بوڑھے نواز شریف کا آخری اثاثہ


’’ایک بوڑھا سفر پر روانہ ہوا، راستے میں اس پر چار نوجوانوں نے حملہ کیا اور اس کا سامان لوٹ لیا، غم زدہ بوڑھا آگے روانہ ہوا۔ تھوڑی دور جاکر اس نے گلی کے کونے پر حیرانی کے ساتھ دیکھا کہ ان چار لٹیروں میں سے تین اپنے ساتھی پر ٹوٹ پڑے، اس سے اس کے حصہ کا مال چھین لیا اور مار کر ایک طرف گرا دیا۔ بوڑھے آدمی کو یہ دیکھ کر خوشی ہوئی اور وہ (امید کے ساتھ) تیز تیز چلتا ہوا قریبی شہرپہنچ گیا اور فوراً عدالت میں گیا تاکہ اپنا مقدمہ دائر کرے۔ وہاں کیا دیکھتا ہے کہ چاروں نوجوان برابر برابر کھڑےہیںاور اس کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ واقعہ سن کر عقل مند اور انصاف پسند جج نے یہ فیصلہ دیا ’’بوڑھے آدمی کو چاہیے کہ اپنی آخری چیز بھی ان نوجوانوں کو دےدے ورنہ یہ چاروں نوجوان بے اطمینانی کی وجہ سے ملک میں بد امنی اور انتشار پھیلائیں گے‘‘۔

یہ واقعہ جرمنی کے معروف ڈرامہ نگار، کہانی نویس، اور شاعر برٹولٹ بریخت کی تحریروں کے اردو ترجمے ’ملحد کا اوورکوٹ‘ کے مطالعے میں نظر سے گزرا۔ اس کا ترجمہ ممتاز مورخ ڈاکٹر مبارک علی صاحب نے کیا ہے۔ مذکورہ چار نوجوانوں میں سے دو کرداروں کے انتخاب کا اختیار اگر آپ اس ناچیز کو دیں تو یہ طالب علم ایک کردار خانِ خانان عمران خان اور دوسرا زرداری صاحب کے سپرد کرے گا۔ باقی دو کردار آپ فرض کرلیں…بوڑھے کا کردارشاید متفقہ ٹھہرے، اور یہ ابھی بڑھاپے کی دہلیز پر نہ پہنچنے والے میاں نواز شریف کے شایانِ شان لگتا ہے۔ بوڑھے کے’ سامان‘ کو سول بالادستی کی کوشش قرار دیا جا سکتا ہے….اس کتاب سے یہ بھی معلومات ملتی ہیں کہ ڈکٹیٹر ہٹلر نے لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے جو طریقے اپنائے ان میں جلسے و جلوس، نوجوان عورتوں اور بچوں کی جماعتیں، یونیفارم، موسیقی، گیت، ترانے اور جوشیلی تقاریر شامل تھیں کہ جنہوں نے پوری قوم میں ’مخصوص سوچ‘ کے لئے جذبات کو ابھارا۔ اور اس سوچ کے حاملین ہی کو جرمن قوم کا نجات دہندہ اور مسیحا باور کرایا۔ چنانچہ ایک مرتبہ جب ایسی سوچ کے مخالفین غدار اور جرمن قوم کے دشمن سمجھے جانے لگے تو پھر انہیں جیلوں میں ڈالنا، اذیت دینا اور قتل کرنا ’سب جائز‘ ہوگیا۔

بریخت کو ہٹلر کی وجہ سے جرمنی چھوڑنا پڑا اور اسے جلاوطنی کا زمانہ جدہ میں گزارنا پڑا۔ معاف کیجیے گا، یہ جدہ سہواً لکھ گیا….بریخت نے جلاوطنی کا زمانہ آسٹریا، ڈنمارک، سوئیڈن وغیرہ میں گزارا۔ خیر بریخت دوسرا واقعہ ’بے یارو مدد گار لڑکا‘ کے زیر عنوان بیان کرتے ہیں۔ مصنف کا کمال ہے کہ بوڑھے کو اب لڑکا بنا دیا! یہ کہانی اس خرابی اور ناانصافی کے بارے میں ہے جس پر خاموش رہا جائے۔ کہتے ہیں کہ ’’ایک مرتبہ ایک شخص نے گزرتے ہوئے ایک بچے کو روتے ہوئے دیکھا اور اس سے اس کی تکلیف کی وجہ دریافت کی۔ بچے نے کہا کہ اس نے سینما جانے کے لئے دو سکے جمع کئے تھے کہ ایک نوجوان آیا اور میرے ہاتھ سے ایک سکہ چھین کر لے گیا، یہ کہہ کر اس نے اشارےسے اس نوجوان کی نشاندہی کی جو دور جاتا دکھائی دے رہا تھا۔ کیا تم مدد کے لئے نہیں چلائے! آدمی نے سوال کیا۔ ہاں ہاں لڑکے نے روتے ہوئے کہا۔ کیا تمہاری چیخ و پکار کسی نے نہیں سنی‘‘ اس آدمی نے محبت سے اس سے پوچھا ’’نہیں ‘‘ بچے نے رو کر کہا۔ کیا تم اور زور سے نہیں چیخ سکتے! آدمی نے سوال کیا۔ ’’نہیں‘‘ بچے نے جواب دیا اور آدمی کو پر امید نگاہوں سے دیکھا۔ اس پر وہ آدمی ہنسا…..تب تم دوسرا سکہ بھی دے دو‘‘ اس نے یہ کہہ کر بچے سے سکہ چھینا اور اطمینان سے چل دیا۔ (اگر ان سکوں کو ووٹ اور مینڈیٹ سمجھ لیا جائے اور دو رہزنوں کو)۔

اب کچھ دیسی ٹوٹکے ملاحظہ کرتے ہیں۔ ہمارا مطمح نظر کسی پر لگائے جانے والے شاہانہ انداز حکمرانی یا مبینہ لوٹ کھسوٹ کے حوالے سے الزامات کا قطعی دفاع نہیں۔ ہم میاں صاحب کے صرف مثبت کردار کے حامیوں میں سے ہیں۔ پھر تاثر یہ بھی ہے کہ میاں صاحب اس وقت ’مزاحمت کی علامت‘ ہیں۔ تاہم اپنے ادوار میں اس حوالے سے عوام کو اپنی سوچ کے تحت تیار نہ کرنے، تنظیمی ساخت پر توجہ نہ دینے، سرمایہ و محنت میں عدم انصاف، میمو گیٹ جیسے معاملات میں اسٹیبلشمنٹ نواز کردار ادا کرنے اور انتہا پسند تنظیموں سے خصوصی تعلقات کے باوصف ہمارے لئے اس تاثر پر کُلی ایقان مشکل مرحلہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ ایک انقلابی لیڈر بن کر اُبھر رہے ہیں۔ ہمار ا خیال خام ہو سکتا ہے مگر یہ کہ مسلم لیگ کی پوری تاریخ میں کسی انقلاب کیلئے تخم ریزی کے شواہد موجود نہیں، یوں بر سرزمین حقائق انقلاب تو کیا کسی ہلکی پھلکی تحریک کے بھی مطابق نہیں…..

ایک مثال صرف این اے 120کے انتخابات کی دیتے ہیں۔ بلاشبہ مریم نواز صاحبہ نے نہ صرف یہ کہ اپنی خداداد صلاحیتوں کا بے مثال مظاہرہ کیا بلکہ یہ بھی ثابت کیا کہ وہ اپنے والد کی طرح جگر رکھتی ہیں۔ لینن سے لے کر امام خمینی تک مگر یہ عوام ہی تھے جنہیں قبل ازیں ایک نظریہ سے ایسا لیس کیا گیا تھا کہ وہ پھر ٹینکوں و بندوقوں کو خاطر میں نہ لائے۔ یہاں اہالیانِ لاہور دوپہر کے بعد ہی پولنگ اسٹیشنوں پر پہنچے، تو کل کلاں اگر ایسے لوگ جو اپنا آرام و پیٹ پوجا میاں صاحب کی خاطر نہیں چھوڑ سکے، وہ اپنا گھر بار چھوڑنے کے لئے کیونکر تیار ہو جائیں گے۔ بات اعداد و شمار کی نہیں، اس حرکت کی ہے جو لاہوریوں سے عمل پذیر نہ ہو سکی۔ میاں صاحب کا فقید المثال استقبال اپنی جگہ، مگر ان انتخابات نے ثابت کیا کہ ایسے تاریخی استقبال کو کیش کرنے کے محرکات باوجوہ پیدا ہی نہیں ہو سکے ہیں۔

یہ امر کس قدر مضحکہ خیز ہے کہ ایک وفاقی وزیر پولنگ کے وقت میں تین گھنٹےکےاضافےکا مطالبہ اس لئے کررہے تھے کہ ووٹرز تاخیر سے گھروں سے نکلے۔ عام طورپر ایسا مطالبہ پولنگ میں کسی وجہ سے تعطل کے بعد ہی کیا جاتا ہے۔ جب آپ خود تسلیم کرتے ہیں کہ چھٹی والے روز لاہورئیے دوپہر کے بعد ہی جاگتے ہیں، تو غائب کرانے اور زیادہ امیدواروں کی وجہ سے ووٹنگ کی سست روی جیسی مبینہ رکاوٹوں کو ہی کیوں دوش دیا جائے؟ اگر مریم نواز صاحبہ کے سوا پوری مسلم لیگ کی تنظیم (اگر کہیں ہے) خود سو رہی تھی تو وہ سوتے ووٹرز کو کس طرح جگاتی! ایک دوست نے بتایا کہ انتخابات والے روز ایک صاحب سے ایک ٹی وی کے نمائندے نے اپنے پروگرام میں سوال کیا کہ آپ ووٹ ڈال آئے ہیں، جواب تھا۔ نہیں، ابھی تو وہ ناشتے کا سامان لینے گھر سے نکلا ہے، پائے خریدنے ہیں، کلچے لگنے ہیں اس کے بعد لسی اور حلوہ پوری بھی خریدنی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کا بھتیجا کراچی سے بالخصوص شیر کو ووٹ ڈالنے آیا ہے ناشتے سے فارغ ہوکر ووٹ ڈالنے جائیں گے۔ آپ نے ملاحظہ کیا۔ یہ مثال جہاں میاں نواز شریف سے عوام کی محبت کا مظہر ہے وہاں اس سے یہ اندازہ بھی لگانا مشکل نہیں کہ اس محبت کے لئے مگر وہ صبح سویرے ناشتہ جلدی کرنے کی قربانی تک نہیں دے سکے۔ عوام انتخابات میں ناشتہ کر کے ہی جاتے ہیں، بعض ووٹرز دوپہر کے کھانے اور بعض بالکل آخر میں یہ فریضہ انجام دیتے ہیں۔ آپ مگر جب ان انتخابات کو انقلاب کا پیش خیمہ بناتے ہیں تو اس کیلئے کم از کم ووٹرز کو تو جگاتے۔ ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ انتخابات میں ووٹ یا استقبال اور مزاحمتی تحریک میں شرکت و انقلاب میں قربانی میں فرق ہے۔ مسلم لیگ (ن) بھی تحریک انصاف کی طرح ہجوم ہے اور ہجوم سے مروجہ سیاست کے تحت فوائد تو اٹھائے جا سکتے ہیں دو رس نتائج نہیں، اور یہی این اے 120 کے نتیجے کا پیغام ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).