسیح کو اس کی کلاس کے بچے ہسپتال لے کر گئے تھے۔

لیکن آدمی کس کس چیز کا افسوس کرے۔ چلیں اخبارات تو ظالم ہیں ہی، مگر وفاقی حکومت بھی شیرون مسیح کی ماں کی طرح جھوٹی نکلی۔ آج 23 ستمبر کو ہی روزنامہ نوائے وقت میں خبر شائع ہوئی ہے کہ وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے کل جمعہ کو سینیٹ میں شیری رحمان کے توجہ دلاؤ نوٹس پر بات کرتے ہوئے کہا کہ شیرون مسیح کو سکول میں مسلمان طلبا کے گلاس سے پانی پینے پر طلبا نے زدوکوب کیا تھا جس پر وہ زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسا۔ موقع پر موجود ایک ٹیچر نے بھی طلبا کی اس حرکت کا نوٹس لینے کی بجائے شیرون مسیح کو ڈانٹ پلادی تھی کہ وہ ہاں وہ اس گلاس سے پانی نہیں پی سکتا۔

پتہ نہیں زاہد حامد صاحب کتنے سچے یا جھوٹے ہیں لیکن بہرحال وہ وفاقی وزیر قانون کی حیثیت سے مقننہ کے اعلی ایوان سینیٹ میں یہ سرکاری موقف دے چکے ہیں۔ اب آپ خود ہی فیصلہ کر لیں کہ سکول کے اساتذہ اپنے ساتھیوں اور خود پر سے شدید مجرمانہ نااہلی کا الزام ہٹانے کو جھوٹ بول رہے ہیں یا پھر قومی اخبارات، انکوائری کمیٹی، وفاقی وزیر قانون اور مقتول شیرون مسیح کی ماں جھوٹے ہیں۔

ہم تو شیرون مسیح کی ماں رضیہ بی بی کو ہی جھوٹا جانتے ہیں کیونکہ وہ غریب بھی ہے اور اس کا عقیدہ بھی اقلیتی ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اس نے اپنے بچے کو یہ نہیں سکھایا کہ چاہے جتنی بھی پیاس لگی ہو، اسے اعلی مسلک اور نسل کے لوگوں کے برتنوں میں پانی پینے سے اجتناب کرنا چاہیے ورنہ اس کی جان جا سکتی ہے۔

یہ ایک طنزیہ مضمون ہے اور اس میں موجود معلومات کا ماخذ معتبر ادارے بی بی سی، روزنامہ ڈان اور روزنامہ نوائے وقت ہیں اور سکول کے اساتذہ کے موقف کے لئے انٹرنیٹ پر موجود ایک مضمون کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ مصنف کا کہنا ہے کہ وہ کسی کی ماسی کی پھوپھی کی تائی کے ہمسائے کے لڑکے کے بھائی کے ایسے دوست کی فراہم کردہ اطلاع پر بھروسہ نہیں کرتے ہیں جس کی اپنی غیر جانبداری پر شبہ ہو بلکہ قومی اور بین الاقوامی اداروں کو اس ہوائی موقف سے زیادہ معتبر جانتے ہیں جو ادارتی کنٹرول اور مناسب چھان پھٹک کے بعد خبر دیتے ہیں۔ ادارہ۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar