تصویریں سچ بولتی ہیں


تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو کہ اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے جو تصویر جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب کے دوران دکھائی وہ غلط تصویر تھی، وہ ہندوستان کے زیر قبضہ کشمیر کے بچے کی نہیں جو قابض فوجیوں کی ظالم چھرے والی بندوقوں کا نشانہ بنا بلکہ یہ ایک فلسطینی لڑکے کی تصویر ہے جو اسرائیلی بمباری کا شکار ہوا تھا۔ ہمارے چوک چوراہوں پر یہ تصویر لگی ہے جس پر لکھا ہے کہ یہ کشمیر کی کہانی ہے۔ یہ تصویر ہمارے ہاں باقاعدہ چندہ مہم کے لئے استعمال ہوتی رہی ہے۔ اس تصویر والے بینر کے نیچے جید علماء اور مشائخ نے ہمارے ایمان اور جذبہ شہادت کو مہمیز کیا ہے، تم کیسے کہہ سکتے ہو کہ یہ تصویر غلط ہے۔ اس تصویر کو ہمارے اکلوتے صادق اور امین راہنما سراج الحق اور ان کی جماعت نے جس صداقت اور ایمانداری سے لوگوں کو کراچی سے چترال تک دکھایا ہے، کیا وہ سب غلط ہے؟ نہیں، نہیں، تم سب غلط ہو۔ یہ تصویر صحیح ہے کیونکہ ہمارے ملک کے بیس کروڑ لوگ اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ کشمیری بچے کی تصویر ہے جس پر ہندوستان نے ظلم ڈھایا ہے۔ ہمارے میڈیا نے کبھی نشاندہی نہیں کی کہ یہ تصویر کسی کشمیری بچے کی نہیں۔ ہاں چند ایک بھارت اور اسرائیل کے ایجنٹ گوگل سے ڈھونڈ کر سوشل میڈیا پر ایسے حقائق کو جھٹلانے کی ناکام کوشش کرتے رہتے ہیں مگر ہم تو گوگل کی بات بھی اس وقت سچ مانتے ہیں جب وہ ہماری مانتا ہے۔ ملیحہ لودھی نے اس تصویر کو دکھا کر اپنی قوم کے اجتماعی مزاج کی ترجمانی کی ہے تو اس میں غلط کیا ہے۔

ہمارے ہاں برما سے روہینگیا مسلمانوں پر ظلم و ستم کی ایسی ایسی تصوریں آتی ہیں جن کے بارے میں بدخواہ کہتے ہیں کہ یہ تصویریں افریقہ کے خانہ جنگی کے دوران لی گئی ہیں۔ یہ تصاویر بعض اوقات ہمارے بے باک اور نڈر صحافی اپنے نام سے بھی لگاتے ہیں جو کبھی پشاور سے متصل خیبر ایجنسی تو نہیں جا سکتے مگر اپنی جان پر کھیل کر برما کے رخائین صوبے میں پہنچ جاتے ہیں اور ایسی ایسی تصوریں بناتے ہیں کہ زمانہ انگشت بدنداں رہ جاتا ہے۔ ایسی کچھ تصاویر میں اپنے زرد لباس میں ملبوس بدھ بھکشو روہینگیا مسلمانوں کی لاشیں بے دردی سے جلاتے نظر آتے ہیں۔ ناقدین لاشیں جلانے کی بے دردی کو محسوس نہیں کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ کسی زلزلے میں مرنے والوں کی اجتماعی آخری رسومات ہیں جو مذہبی طور منائی جا رہی ہیں۔ وہ اپنے دلیل میں کہتے ہیں کہ جنگ اور فساد کے دوران اس قدر سکون اور تحمل سے لاشیں نہیں جلائی جاتیں لیکن وہ نہیں جانتے کہ یہ بدھ مت کے ماننے والے کتنے چالاک لوگ ہوتے ہیں جو مسلمانوں کی لاشیں جلا کر یہ تاثر دیتے ہیں کہ یہ تو ان کے اپنے لوگوں کی لاشیں ہیں۔ ان تمام تصویروں کو تم لاکھ غلط کہو مگر ہم ان کو سچ مانتے ہیں اور ہمارے بیس کروڑ لوگ ان کو سچ مانتے ہیں۔ ہمارے لوگ ان تصویروں کو دیکھ کر نہ صرف خون کے انسو روتے ہیں بلکہ دل کھول کر چندہ بھی دیتے ہیں جو ہم اپنے روہینگیا کے مسلمان بھائیوں کی بذریعہ جہاد امداد پر خرچ کریں گے۔

یوں تو ہمارے ہاں تصویر کشی بطور گناہ کفریہ فعل ہے جب تک کہ اس میں کوئی خیر کا پہلو نہیں ہو۔ اس کفریہ فعل میں ہم نے خیر کا پہلو یوں نکالا ہے کہ کبھی تصویر میں شکلیں بدل دیتے ہیں تو کبھی عنوان۔ ہم اپنے مخالفین اور سیاسی گناہ گاروں کی سیاہ کاریاں عیاں کرنے کے لئے تصویروں میں ان کے ہاتھ میں کبھی آب آتش رنگ کا گلاس تھما دیتے ہیں تو کبھی کسی گل بدن کا ہاتھ۔ یہ سب تصویریں بھی سچی ہوتی ہیں کیونکہ جن کی تصویریں ہوتی ہیں ان کی تردید جھوٹی ہوتی ہے اور جو اصلی تصویریں ڈھونڈ کر لاتے ہیں ان کی تحقیق ناقابل اعتبار ہوتی ہے۔

تصویر کھنچوانا ہمارے ہاں پچھلے چند برس تک گناہ کبیرہ تصور ہوتا تھا۔ ہم تو تصویروں والے کرنسی کے نوٹ کے بھی مخالف تھے کہ مبادا جیب میں رکھنے سے ہماری نماز ہی باطل نہ ہو جائے۔ بھٹو کے شناختی کارڈ پر تصویر لگانے کی کفریہ سازش کی ہم نے بھرپور مخالفت کی اور اس حد تک کامیاب بھی ہوئے کہ ہماری خواتین تصویر لگانے کی شرط سے مستثنیٰ ہو گئیں۔ تصویر صرف بغرض حج و عمرہ پاسپورٹ پر جائز تھی کیونکہ سعودی حکمران اس کے بغیر اپنے مملکت سعودیہ میں داخلے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ برا ہو میڈیا کے دن رات چلنے والے دھندے کا اب علمائے حق و علمائے سو سب ہی نہ صرف دن رات ٹی وی چینلز پر نظر آتے ہیں بلکہ وہاں بیٹھ کر کچھ علماء خواتین کا زیر جامہ اتارنے کی اپنی پوشیدہ خواہش کی برملا اظہار فرماتے ہوئے بھی شرماتے نہیں تو کچھ مفتی اپنی دستار کسی دلربا کے سر پر رکھ کر پھر اس سر کو ہی اتار نے کا سامان بھی کرتے ہیں۔

ہمیں تو نہ صرف مختصر لباس نظر آ گیا بلکہ اس کی سلوٹیں اور جسم پر لگے نشان بھی نظر آگئے مگر ان کو ماہرہ خان کی اس ہندو لڑکے کے ساتھ سگریٹ کے دھوئیں میں ہماری غیرت و ناموس کے مرغولے بناتی وہ تصویریں نظر نہ آئیں جو ہمارے سینوں کو چیر گئی ہیں۔ ہم توجان گئے ہیں کہ کس نے ایسی تصویریں بنا کر ہماری عزت و ناموس کا سودا کیا ہے۔ ہمارے انوسٹیگیٹو (یہ لفظ انوسٹیگیٹیو نہیں ہے) صحافی بہت جلد اس راز سے پردہ اٹھائیں گے کہ ہمیشہ ہماری برائی سوچنے والے امریکی سی آئی اے اوربھارتی خفیہ ایجنسی را نے کیسے کراچی کی اس غریب لڑکی ماہرہ کے ہوائی جہاز کے ٹکٹ اور ہوٹل کا خرچہ اٹھایا۔ بہت جلد اس راز سے بھی پردہ اٹھنے والا ہے کہ ایسے ہوٹل کا بندوبست کیوں کیا گیا جہاں کمرے کے اندر سگریٹ نوشی کی اجازت نہیں تھی اور ماہرہ خان کو کمرے کے باہر اس لابی میں آکر سگریٹ پینا پڑا جہاں پہلے سے موجود سی آئی اے کا ریمنڈ ڈیوس موجود تھا جس نے پاکستان میں اپنی بے عزتی کا بدلہ ان کی ایسی تصویریں بنا کر لے لیا۔ اس سے بھی پہلے ہم نے اپنے تصویر سازی کے ماہرین سے کہا ہے کہ ماہرہ کی ایسی تصویریں بنا دی جائیں کہ ان کا جسم عبائے میں ڈھکا ہوا ہو اور ان کے منہ کو سگریٹ کے بجائے مسواک سے آراستہ کیا جائے تاکہ ہم اپنے دشمنوں کی چال ان پر ہی الٹ کر اپنے دل کو ٹھنڈک پہنچا سکیں۔

اقوام متحدہ میں پہلے ہمارے وزیر اعظم کی بے باک اور جراتمندانہ تقریر سے مودی اور اس کے حواریوں کے ہوش اڑ گئے تو ہندوستانی میڈیا نے یہ کہہ کر اپنے دل کو تسلی دی کہ خاقان عباسی کی تو اس کے گھر میں کوئی نہیں سنتا کیونکہ اس کو خود معلوم نہیں کہ یہ کب تک وزیر اعظم ہے۔ ارے بھئی یہ ہمارے گھر کا معاملہ ہے اس میں تم کیوں ٹانگ اڑاتے ہو۔ اگر ہم ہر ہفتے بھی ایک وزیر اعظم بدلیں تو ہمارے ملک میں ٹیلنٹ کی کمی تھوڑی ہے۔

ابھی وزیر اعظم خاقان عباسی کی تقریر کی گھن گرج اقوام متحدہ کی عمارت کی فضاؤں میں تھی کہ ہماری مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے اپنی شعلہ بیانی کے وہ جوہر دکھائے کہ ہندوستان سے امریکہ تک سب کے پاؤں کے نیچے سے زمین ہی نکل گئی۔ کچھ نہ بن پڑا تو کہہ دیا کہ ان کی اقوام متحدہ کے ذریعے دنیا کی انکھیں کھولنے کے لئے دکھائی گئی تصویر ہندوستانی مقبوضہ کشمیر کی نہیں بلکہ فلسطین کی ہے۔ ہماری مندوب کی تقریر کا جواب نہ بن پڑا تو کہہ دیا کہ اس نے کشمیر پر اقوام متحدہ کی غلط قرار داد کا حوالہ دیا ہے۔ ہم تو کہتے ہیں کہ اقوام متحدہ کی قرار داد کو تو کشمیر میں لڑنے والے مجاہدین مانتے ہی نہیں تو کیا فرق پڑتا ہے کہ کس قرار داد کی بات کی جارہی ہے۔ ان کو نہیں معلوم کہ ہم نے فلسطین کی تصویر دکھا کر ان سے سویٹزرلینڈ کے شہر جینوا میں ان کے جعلی مظاہرین کی تصویروں کا کیسے بدلہ لیا ہے۔ ان کے لئے یہ تصویریں لاکھ جھوٹی ہوں مگر ہمارے لوگوں کے لئے یہی تصویریں سچ بولتی ہیں۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan