روہنگیا کا ماتم اور ہماری منافقت​



کسی کو منافقت سیکھنی ہو تو ہم سے سیکھے۔ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر ہوئے مظالم پر ہم جتنے نالاں ہیں اتنا ہم یمن پر کبھی نہیں ہوئے۔ کیوں نہیں ہوئے یہ اپنا اپنا دل ٹٹول کر خود جان لیجیے۔ ذرا میانمار اور یمن کے حالات کا تقابلی جائزہ لیجیے۔ دونوں ہی مقامات پر جارحیت کو عسکری مہم کا نام دے دیا گیا ہے۔ میانمار کی فوج کہتی ہے کہ روہنگیا افراد میں شامل شدت پسندوں کا سر کچلنے کے لئے فوجی آپریشن ضروری ہے۔ سعودی عرب کی بھی یہی تاویل ہے کہ وہ حوثیوں کی سرکوبی کے لئے یمن پر بمباری کر رہا ہے۔ اب اس عسکری مہم میں چاہے بے خطا روہنگیا مریں یا بے قصور یمنی نہ تو میانمار کی فوج کی کوئی غلطی ہے اور نہ سعودی عرب کا کوئی گناہ۔

ہم سب چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ دیکھو دیکھو میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے بارے میں حقوق انسانی کے بین الاقوامی ادارے کیا کہہ رہے ہیں۔ ہم یہ کیوں دیکھنے کو تیار نہیں ہوتے کہ یمن میں سعودی عرب کی بمباری پر یہی حقوق انسانی کی تنظیمیں کیا کہتی آئی ہیں۔ ایمنیسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کہتی ہے کہ سعودی عرب نے یمن پر کلسٹر بم برسائے ہیں۔ برازیل میں تیار ان تباہ کن کلسٹر بموں کے استعمال پر دنیا بھر میں پابندی ہے لیکن سعودی ہے، اس نے برسا دیے اور چونکہ سعودی نے برسائے اس لئے مجال ہے کہ ہم اس کو غلط کہہ دیں۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ میانمار کی فوج کے ہاتھوں ہلاک روہنگیا مسلمانوں کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ یہ سنتے ہی ہمارا دل بھر آیا۔ بالکل بھر آنا چاہیے ایک موت بھی موت ہے اور کہاں ہزار اموات لیکن اسی اقوام متحدہ کے مطابق یمن پر سعودی جارحیت میں تیرہ ہزار سے زیادہ عام شہری مارے جا چکے ہیں۔ ان میں دو ہزار خواتین اور ڈھائی ہزار سے زیادہ بچے شامل ہیں۔ اب بتائیے روہنگیا معاملہ پر احتجاج کرنے والے کتنے افراد نے یمن میں ہو رہی اس نسل کشی پر احتجاج کیا؟ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی بمباری کے سبب اکیس ہزار سے زیادہ بے گناہ شہری بری طرح زخمی ہوئے ہیں۔ اگر ابھی بھی دل نہ پسیجا ہو تو جان لیجیے کہ سعودی عرب کی فوج کشی کے سبب یمن میں دو سو چھیانوے اسپتال، ہزار کے لگ بھگ تعلیمی ادارے، انیس سو سے زیادہ پل اور سڑکیں، چار سو سے زیادہ پانی سپلائی کرنے والے ٹینک اور سات سو سے زیادہ مساجد ملبے میں بدل گئی ہیں۔ ان عمارتوں کو جس وقت بمباری کا نشانہ بنایا گیا اس وقت ان میں بے قصور افراد بھی موجود تھے۔ اب بھی کیا آپ روہنگیا احتجاج میں ایک تختی یمن کے لئے نہیں اٹھائیں گے؟

ہم حقوق انسانی کی تنظیموں کی بہت بات کر رہے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ سعودی عرب جان بوجھ کر بے قصوروں پر بمباری کرکے جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کہتی ہے کہ سعودی عرب یمن میں سیکڑوں بچوں کی اموات کا ذمہ دار ہے۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس یمن میں مرنے والے بچوں میں سے آدھے سعودی عرب کی بمباری سے مرے۔ اقوام متحدہ کا ہی ادارہ یونیسیف کہتا ہے کہ یمن میں چار لاکھ بچے بھکمری کے دہانے پر ہیں اور ان میں بھی بائیس لاکھ ایسے ہیں جن کو فوری مدد چاہیے۔ رپورٹ کے مطابق یمن کے لاکھوں بچے سعودی بمباری کے سبب غذا کی قلت سے دوچار ہیں۔ مرے پر سو درے یہ کہ بھکمری کے شکار بچوں کو ہیضے کی وبا کا سامنا ہے، خیر ہو خادم الحرمین الشریفین کی جن کی فوج نے بمباری کرکے یمن کے زیادہ تر طبی مراکز کو برباد کر دیا ہے اب ہیضہ کے مارے ہوئے افراد کو علاج کی بھی آس نہیں۔

ہم سب کو میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی سے بڑی شکایت ہے کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کے حق میں نہیں بولتیں۔ چلو خیر اس کو تو فوج سے جھگڑا لے کر اپنی حکومت خطرے میں نہیں ڈالنی لیکن کیا کوئی بتانا پسند کرے گا کہ یمن میں کھیلے جا رہے خاک و خون کے اس کھیل پر سعودی عرب کے بادشاہ یا ولی عہد کی کون سی معذرت سامنے آئی؟ اگر حوثیوں کو کچلنے کے نام پر سعودی عرب کو یہ حق ہے کہ وہ یمن کا گلا گھونٹ دے تو میانمار کی فوج بھی تو یہی توجیہہ کر کے اپنے جرائم سے پلہ جھاڑ سکتی ہے۔ دیکھئے، دو چیزیں ساتھ ساتھ نہیں چلیں گی۔ یا تو کہئے کہ سعودی عرب کی طرح ہر ملک کو عسکری مہمات میں یہ حق مل جاتا ہے کہ وہ چاہے جتنوں کو مارے اور چاہے جتنوں کو معذور بنا دے۔ اگر ایسا ہے تو روہنگیا معاملہ پر احتجاج ابھی اسی وقت بند کر دیجئے، لیکن اگر کسی کو کسی کی نسل کشی کا حق نہیں ہے تو فورا یمن میں جاری جارحیت کے خلاف بھی آواز اٹھائیے، یہ مت سوچئیے گا کہ کون کیا سوچے گا۔

ارے ہاں یاد آیا، کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کو ہجرت کرنی پڑ رہی ہے یہ ظلم کیا کم ہے؟ بالکل کم نہیں ہے، لیکن مت بھولئے کہ یمن پر سعودی جارحیت کے سبب نہ صرف یہ کہ لاکھوں افراد کو یمن میں ہی ہجرت کرنی پڑی بلکہ پچھلے برس سے اب تک ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زیادہ یمن والوں کو افریقہ میں جاکر پناہ لینی پڑی ہے۔ یہ مہاجرین بھی اسی بے سروسامانی میں ہیں جیسے روہنگیا مہاجرین۔ ظلم کہیں بھی ہو غلط ہے، میانمار میں جو ہو رہا ہے وہ دل ہلا دینے کے لئے کافی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سعودی عرب کے ہاتھوں جو یمن میں ہو رہا ہے وہ رلا دینے کے لئے کافی ہے۔ شرط یہ ہے کہ دل میں منافقت اور آنکھوں پر تعصب کا چشمہ نہ ہو۔

 

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter