سر گنگا رام کا مجسمہ (مکمل کالم)


اتوار کی صبح ہم گاڑی لے کر نکل جاتے ہیں اور پرانے لاہور کی گلیوں اور اندرون شہر کے محلوں میں گھومتے ہیں۔ کبھی کوئی پرانا مزار اپنی جانب کھینچ لیتا ہے توکہیں کوئی اجڑا ہوا باغ راستے میں آ جاتا ہے، کبھی کسی مندر کی باقیات دکھائی دے جاتی ہیں تو کہیں مسجد کے میناروں سے روشنی پھوٹتی نظر آجاتی ہے، کبھی کسی قدیم حویلی کی کشش کھینچ کے لے جاتی ہے تو کہیں کسی چوبارے پہ تاریخ آواز دے کر بلا لیتی ہے۔ سردیوں کی اتوار لاہور کے نام مختص ہے۔ اور کچھ نہ ملے تو اندرون شہر کا ناشتہ ہی کر لیتے ہیں، ہر مرتبہ ایک نیا تجربہ ہوتا ہے۔ اور کیوں نہ ہو۔ لاہور دنیا کا غالباً وہ واحد شہر ہے جہاں آپ صرف نان چنے کھانے کا ہی فیصلہ کر لیں تو اُس کی درجن بھر اقسام مل جائیں گی، ایک سے بڑھ کر ایک۔ آج اسی قسم کے لاہوری کھانوں کے بارے میں لکھنے کا فیصلہ کیا تھا اور وجہ اُس کی یہ تھی کہ محترم واصف ناگی نے لاہور کے بارے میں اِس قدر تفصیل سے لکھ دیا ہے کہ مجھ ایسے عاشق لاہو ر کے لیے اب کچھ بچا ہی نہیں۔ مگر کوشش کرنے میں کوئی حرج بھی نہیں !

دنیا کے ہر بندے کو اُس شہر، گاؤں اور قصبے سے محبت ہوتی ہے جہاں وہ پیدا ہوتا ہے۔ وہ جگہ چاہے بالکل عام سی ہی کیوں نہ ہو۔ کرشن چندر نے ایسی ہی کیفیت کا نقشہ اپنے ناول ”غدار“ میں کھینچا ہے: ”میں نے بڑی حسرت سے اس جگہ کو دیکھا۔ یوں تو اس جگہ میں کوئی خاص بات نہ تھی۔ ایک ریتیلا سا ٹیلا تھا۔ جہاں ہم دونوں بیٹھا کرتے تھے۔ سامنے بنجر زمین تھی۔ افق مٹیالے بادلوں سے گھرا ہوا تھا۔ یہاں کچھ بھی تو نہ تھا۔ لہلہاتے ہوئے پیڑ۔ خوبصورت پھول۔ اور رنگین شفق۔ آبشار۔ پہاڑ۔ پانی۔ جھیل کچھ بھی نہ تھا۔ جن سے اس زمین پر شاعری ہوتی ہے۔ پھر بھی یہ جگہ جنت کا ٹکڑا کیوں معلوم ہوتی تھی؟“

پنجاب کے ایک عام سے گاؤں کا ذکر اگر ایسی رومانویت سے کیا جا سکتا ہے تو لاہور جیسے شہر کے ذکر سے تو کتابیں بھری جا سکتی ہیں۔ اور کتابیں بھری بھی گئی ہیں۔ وجہ اِس کی یہ ہے کہ لاہور میں بیک وقت کئی قسم کی تاریخ ہے جو بکھری ہوئی ہے۔ مثلاً ایک وہ جو اندرون شہر سے وابستہ ہے اور دوسری وہ جو انگریز دور سے متعلق ہے۔ لاہور کا رہایشی اگر چاہے بھی تو خود کو اِس سے غیر متعلق نہیں رکھ سکتا۔ انگریز دور میں جو تعمیرا ت لاہور میں ہوئیں اُن کا سہرا اگر کسی ایک شخص کے سر باندھا جا سکتا ہے تو اُس کا نام سر گنگا رام ہے۔ لاہور کا یہ محسن پیدا تو مانگٹا والا میں ہوا مگر اس نے اپنی ذہانت اور تخلیقی صلاحیتوں سے اِس شہر کو چار چاند لگا دیے۔ کہتے ہیں کہ گنگا رام کے گاؤں سے نزدیک کے ریلوے سٹیشن تک کوئی ریلوے لائن نہیں تھی سو لوگوں کو سٹیشن جانے کے لیے مشکل پیش آتی تھی۔ گنگا رام نے گاو ¿ں سے لے کر سٹیشن تک ایک دو کلومیٹر کی پٹری بچھادی جس کی باقیات آج بھی موجود ہیں۔

جو لوگ لاہو ر میں رہتے ہیں انہوں نے ہیلے کالج آف کامرس کا نام ضرور سنا ہوگا۔ اِس کالج کا منصوبہ سر گنگا رام نے بنایا تھا، انہیں اندازہ تھا کہ آنے والا دور کامرس اور بینکنگ کا ہوگا، اِس لیے انہوں نے ضروری سمجھا کہ لاہور کا اپنا ایسا کالج ہو جہاں اِس کی تعلیم دی جا ئے۔ حکومت کو گنگا رام کا منصوبہ پسند آیا مگر اِس کالج کے لیے جگہ درکار تھی جو شہر میں موجود نہیں تھی۔ سر گنگا رام نے کھڑے کھڑے اپنی سترہ کنال کی کوٹھی اِس مقصد کے لیے عطیہ کر دی۔ آج ہیلے کالج آف کامرس سر گنگا رام کی تاریخی کوٹھی میں ہی قائم ہے۔ سر گنگا رام کی خواب گاہ اب پرنسپل کا دفتر ہے اور کوٹھی کے کمرے کالج کے کلاس روم۔ اِس کوٹھی میں گھوڑوں کے اصطبل آج بھی موجود ہیں اور اُس زمانے کی باقیات دیکھی جا سکتی ہیں جو کافی حد تک اپنی اصل حالت میں پائی جاتی ہیں۔

ہیلے کالج کے ہاسٹل کے ایک کمرے میں بھارت کے وزیر اعظم آئی کے گجرال بھی رہ چکے ہیں، وہ پاکستان کے دورے پر آئے تو خاص طور سے اِس ہاسٹل کا دورہ کیا اور بے حد جذباتی ہوئے۔ کالج کی اوپری منزل پر واقع اِس ہاسٹل کی تزئین و آرایش کا کام اِن دنوں جاری ہے، یہاں سے پرانی انارکلی اور موج دریا کا مزار دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک زمانے میں یہ کوشش بھی کی گئی کہ اِس کالج کی جگہ کمرشل پلازا بنا دیا جائے مگر شکر ہوا کہ یہ بات پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکی۔ کالج کے دروازے کے بالکل ساتھ میٹرو بس کا سٹاپ ہے مگر اُس کا نام ایم اے او کالج سٹاپ رکھا گیا ہے حالانکہ اِس کا نام سر گنگا رام سٹاپ ہونا چاہیے یا پھر ہیلے کالج۔

سر گنگا رام کی سمادھی بھی لاہو ر میں ہی واقع ہے۔ اگر آپ راوی روڈ کے علاقے کریم پارک میں جائیں تو وہاں مرکزی بازار میں کسی سے پوچھ لیں، اگر وہ پرانا رہایشی ہوا تو آپ کو سیدھا ایک گلی میں لے جائے گا، یہ گلی دربار وارث کی طرف جاتی ہے جہاں ایک احاطہ سا بن جاتا ہے جس کے دائیں جانب ایک مسجد ہے اور ذرا سا پرے گنگا رام کی سمادھی۔ گزشتہ اتوار ہم یہاں گئے تو پولیس کا ایک جوان ڈیوٹی پر مامور تھا، اُس نے بتایا کہ یہاں کم ہی لوگ آتے ہیں۔ مجھے اِس جگہ کی ویرانی دیکھ کر مایوسی ہوئی مگر پھر سوچاکہ بندہ کس کس بات کا ماتم کرے۔ سمادھی پر سر گنگا رام کی تصویر تھی۔ ہم کچھ دیر وہاں خاموشی سے کھڑے رہے اور پھر باہر نکل آئے۔

مال روڈ سے گذرتے ہوئے میں نے سوچا کہ اس عظیم تخلیق کار نے لاہور کی کیسی کیسی شاہکار عمارتیں ڈیزائن کی ہیں، ایچیسن کالج، جی پی او، میو اسکول آف آرٹس (این سی اے)، لاہور میوزیم، لاہور ہائی کورٹ، گورنمنٹ کالج کا کیمسٹری بلاک، میو اسپتال کا البرٹ وکٹر ونگ۔ یہ تمام عمارتیں فن تعمیر کا نادر نمونہ ہیں جن میں بیک وقت لاہور کی شان بھی جھلکتی ہے اور تاریخ بھی نظر آتی ہے۔ میو اسپتال کا البرٹ وکٹر ونگ بھی میں نے حال ہی میں دیکھا ہے، اگر آ پ بیمار نہیں تو کسی شام یہاں کے سو سال پرانے درختوں کے نیچے بیٹھ کر چائے پینے کا لطف اٹھا سکتے ہیں، خاصا رومان پرور ماحول ہوتا ہے۔ ہیلے کالج کے علاوہ سر گنگا رام اسپتال بھی گنگا رام ہی کی دین ہے، اِس کے علاوہ انہوں نے لیڈی میکلیگن گرلز ہائی اسکول، راوی روڈ کا یتیم خانہ اور مال روڈ پر واقع سر گنگا رام ٹرسٹ بلڈنگ بھی گنگا رام نے عطیہ کیں۔ ہند و اور سکھ بیواؤں کے لیے انہوں نے سوسائٹیاں بنائیں، رینالہ خورد کا ہائیڈرو اسٹیشن بھی انہوں نے تعمیر کیا جہاں سے اس زمانے میں ایک میگا واٹ بجلی پیدا ہوتی تھی۔

سر گنگا رام صرف جینئس ہی نہیں تھے بلکہ وہ درد مند دل رکھنے والے انسان بھی تھے۔ عام طور سے وہ لوگ جو بہت ذہین ہوں، خاندانی رئیس ہوں یا پھر اپنی قابلیت کی بنا پر دولت اور کامیابی حاصل کر لیں اُن میں رعونت اور احساس تفاخر آجاتا ہے۔ سر گنگا رام کو ایسا کوئی مرض لاحق نہیں ہوا۔ لاہور کے اِس فرزند کی وفات تو لندن میں ہوئی مگر اِس کی سمادھی راوی کنارے لاہور میں بنائی گئی۔ لاہورکے باسی اگر اپنے اِس محسن کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں تو انہیں چاہیے کہ سر گنگا رام کا ایک مجسمہ مال روڈ پر نصب کریں، دنیا کے ہر بڑے اور تاریخی شہر کی یہی روایت ہے، سو اہل لاہور کو بھی یہ روایت نبھانی چاہیے اور اُس مجسمے کا اتنا ہی احترام کرنا چاہیے جتنا خود گنگا رام لاہور شہر کا کرتے تھے۔

مجسمہ تو خیر کیا نصب ہوگا، الٹا ایک زمانے میں گلاب دیوی اور گنگا رام اسپتا ل کا نام بدلنے کی مہم یار لوگوں نے چلائی تھی جو شکر ہے کامیاب نہ ہو سکی۔ یہ وہی لوگ تھے جن کے بارے میں منٹو جیسے حساس لکھاری نے ایک ’سیاہ حاشیہ کھینچا تھا کہ ہجوم سر گنگا رام کے بُت پر پِل پڑا، لاٹھیاں برسائیں اور بُت کے منہ پر تارکول مل دیا اور اسے جوتوں کا ہار پہنایا۔ مگر پولیس آ گئی اور گولی چلنے سے جوتوں کا ہار پہنانے والا شخص زخمی ہو گیا چنانچہ مرہم پٹی کرنے کے لیے اسے گنگا رام اسپتال بھجوا دیا گیا۔

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 487 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada