پاکستانی سیاست میں علما کا کردار


اگر پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہو گا کہ پاکستان بنتے ہی آئین بنانا ایک مسئلہ بن گیا تھا۔ اگر آپ اس زمانے میں اسمبلی میں ہونے والی ڈیبیٹس پر نظر ڈالیں تو آپ دیکھیں گے کہ اس وقت کے غیر مسلم شہری یا اقلیتیں اور لبرل مسلمان ایک غیر مذہبی آئین کے حق میں تھے۔ قائد اعظم انگلینڈ کے آئینی ماہرین سے خط و کتابت کر رہے تھے۔ مسئلہ صرف مذہب اور سیکولرازم کے درمیان ڈیبیٹ کا نہیں تھا۔ نسلی، صوبائی اور بااثر جاگیردار نوابی ریاستیں بھی اپنے مقام و مرتبے کے بارے میں سوالات اٹھا رہے تھے۔ حکومت کے پاس صرف ایک ہی شارٹ کٹ تھا کہ اسلام کا نام استعمال کیا جائے، طاقتور اقلیتوں گروپس کو اکھاڑ پھینکا جائے اور نوابی ریاستوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے چنانچہ 1949 ء کی قرارداد مقاصد سامنے آئی۔

مشرقی پاکستان (اب بنگلہ دیش) میں علما بہت مضبوط تھے اور وہاں سے اسلامی آئین کی شدید حمایت سامنے آئی۔ ہم تو صرف اسلامی نظریاتی کونسل کے بارے میں جانتے ہیں لیکن اس سے پہلے آئین سے متعلق مسائل سے نمٹنے کے لئے دو دیگر ادارے بنائے گئے تھے۔ 1948ء میں تعلیمات اسلامیہ کا بورڈ اور 1956ء میں لا کمیشن بنایا گیا۔ ایک طرف ڈاکٹر حمید اللہ اور ڈاکٹر محمد اسد جیسے ریفارمسٹ ارکان تھے اور دوسری طرف مولانا شبیر احمد عثمانی، پروفیسر عمر حیات اور سلیمان ندوی وغیرہ تھے، جن کی باہمی کشمکش نے ان کوششوں کو اختلافی بنا دیا۔ 1951ء میں سیکولرسٹ کے دلائل کے جواب میں علما نے اسلامی ریاست کی گائیڈ لائن کے طور پر 22 نکات پیش کئے تھے۔جو قرار داد مقاصد کا متبادل ہو سکتے تھے۔ آنے والے دنوں میں علما نے خود کو سیاسی گروپس کی شکل میں منظم کیا اور صوبائی سیاست میں ان نکات کو استعمال کیا۔ 1953ء میں مذہبی گروپس نے لاہور میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا، ان کی قیادت احرار کر رہے تھے جو ہندوستان میں جمعیت علمائے ہند سے منسلک تھے۔ بعد میں جماعت اسلامی اور اہل سنت بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے۔ اسے اسلامائزیشن کی عوامی تحریک کے طور پر دیکھا گیا۔

اس وقت تک ایک سیاسی گروپ کے طور پر علما کی ساکھ اچھی نہیں تھی کیونکہ انہوں نے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی لیکن لاہور کی تحریک سے عوام کو ان کی طاقت کا پتہ چلا۔ طاقت کے اس مظاہرے سے پہلے تک اس زمانے میں شائع ہونے والا اسلامی لٹریچر دو گروپس میں بٹا ہوا تھا۔ ایک اصلاح پسند، دوسرا روایت پسند۔ اصلاح پسندوں کا مقابلہ کرنے کے لئے جماعت اسلامی سامنے آ گئی تھی۔ اور بتدریج آئینی ڈیبیٹس میں اسلامی قوانین سب سے اہم مسئلہ بن گئے۔

ڈاکٹر فضل الرحمن جیسے ریفارمسٹس نے اجتہاد کا مطالبہ کیا تاکہ اسلا م کی قانونی روایت کو عہد حاضر سے ہم آہنگ کیا جا سکے،جب کہ مولانا احتشام ا لحق تھانوی جیسے روایت پسندوں نے اصرار کیا کہ اسلامی فقہ کو ملکی قانون کے طور پر اپنایا جائے۔ ایوب خان نے ڈاکٹر فضل الرحمن کو 1960ء میں قائم کئے جانے والے سنٹرل انسٹیٹیوٹ آف اسلامک ریسرچ کا ڈائرکٹر مقرر کیا، اس کے بعد 1962ء میں اسلامی نظریاتی کونسل بنائی گئی، جس کے ارکان میں سے ایک ڈاکٹر فضل الرحمن بھی تھے۔ ابتدا میں اسلامی نظریاتی کونسل میں زیادہ تر وکلا، ججز، اور چند علما تھے۔ علما اور اصلاح پسندوں کے درمیان پائے جانے والی کشیدگی کا نتیجہ بورڈ آف اسلامی تعلیمات کی ناکامی کی صورت میں نکلا اور اسلامی نظریاتی کونسل میں اس کا زیادہ جارحانہ طور پر اظہار ہوا۔ لا کمیشن کی تجویز پر مسلم فیملی لاز 1961ء کو آرڈیننس کے طور پر متعارف کرایا گیا۔ مولانا تھانوی کی قیادت میں مذہبی گروپ نے اس کی مخالفت کی ۔اسلامی کونسل بننے کے بعد یہ ڈیبیٹ جاری رہی۔ ارکان میں ڈاکٹر فضل الرحمن اور مولانا احتشام الحق تھانوی نمایاں رہے۔ عائلی قوانین میں تو ترمیم نہیں ہو سکی لیکن مذہبی لابی کی مخالفت نے حکومت کو مجبور کر دیا کہ وہ ڈاکٹر فضل الرحمن کو ملک بدر کر دے۔ بعد میں مذہبی لابی نے ذوالفقار علی بھٹو کو بھی 1973ء کے آئین میں مذہبی ضابطے ڈالنے پر مجبور کر دیا۔

ضیا ا لحق کے دور میں قوانین کی اسلامائزیشن کا آغاز ہوا۔ اگرچہ آئین کا مشورہ اس کے برعکس تھا لیکن اسلامی نظریاتی کونسل میں مذہبی علما کی تعداد میں اضافہ کیا گیا جس سے کونسل کی ساخت اور فرائض متاثر ہوئے۔ ابتدائی رولز کے برعکس اب چیئرمین کا جج ہونا ضروری نہیں رہا۔ اب کونسل کا رول صرف ایڈوائزری ہے۔ پارلیمنٹ میں کبھی بھی اس کی رپورٹ یا تجاویز پر بحث نہیں کی گئی حالانکہ آئین کے تحت ایسا کرنا ضروری ہے۔ ہماری سیاسی حکومتیں علما کو خوش کرنے کے لئے اس کونسل کو استعمال کرتی رہی ہیں۔ مختلف سیاسی پارٹیوں میں عہدے رکھنے والے علما کی کونسل میں تقرری کی جاتی رہی ہے کونسل کا رول صرف قوانین اور قانون سازی کا جائزہ لینا ہے۔ وزارت مذہبی امور اور دیگر سرکاری ادارے اس کے پاس سوالات بھیجتے رہتے ہیں اور یوں اسے دار لافتاہ کی حیثیت دے دی گئی ہے۔

اسلامی نظریاتی کونسل نے 1996ء میں اپنی فائنل رپورٹ جمع کرائی تھی، جس میں اس نے 1726ء سے لے کر 1990ء تک بننے والے قوانین کا جائزہ لیا تھا۔ اس کے بعد 2008ء میں جمع کرائے جانے والی رپورٹ میں پچانوے فی صد مروج قوانین کو اسلامی قرار دیا گیا تھا، باقی میں ترامیم اور نظر ثانی کی تجاویز پیش کی گئی تھیں۔ قوانین کا جائزہ لینے کے دو طریقے ہوتے ہیں، ایک تو دیکھا جائے کہ کون سے قوانین ہیں جو عہد حاضر سے مطابقت نہ رکھنے کی وجہ سے قابل قبول نہیں ہیں، او ر دوسرے جو مطابقت رکھتے ہیں انہیں نافذ کرایا جائے۔جہاں تک فقہ کا تعلق ہے تو ہمارے مذہبی گروہ قوانین کے ناقابل قبول ہونے کے اصول کو نہیں مانتے۔ وہ فقہ ہی کو شریعت مانتے ہیں کیونکہ یہ تشریح  امام حضرات نے کی ہے اس لئے کوئی اسے تبدیل نہیں کر سکتا۔

اسلامی نظریاتی کونسل کی تجاویز کو کبھی پارلیمنٹ میں ڈسکس نہیں کیا گیا کیونکہ علما پارلیمنٹ کو شریعت کو قانونی شکل دینے والی اتھارٹی تسلیم نہیں کرتے، وہ صرف اپنی تجاویز پر عملدرامد چاہتے ہیں۔ حکومت بھی ان تجاویز کو پارلیمنٹ میں لے جانے کا رسک نہیں لینا چاہتی کیونکہ ان تجاویز پر کچھ حلقوں کی جانب سے تنقید ہو سکتی ہے اور یہ تنقید مذہبی گروپس کو ناراض کر سکتی ہے۔ ضیا الحق کے دور میں قائم کی جانے والی وفاقی شریعت عدالت کا کردار بھی وہی ہے جو اسلامی نظریاتی کونسل کا ہے۔

اس وقت اہم ترین مسئلہ یہ ہے کہ انتہا پسندی کی روک تھام اور اعتدال پسندی کے حق میں سنجیدہ سیاسی عزم و ارادہ نظر نہیں آتا۔ علامہ اقبال اجتہاد کی تلقین کرتے ہوئے رخصت ہو گئے لیکن آج کوئی اسلامی قانون میں اجتہاد کی بات نہیں کرتا۔ اسلامک ماڈرن ازم ایک مکتب فکر کی حیثیت سے پاکستان میں کوئی relevanceنہیں رکھتا۔ اب چوائس ماڈریٹس اورانتہا پسندوں کے درمیان نہیں ہے۔ اب یہ اسلامسٹس (جس میں ساری مذہبی جماعتیں شامل ہیں) اور سیکولرسٹس کے درمیان ہے۔ (اس مضمون کی تیاری میں اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق سربراہ جناب ڈاکٹر خالد مسعود کے 2014ء میں دی نیوز سنڈے میں شائع ہونے والے انٹرویو سے بھی مدد لی گئی۔ یہ انٹرویو وقار گیلانی نے کیا تھا)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).