سکول کی یادیں اور مار نہیں پیار


سکول کی یادوں میں سب سے پہلا نمبر وہاں ملنے والی سزاؤں کا ہوتا ہے۔ آج سے پندرہ بیس برس پہلے تک سکولوں میں مار پیٹ یا تشدد بالکل عام بات تھی۔ اس کی بہت سی قسمیں ہوتی تھیں۔ سب سے ہلکی سزا لکڑی کے فٹے سے مارنا سمجھی جاتی تھی۔ پھر سٹیل کے رولر سے مارا جاتا تھا، لکڑی کا گول ڈنڈا ہوتا تھا، بعض سکولوں میں تو مانیٹر کی ڈیوٹی ہوتی تھی کہ بھئی تم بنوا کر لاؤ گے۔ کبھی وہ ملتا نہیں تھا تو باہر موجود کسی درخت کی شاخیں سب سے تگڑے بچے کو بھیج کر تڑوائی جاتی تھیں اور حسب منشا استعمال ہوتی تھیں۔ جہاں تختی کا رواج تھا وہاں کسی چیز کی ضرورت باقی ہی نہیں رہتی تھی۔ تختی جیسی خانہ ساز ایجاد ہم لوگ دوبارہ نہیں کر سکے۔ اسی پہ لکھنا سیکھو، بھوک لگے تو اسی پہ کھانا کھا لو، حجامت کرانے جاؤ اور بچوں کو بٹھانے والا پھٹہ نہ ہو تو اسے استعمال کر لو، درخت سے بیر یا امرود توڑنے ہوں تو اس کی مدد لو، اسی پھل فروٹ کی بانٹ پر پھڈا ہو جائے تو، وہی تختی تلوار بازی میں استعمال ہو گی۔ جس زمانے میں چاپنگ بورڈ نہیں ہوتا تھا تو سلیقہ مند مائیں آلو یا پیاز بھی پرانی تختیوں پر کاٹتی تھیں، سکول جاتے ہوئے تازہ گاچی ملی ہوئی تختیاں لہرا لہرا کر سکھائی جاتیں اور واپس آتے ہوئے دل کرتا تھا بندہ کہیں پھینک آئے۔ نہ وہ بستے میں آتی تھیں اور نہ کسی بڑے تھیلے میں ڈالنے کا رواج تھا۔ تو جہاں تختی آل راؤنڈر قسم کا اوزار تھی وہیں اس کا سب سے اعلیٰ استعمال ٹیچر لوگ کرتے تھے۔ تختی سے لگی پھینٹی شاید ہی کبھی کسی کو بھولی ہو۔ مضروب اعضا کو ملتے ہوئے بھی شرمندگی محسوس ہوتی تھی، دکھ کسی اور کو دکھانا تو دور کی بات ہے۔ ان سب کے بعد آخری آپشن ڈسٹر کا بچتا ہے، یہ نسبتاً نیا ہتھیار ہے اور تشدد پسند ٹیچرز کا زیور ہے۔

خبر نہیں یہ فلسفہ کس کندہ ناتراش کی ایجاد تھا کہ بچے مارنے والے استادوں سے پڑھ لیتے ہیں یا تشدد سبق یاد کروا دیتا ہے۔ اچھی طرح یاد ہے کہ جو بھی ٹیچر مارتا تھا ہم لوگوں نے اس کے عجیب و غریب نام رکھے ہوتے تھے۔ بعض ناموں کی انوویشن پر تو آج بھی حیرت ہوتی ہے۔ مثلاً ایک نام ”بمبو کاٹ‘‘ تھا۔ یہ انگریزی لفظ ”بیمبو کارٹ‘‘ کا آسان تلفظ تھا۔ پتہ نہیں کون ذہین آدمی یہ نام مارکیٹ میں لے کر آیا تھا، حد تھی انٹیلیکٹ کی۔ بانس کے بنے چھکڑے جو ایک ڈیڑھ صدی پہلے بار برداری یا سواری کے واسطے استعمال ہوتے تھے وہ بیمبو کارٹ کہلاتے تھے۔ تو یہ جو ٹیچر تھے انہیں باقاعدہ نفسیاتی بیماری تھی مارنے کی، جب تک آدھی سے زیادہ کلاس کو طبیعت سے ڈنڈے نہ مارتے ان کا پڑھانے کو دل ہی نہیں چاہتا تھا۔ ان کے بال چوبیس گھنٹے کھڑے رہتے تھے اور یہ خود بھی تھوڑے ٹیڑھے ہو کر کھڑے ہوتے تھے، پتلون پلیٹ لیس ہوتی تو وہ ایک طرف کی کنی مزید نمایاں ہو جاتی تھی۔ بہرحال شاید انہیں کھڑے بالوں کی وجہ سے بمبو کاٹ کا نام دیا گیا تھا۔ پھر وہ بائیو والے سر بھی اچھا خاصا مارتے تھے، ان کا نام رانا ٹیگرینا (مینڈک کا لاطینی نام) رکھا گیا تھا۔ ایک اور ہوتے تھے، وہ بستے اٹھوا کر دھوپ میں کھڑا کر دیتے تھے، انہیں انکل سرگم کہہ کر بلایا جاتا تھا، ان کی مونچھیں اور بال تھے ہی اس قسم کے تو سزا برداشت کرنے والا بچہ غریب کیا کرے۔ ایسے بہت سے کیس اب بھی ہوں گے لیکن عمر کی چھتیس بہاریں دیکھنے کے بعد بھی فقیر پڑھائی میں تشدد کا ایک سنگل فائدہ نہیں گنوا سکتا۔ ٹوٹل دماغ کی خرابی ہے، جسے پڑھانا نہیں آتا وہ مارتا ہے بابا، سیدھی بات ہے۔

ایک اور چیز بھی سکولوں کی بہت عجیب ہوتی تھی۔ صبح صبح شدید گرمی ہو یا شدید سردی، اسمبلی ہو گی اور وہ بھی ایک دم کھلے میدان میں۔ مطلب کون سا ڈسپلن اسمبلی سے زندگی میں آتا ہے؟ ایک تو کلاس کا سب سے چھوٹے قد والا بچہ‘ جو پہلے ہی بے چارہ احساس کمتری کا شکار ہے، اسے آپ سب سے آگے کھڑا کر دیتے ہیں اور جو سب سے لمبا ہے، جو فل ٹائم کانفیڈنٹ ہے، وہ بالکل آخر میں ہوتا ہے، اس سے کیا سبق دینا مقصود ہے؟ یعنی اے چھوٹے قد والے بچے، تمہارے برتھ کوآڈینیٹس فالٹی ہیں اس لیے تم سب سے آگے کھڑے ہو گے، ہر ٹیچر کی نظروں میں ہو گے، تم نے بال بھی ٹھیک بنانے ہیں، یونیفارم بھی استری رکھنا ہے، جوتے بھی روز چمکانے ہیں اور اے لمبے قد والے، خدا کے سب انعام تجھ پر ہوں، چونکہ تو لمبا ہے اس لیے اسمبلی میں تو سب سے آخر میں کھڑا ہو گا اور دل بھر کے تفریح کرے گا، تیرا یونیفارم یا جوتے کوئی دیکھ بھی لے گا تو اگنور کرے گا کہ اب اپنے سے بڑے قد والے کو بندہ کیا ٹوکے، جانے دو! پھر گرمی ہے تو بھلے بچے روسٹ ہو جائیں، صبح صبح سر کا سارا تیل گردن سے بہہ کر قمیص میں آ جائے، پتلون پسینے میں بھیگ کر کلف زدہ ہو جائے، اسمبلی فرض ہے۔ سردی ہے تو جنوری کی کہر ہے، پرندے تک گھونسلوں کے اندر ہیں اور قوم کے ننھے مجاہد پھر اسمبلی میدان میں لائن حاضر ہیں۔ کیا مذاق ہے بخدا! یہی سب کارروائی کلاسوں میں بیٹھ کر سکون سے بھی تو سکتی ہے۔ لب پہ آتی پڑھنا ہوتی تھی، ایک ترانہ ہوتا تھا، دو تین ٹیچروں نے بالکل ٹائم پاس تقریریں کرنا ہوتی تھیں اور کبھی کبھی پرنسپل کچھ ارشاد فرما دیتے تھے، تو یہ سب کلاس میں کیوں نہیں ہو سکتا؟ ایسی کون سی مجبوری تھی، قسم سے آج بھی دماغ سمجھنے سے قاصر ہے۔

اس وقت بھی جب افشاں گاتی تھیں، میرے بچپن کے دن، کتنے اچھے تھے دن، اور آج بھی جب یہ گانا کانوں میں پڑتا ہے تو سکول جانے کے لیے صبح تڑکے اٹھنا یاد آ جاتا ہے۔ یار کہاں کا انصاف ہے کہ دفتر نو بجے لگیں اور سکولوں کا ٹائم سات بجے ہو؟ یعنی ساڑھے پانچ چھ بجے سے جو چک چک شروع ہوتی تھی، غضب خدا کا شام تک چلتی رہتی تھی۔ وہ منحوس آواز والا الارم ہوتا تھا، ٹی ٹی ٹی ٹی، ٹی ٹی ٹی ٹی، بجتا جا رہا ہے، بجتا جا رہا ہے، دماغ کی لسی بن جاتی تھی الارم جب تک اپنے پانچ منٹ پورے کرتا تھا۔ گرمیوں میں تو چلو خیر ہے، سردی میں بھی اتنی صبح؟ چہ معنی دارد؟ بچہ بیچارہ گرم بستر چھوڑے، ٹھنڈے یخ واش روم میں جا کے تپسیا کرے، جیسے تیسے الٹے سیدھے کپڑے پہن کے جلدی جلدی دوبارہ جسم گرم کرنے کا بندوبست کرے اور دو من کا بستہ لٹکا کے جیبوں میں ہاتھ گھسا کے سکول روانہ ہو جائے، کسی کو رحم نہیں آتا تھا؟ آج بھی نہیں آتا۔ بھائی کون سی جنگ جیتنی ہے جو زندگی کا سفر نرسری کلاس سے اتنا کٹھن کر دیتے ہیں؟ ڈیڑھ گھنٹہ، صرف نوے منٹ اگر سکولوں کے ٹائم میں بہتری آ جائے تو کم از کم نوے فیصد بچے سردیوں میں بیمار نہ ہوں۔ لیکن نہیں، جو اصول باپ دادا کے زمانے سے ہے، وہی چلے گا۔

ایک طویل انتظار کے بعد گرمیوں کی چھٹیاں ہوتی تھیں لیکن ان میں بھی آٹھ سو صفحے کا ہوم ورک کر کے جانا ہوتا تھا۔ اصل موج ان بچوں کی ہوتی تھی جو ہوم ورک کو ہاتھ بھی نہیں لگاتے تھے۔ چار دن، پانچ دن، حد ایک ہفتے کی مار ہوتی تھی لیکن سات دنوں کے صدقے تین مہینے موج کرتے تھے۔ سچ ہے دنیا اسی کی ہے جو ہمت والا ہے۔ جو ڈر گیا وہ تو مرنے سے پہلے ہی مر گیا۔

ایسی کئی یادیں اور بھی ہیں لیکن اس سب کے باوجود وہ جو اگلی کلاس میں جانے کا شوق ہوتا تھا، اس کا اپنا مزہ تھا۔ پانچویں میں گئے تو ”سینئر‘‘ ہو کر چھاتی پھلانا، آٹھویں میں ہوئے تو ”بورڈ‘‘ کا امتحان دیں گے بھئی، دو برس ہیں بس، میٹرک آیا تو پورے سکول میں راج ہو جانا، فیئر ویل کی اداسیاں، کالج جانے کا نشہ، یونیورسٹی کا پہلا دن، سبھی کچھ یاد ہے۔ لیکن، کل اگر ہمارے بچے یاد کریں تو کم از کم یہ مار والا چیپٹر نہ شامل ہو، کچھ بھی ایسا ہو جائے کہ واقعی ہر سکول ”مار نہیں پیار‘‘ والا فلسفہ سمجھ لے تو سمجھ لیجیے موج ہی موج ہے۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain