ایک آرٹسٹ جسے ہتھیار تھما کر مار دیا گیا


شہر خموشاں میں جب رشتہ دار احباب کی قبروں کی فاتحہ سے فارغ ہوئے تو کزن نے ایک قبر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا۔ یہ لطیف کی قبر ہے۔ خاک وطن کی گود میں حسرتوں کی گٹھلی سرہانے داب کر لیٹا یہ جوان بھی کیا گھٹن بھری زندگی جی گیا۔

لطیف کا خاندان محمکہ پولیس سے وابستہ ہے۔ دادا، والد، دو بھائی، رشے دار، کوئی پولیس ریٹائرڈ تھا۔ تو کوئی سروس جاریکیے ہوئے۔ سمجھ لیں اس خاندان میں بچہ پولیس کی وردی پہن کر ہی پیدا ہوتا تھا۔ مگر لطیف! وہ بجائے وردی کے ہاتھ میں قلم اور بغل میں کتابیں لے کر پیدا ہوا۔

وہ پیدائشی آرٹسٹ تھا۔ کم عمری میں پھلوں و پھولوں کی تصاویر اس مہارت سے بناتا جیسے ہاتھ سے نہیں کیمرے سے بنائی ہو۔ بچپن کی راتیں دادی ماں کی کہانیوں کے کرداروں سے دوستی میں گزر گئی۔ جوانی میں ان کرداروں کی جگہ کتابوں نے لے لی۔ مطالعے کا یہ عالم تھا کہ ایک ہی نشست میں ضخیم کتب کھنگال ڈالتا۔ ان عادات و صلاحیتوں نے اسے اپنے خاندانی روایت سے بغاوت پر اکسایا۔ اسے پولیس والا نہیں نقاش بننا تھا، فطرت کی بے انت خوبصورتی کو کاغذ کے ٹکڑوں پر سجانا تھا۔ انسانی شعور میں مخفی بے رنگ خیالات کو رنگین بنانا تھا۔

مگر اسے معلوم تھا کہ ایک دن والد ان تمام مشاغل و صلاحیتوں کو پولیس کی وردی میں سمیٹنے کا حکم دے گا۔ ایسا ہی ہوا۔ لطیف نے انکار کیا والد کو سمجھانے کی کوشش والدہ کے اگے گڑگڑایا، تمام تر کوششوں اور سفارشات کے باوجود بھی والد کی ضد حاوی ہوگئی۔

پختون معاشرے میں اولاد کے لئے فکر مند اسی فیصد والدین اپنے بچوں کا مستقبل فنون لطیفہ کے آسرے پر نہیں چھوڑتے۔ اپنے بیٹے کو ناسمجھ جان کر اس کے آہ و زاری کو نظر انداز کردیا۔ ایک انمول ہیرے کو قانون کے لمبے ہاتھ کی ہتھیلی پر رکھ دیا۔

وہ اپنی کتابوں سے کچھ کتابیں اور خالی صفحات چن کر نم آنکھیں لئے گھر سے ٹریننگ کے لئے روانہ ہوا۔ اس نے گھر والوں کی بات تو مان لی، مگر اپنی فطرت کو وردی پہننے پر آمادہ نہ کرسکا، اپنا مزاج ہی اس سے روٹھ گیا۔ ٹریننگ سے لوٹا تو بجائے رعب کے اداسی لایا۔

وردی پہننے کے بعد ایسا دن نہیں گزرا کہ وہ محکمے کے ساتھیوں سے الجھا نہ ہو، روز کی تفتیش مار دھاڑ سے اس کی معصوم روح تڑپ جاتی۔ زندگی کا ہر دن ایک بار گراں بن گیا۔ امیر کے اگے قانون کی عاجزی اور غریب کے لئے اس کی فرعونیت دیکھ کر رو جاتا۔ ریمانڈ روم میں اپنے سینئرز سے ان کے جارحانہ رویوں پر لڑ پڑتا۔ معطل ہوتا والد سے خوب ڈانٹ پڑتی، باپ بیٹے کی ذہن سازی کرتا۔ پھر سفارش پر بحال ہوجاتا۔ یووہ کچھ دن تو پولیس والا بن جاتا مگر پھر کسی کی عاجزی و بے قراری آڑھے اجاتی۔

ایک دن سڑک کنارے اپنے ایک افسر کو رشوت لیتے دیکھا تو جو منہ میں آیا بول دیا اس کی وردی پھاڑ دی۔ معطل ہوا۔ قلم اٹھایا پنجرے میں قید روتے ہوئے بلبل کی تصویر بنا کر کمرے کی دیوار سے چپکا دی۔ پھر ڈانٹ پڑی باپ نے کہا تم رشوت سے بس اپنا دامن بچاؤ اوروں کی فکر چھوڑ دو۔ ”بات صرف رشوت سے خود کو بچانے کی نہیں تھی۔ اسے اس دوغلے پن سے بھاگنا تھا۔ کتابی کیڑا قانون کا شیر نہیں بن سکتا۔

زیست کی تلخیاں عروج پر تھی۔ ایک رات کسی دہشتگرد کی موجودگی کی اطلاع پر ٹیم کا حصہ بن کر بنگلے پہ چھاپہ مارا۔ تمام اہلکار بنگلے کے کمرے چھاننے میں لگ گئے۔ لطیف دو ساتھیوں سمیت ایک کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا۔ ایک شخص خوفزدہ چہرہ لئے کھڑا ہے۔ ایک چھوٹی بچی اپنے ہاتھ پھیلائے اس شخص کے اگے ننھی سی ڈال بن کر کھڑی ہوئی ہے جو یقینا اس کی بیٹی تھی۔ باپ کے لئے معصوم بچی کے جذبات دیکھ کر لطیف ٹوٹ گیا اور رحم کا مادہ چھلک پڑا۔ دہشتگرد کو فرار کا راستہ دیا۔ اس کے ساتھی اہلکاروں نے مزاحمت کی تو بندوق اپنے ساتھیوں پر تھان لی۔

اس بار معطل ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی گرفتاری بھی ہوئی، مگر کوئی گواہی دینے پر تیار نہ ہوا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ دوبارہ بحال ہوگیا۔ والد ہی نہیں بلکہ، دوستوں، رشتے داروں، سب نے خوب ڈانٹ کھلائی، خوب برین واشنگ کی، معصوم فطرت، رحم سے بھرپور روح کو قتل کرنے کا کہا۔ اس نے خاموشی توڑی سب سے کہا کہ وہ خود فریبی کی زندگی جی رہا ہے، اپنوں کے خواہشات پورے کرنے کے بدلے ہر گزرتے دن ارمانوں و حسرتوں کے قرض تلے دبتا جارہا ہے۔

باپ بیٹے سے دست و گریباں تھا بیٹا خود سے الجھا ہوا۔ ہاں اور ناں کی کشمکش جاری تھی۔ مگر یہ کوئی نہیں جانتا کہ اس افسانوی آسمانی درخت میں جہاں لوگوں کے نام کے پتے ہوتے ہیں۔ لطیف نام کا پتا زرد ہوچکا ہے۔ باپ کی پریشانی، گھر والوں کی آئے روز کی پشیمانی دور ہونے والی ہے۔ خود لطیف کی اپنے من کی ویرانی عدم میں منتقل ہونے کو تھی۔

اس بار اس کی ڈیوٹی پولیس ٹریننگ سینٹر کی سیکورٹی پر لگا دی گئی۔ جہاں پولیس لائن کی دیوار سے لگی کرسی پر بیٹھ کر روز ڈیوٹی دیتا۔ ایک دن معمول کے مطابق ڈیوٹی دینے ایا۔ روزانہ کے معمولات سے فارغ ہوا تو دیوار سے لگی کرسی پر ٹیک لگا کر کتاب پڑھنے میں مصروف ہوگیا۔ اس دوران ایک کم عمر لڑکے نے آکر اس پر پستول تھان دیا۔

اگلے ہی لمحے وہ سینہ جو انسان و حیوان دونوں کے لئے رحم کی آماجگاہ تھی۔ اس میں چھ گولیاں داغ دی گئی۔ وہ روح جو پولیس کی وردی سے برسرپیکار تھی وردی کے ساتھ ساتھ لطیف کے جسم سے بھی الگ ہوگئی۔

سیکیورٹی پر مامور دیگر اہلکاروں کی فائرنگ سے حملہ آور موقع پر ہی مارا گیا، عینی شاہدین کا بیان تھا کہ جب حملہ آور اس کے سامنے کھڑا ہوا تو لطیف نے بس کتاب بند کر کے اپنی گود میں رکھ دی۔ پاس پڑے بندوق کو دیکھا تک نہیں۔ وہ اپنے قاتل کو کیا مارتا وہ تو بیچارہ قلم کا سپاہی تھا پاؤں تلے چیونٹی اجاتی تو اس کا بھی اسے غم رہتا۔

اس کی لاش دیر تک اس کرسی پر پڑی رہی قاتل بھی اوندھے منہ اس سے کچھ فاصلے پر پڑا تھا، کہتے ہیں۔ لطیف کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔ حملہ آور کی لاش پہ ٹکی ہوئی! آنسوؤں نے آنکھوں سے ڈھلک کر رخسار پر اپنے نشان چھوڑ دیے تھے۔ ان مردہ آنکھوں سے بھی ایسا غم چھلک رہا تھا جیسے اسے اپنے قاتل کے مر جانے کا غم ہو۔

زندگی کی آخری رات اس نے بہت عرصے بعد قلم تراش کر پینٹنگ بنائی تھی، لال شعلے میں لپٹے دل کی تصویر۔ جس سے خون کے قطرے جلتے موم کی طرح ٹپک رہے تھے۔

والد نے بیٹے کی پسندیدہ کتابیں اور ہاتھ سے بنائی ہوئی تصاویر اس کے خون آلود کپڑوں میں لپیٹ کر قبرستان کے ایک گمنام گوشے میں دفنا دیے، پچپن کی کچھ ننھی گھنٹیاں جو اس نے سنبھال رکھی تھیں۔ اس کی قبر کے پاس درخت کی شاخ سے باندھ دی، جو ہوا کے ہر جھونکے کے ساتھ قبرستان کی خاموشی می ہلکی سی ٹن ٹن کرتے وہاں اداسی کا اضافہ کرتیں ہیں۔

آج بھی جب کاغذ کا کوئی ٹکڑا قبرستان کی جانب سے ہوا لے کر آتی ہے۔ تو گاؤں کے بچے بوڑھے اسے اٹھا کر ضرور دیکھتے ہیں شاید اس اداس سپاہی کے ہاتھ کی بنائی کوئی تصویر ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).