کُل جماعتی کانفرنس کے نام


بلاول بھٹو کی دعوت پر میاں نواز شریف کُل جماعتی کانفرنس سے خطاب کریں گے یا پھر ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کی ترجمانی کے لئے مریم نواز تخلیہ سے باہر آئیں گی یا نہیں، جس سے واضح ہو جائے گا کہ اے پی سی ایک اور پھوکا فائر ہوگی یا پھر متحدہ اپوزیشن کچھ دم خم کا مظاہرہ کرے گی۔

ابھی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں عددی اکثریت کی حامل اپوزیشن کو مِسنگ ایم پیز کے ہاتھوں جو شرمندگی اُٹھانا پڑی، اُس کی خفت اگر دُور کی بھی تو آل پاکستان بار کونسل کی اے پی سی نے، جہاں سب سے زیادہ چھوٹے صوبوں کی پارٹیوں کے لیڈر زیادہ جوش میں نظر آئے۔

شہری آزادیوں کی پامالیوں، آزادیِ صحافت پہ بڑھتی قدغنوں اور وفاقی اکائیوں کی محرومیوں کے ناطے اٹھارہویں ترمیم اور ساتویں نیشنل فنانس کمیشن کے ایوارڈ کے خلاف جاری ناجائز تجاوزات کے خلاف وکلا برادری کا میدان میں اُترنا آج ہونے والی کُل جماعتی کانفرنس کے لئے ایک نئی مہمیز فراہم کر سکتا ہے۔

بشرطیکہ مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی اپنی اپنی مصلحت پسندی کے تذبذب سے باہر نکلیں۔ پرانی جماعتوں کی زیرِعتاب پرانی قیادتوں کے خلاف ہماری احتساب کی یکطرفہ اور منقسمانہ مشقِ ستم پر پاکستان بار کونسل نے تبرہ بھیج کر قانون کی حکمرانی اور سب کے شفاف احتساب کا مطالبہ کر کے سیاسی قیادتوں پر لگائے گئے دھبے صاف کرنے کی کوشش تو ضرور کی لیکن یہ امر اپنی جگہ ہے کہ پرانی قیادتیں ابھی بھی کٹہرے میں کھڑی ہیں، جبکہ عمران حکومت کی کوشش ہے کہ ’’لُٹ کے کھا گئے‘‘ کا بیانیہ چلتا رہے تاکہ اُس کی اپنی بےاعمالیوں اور طرح طرح کے اسکینڈلوں سے لوگوں کی توجہ ہٹی رہے۔

بہتر ہوگا کہ دونوں بڑی پارٹیوں کے وہ رہنما جن پر مبینہ کرپشن کے کیس چل رہے ہیں، وہ پہلے اپنی پاکدامنی ثابت کرنے تک اپنی جماعتوں کو اپنے ناکردہ گناہوں کے بوجھ سے آزاد کریں۔ اب وقت ہے کہ مین اسٹریم پارٹیوں میں نئی نسل کی قیادت بھرپور طریقے سے اپنی ذمہ داریاں سنبھالے۔

لگتا ہے کہ بلاول بھٹو اب بااختیار اور حقیقی پارٹی چیئرمین بن چکے ہیں اور زیادہ مشاق اور متحرک ہوتے دکھائی دے رہے ہیں لیکن مسلم لیگ ن ابھی تک مخمصے میں پھنسی ہوئی ہے۔ میاں نواز شریف بیماری کے باعث جلدی واپس آنے سے رہے اور میاں شہباز شریف بطور اپوزیشن لیڈر ٹُھس ہو کر رہ گئے ہیں۔ اُن کی پائوں پڑنے کی سیاست نہ صرف ناکام ہو گئی ہے بلکہ پی ایم ایل این کو ہی لے بیٹھے گی۔ بہتر ہوتا کہ مریم نواز کو سامنے لایا جاتا لیکن خاندانی سیاست کی مصلحتوں کا جمہوری تقاضوں سے کیا سروکار۔

تحریکِ انصاف کی حکومت کی جتنی ہوا نکلتی جا رہی ہے، اُتنا ہی زیادہ یہ حزبِ اختلاف پہ حملہ آور ہو رہی ہے اور شہری آزادیوں، پارلیمان کی حیثیت اور آئینی حکمرانی کے تقاضوں سے منہ موڑتی چلی جا رہی ہے۔

فنانشل ٹاسک فورس کے حوالے سے جو قانون سازی درکار تھی، اُس کی آڑ میں اُس نے نہ صرف پارلیمان کے استحقاق کا تماشہ لگا دیا بلکہ انسانی حقوق اور انصاف کے تقاضوں کو پامال کرنے کی شقیں بھی پاس کروا دیں۔ اب منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی فنانسنگ یکجا کر کے نیب کا دائرہ بڑھا دیا گیا ہے اور بغیر وجہ بتائے لوگوں کو 120 روز تک زیرِ تفتیش رکھتے ہوئے ہر طرح کی تکنیک استعمال کی جا سکے گی۔

اپوزیشن کا خدشہ درست ہے کہ وہ فنانشل ٹاسک فورس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے حکومت سے تعاون کو تیار تھی لیکن حکومت نے کالی دفعات کو پاس کروانے کے لئے قومی اتفاقِ رائے کو بُری طرح سے تقسیم کر دیا۔

آج کی اے پی سی کو غور کرنا ہوگا کہ لوگ سیاست، چالو جمہوریت اور لیڈران کرام کی کارستانیوں سے کیوں نالاں ہو چکے ہیں۔ مہنگائی، بیروزگاری اور معاشی کنگالی کے بڑھنے اور اچھی حکومت کے بجائے مافیائوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے باوجود بے بس عوام اپوزیشن کی جانب راغب نہیں ہو رہے۔

جمہوریت کی بحالی اور تسلسل میں چارٹر آف ڈیموکریسی نے اہم رول ادا کیا تھا، اگر اُس کی اسپرٹ اور تقاضوں کو برقرار رکھا جاتا تو شاید جمہوریت بی بی کو خفت نہ اُٹھانا پڑتی۔ عوام ہوں یا محروم وفاقی اکائیاں، سبھی کی مانگیں بڑھ گئی ہیں۔ پرانے نظام پہ اعتماد ختم ہو کے رہ گیا ہے اور پرانے مجروح سوشل کنٹریکٹ کو نئے چیلنجوں سے ہم آہنگ کرنے کے لئے ہر طرف سے آوازیں اُٹھ رہی ہیں۔

آج کی اے پی سی میں شامل جماعتوں کو عہد کرنا ہوگا کہ

(1)  انسانی حقوق کے عالمی اعلان نامے اور سیاسی و شہری حقوق کے یو این کے معاہدے کی مکمل پاسداری کی جائے گی اور تمام شہریوں کو بلااستثنیٰ صنف، عقیدہ اور قومیت بطور شہری مساوی حقوق دیے جائیں گے۔ خاص طور پر خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔

(2)  اٹھارہویں ترمیم کو مستحکم کرنے کے لئے ڈیویلیویشن کے عمل کو اداراتی سطح تک لے جایا جائے گا تاکہ مرکزی نوکرشاہی اور انتظامی ادارے صوبوں کے حقوق پہ ڈاکہ نہ ڈال سکیں۔

(3)  آئین اور منتخب اداروں کی حاکمیت کو ایسے یقینی بنایا جائے گا کہ ہر ادارہ اپنے دائرہ عمل تک محدود رہے۔

(4)  سینیٹ کے براہِ راست انتخاب، موثر مقامی حکومتوں کا لازمی قیام، انتخابی نظام میں اصلاحات اور عوامی منشا کی حکمرانی کو یقینی بنایا جائےگا۔

(5)  وفاقی عدلیہ، وفاقی سول و ملٹری سروسز و دیگر اداروں میں ضروری اصلاحات۔

(6)  تمام آئینی عہدوں پہ تعیناتی کے لیے پارلیمنٹ کی دو طرفہ کمیٹیوں کو بااختیار کیا جائے گا اور انیسویں ترمیم ختم کی جائے گی۔

(7)  عوام کے سماجی، معاشی اور طبقاتی حقوق، آزادیوں اور ضرورتوں کے لئے عوامی ترقی کا ماڈل یوں اپنایا جائے گا کہ پاکستان قرضوں کے جال سے خلاصی پا سکے۔

(8)  ملک کی سلامتی کے امور ایک قومی طرزِ عمل کا تقاضا کرتے ہیں جس کیلئے تمام اسٹیک ہولڈرز میں اتفاقِ رائے ضروری ہے۔ نیز سماجی، معاشی، ماحولیاتی، غذائی سلامتی کو ضروری اولیت دے کر غربت و افلاس، جہالت و بیماری اور کثافت کا خاتمہ کیا جا سکے۔

(9)  تمام سیاسی جماعتیں عہد کریں کہ وہ آئینی بالادستی اور عوامی حکمرانی پہ کسی طرح کی آمرانہ قوتوں سے کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گی تاکہ آزادیِ جمہور اور جمہوریت مستحکم بنیادوں پر آگے بڑھ سکے۔ وقت بدل چکا ہے اور اُس کے نئے تقاضے اِک نئے ایجنڈے اور نئی قیادت کے متقاضی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

امتیاز عالم

بشکریہ: روزنامہ جنگ

imtiaz-alam has 58 posts and counting.See all posts by imtiaz-alam