حاشر ارشاد کے نام۔۔۔ محبت نامہ


محترمی حاشر ارشاد ! میں آپ سے کبھی نہیں ملا لیکن پھر بھی یوں لگتا ہے کہ جیسے کئی بار مل چکا ہوں۔ آپ کا ہر کالم انسانیت کے نام ایک محبت نامہ یوتا ہے۔ میں جب بھی انہیں پڑھتا ہوں آپ سے ایک ذہنی تعلق محسوس کرتا ہوں اور یہ تعلق وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔ یوں لگتا ہے آپ ’ہم سب‘ کے کئی دیگر ادیبوں کی طرح میرے قبیلے کے فرد ہیں اور آپ سے سنجیدہ مکالمہ ممکن ہے۔ ایسا مکالمہ صرف ان لوگوں کے درمیان ممکن ہوتا ہے جن کا آپس میں روشن خیالی اور انسان دوستی کا رشتہ ہو۔ آپ کے تین کالموں ’سید عطا اللہ شاہ بخاری سے علامہ حسین رضوی تک‘ نے مجھے inspire کیا کہ میں آپ کو ایک خط لکھوں۔ اس خط کا کریڈٹ آپ کی تخلیقات کو جاتا ہے۔ میری رائے میں You are a wise young man.۔ آپ کے کالم پڑھ کر میرے ذہن میں جو خیالات آئے ہیں وہ میں آپ تک پہنچانا چاہتا ہوں۔ تھوڑی سی FREE ASSOCIATION کے لیے تیار ہو جائیں۔

محترمی حاشر ارشاد ! میں ایک طویل عرصے سے کینیڈا میں مقیم ہوں ۔ بطورِ ماہرِ نفسیات اپنے کلینک میں کام کرتا ہوں اور عالمی ادب کا مطالعہ کرتا ہوں۔ پچھلی کئی دہائیوں سے میرا یہ تاثر ہے کہ کئی اور ممالک کی طرح پاکستان میں بھی ایک خوف کی فضا پیدا ہو گئی ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔

کیا تم نے کبھی اپنا مقدر نہیں دیکھا

ہر گھر میں جو بستا ہے یہاں ڈر نہیں دیکھا

 ایسی فضا میں کئی مسائل اور موضوعات پر تبادلہِ خیال کرنا ناممکن نہیں تو دشوار ضرور ہو گیا ہے۔ میری نگاہ میں مکالمہ ہی وہ خصوصیت ہے جو جمہوری اور سیکولر معاشروں کو آمرانہ اور شدت پسندانہ معاشروں سے متمیز کرتی ہے۔ جمہوری معاشروں میں مکالمہ زندہ ہوتا ہے۔ گھروں میں بھی‘ سکولوں میں بھی‘ دفتروں میں بھی اور حکومتوں میں بھی۔ جہاں ڈائلاگ کمزور ہونے لگتا ہے وہاں خود کلامی  پروان چڑھنے لگتی ہے۔ یہی یک طرفہ تلقین سیاست میں آمریت اور شہنشاہیت کی اور مذہب میں فتووں کی راہ ہموار کرتی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ جمہوریت میں اختلاف رائے رکھنے والوں کا احترام کیا جاتا ہے انہیں دشمن نہیں سمجھا جاتا۔

جمہوری فضا قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ بچوں کو گھروں اور سکولوں میں سوال کرنے کی اور روایات کو چیلنج کرنے کی نہ صرف اجازت دی جائے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ جمہوری کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ جانتے ہیں کہ تحقیق اسی وقت کامیاب ہوتی ہے جب طلبہ و طالبات بزرگوں کی پرانی روایات کو چیلنج کرتے ہیں اور نئی تحقیق کرنے کے بعد نئے نتائج اخذ کرتے ہیں جن پر ان کے اساتذہ فخر کرتے ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں والدین بچوں سے اور اساتذہ شاگردوں سے سیکھتے ہیں۔ مغرب کی بعض یونیورسٹیوں میں بعض مشرق کے طالب علموں کو اس لیے داخلہ نہیں ملتا کیونکہ ان کے مشرقی اساتذہ نے ان کے ریفرنس لیٹر میں لکھا ہوتا ہے THE MOST OBEDIENT STUDENT مغربی پروفیسر ایسے طالب علموں کو داخلہ نہیں دیتے۔

ہمارے بچوں کی سوچوں پہ کب سے پہرے ہیں۔ ۔ ۔

کہاں سے آئے گا آزاد نوجواں کوئی

جمہوری فضا قائم کرنے کی کوششوں کو جو عوامل روکتے ہیں ان میں سے دو کا ذکر کرنا چاہوں گا۔

1۔ وہ مذہبی رہنما جو منطق کی بجائے جذبات کو بھڑکاتے ہیں۔ ایسے رہنمائوں کو ایسے شاگردوں اور مریدوں کی ضرورت ہوتی ہے جو ان سے اتنی عقیدت رکھیں کہ ان کی ہر بات پر عمل کرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ میں ایسی شخصیت کو CULTISH PERSONALITY کہتا ہوں۔ ایسے رہنمائوں کی شخصیت میں ایک خاص قسم کی مقناطیسیت ہوتی ہے ایک خاص قسم کا جادو ہوتا ہے وہ اپنی گفتگو سے‘اپنی تقریر سے‘ اپنے خطبے سے اپنے شاگردوں‘چیلوں ‘مریدوں کو HYPNOTIZE کر لیتے ہیں اور ان سے بہت سے غیر اخلاقی اور غیر قانونی کام کروا لیتے ہیں جن میں بعض دفعہ تشدد بھی شامل ہوتا ہے۔ ان کے پرستاروں میں وہ لوگ بھی شامل ہوتے ہیں جس سے وہ کبھی ملے بھی نہیں ہوتے۔ بعض دفعہ انہوں نے ان کی تقریریں ریڈیوٹی وی‘ یو ٹیوب اور انٹرنیٹ پر سنی ہوتی ہیں۔

2۔ ایسے نظریے جو تشدد کو فروغ دیتے ہیں۔ مذہبی رہنما جانتے ہیں کہ اگر وہ اپنے حکم کی تائید میں کوئی مذہبی روایت یا آیت پیش کر دیں جو اکثر ایسی زبان میں ہوتی ہے جسے عوام نہیں سمجھتے تو ان کی بات میں وزن پیدا ہوگا اور ان کے مرید ان پر سوال نہیں کر سکیں گے۔

محترمی حاشر ارشاد ! آپ نے اپنے کالموں میں بڑی خوبصورتی سے تین اہم چیزوں کو ملا کر ایسی تکون بنائی ہے جس میں رہ کر نظریے کے نام پر قتل آسان ہو جاتا ہے

شعلہ بیان مقرر۔۔۔ سادہ لوح شہری۔۔۔ شدت پسند نظریہ۔ آپ نے تین مثالیں پیش کی ہیں۔

پہلی مثال۔ 1929 میں سید عطا اللہ شاہ بخاری کی شعلہ بیانی ۔۔۔ علم الدین کی سادہ لوحی۔۔۔ اور دشمنانِ اسلام کا نظریہ

۔۔۔ نتیجہ۔۔۔ راجپال کا 6 اپریل 1929 کو قتل۔۔۔ علم الدین کا 31 اکتوبر کو پھانسی دیے جانا

دوسری مثال۔ 2011 میں قاری حنیف قریشی کی شعلہ بیانی۔۔۔ ممتاز قادری کی سادہ لوحی۔۔۔ 295  سی کی بجائے فوری اشتعال کا نظریہ۔

۔ نتیجہ ۔ 4 جنوری 2011 کو سلمان تاثیر کا قتل۔۔۔ 29 فروری 2016ء کو قادری کو پھانسی دیے جانا

تیسری مثال۔ 2017 میں علامہ خادم حسین رضوی کی شعلہ بیانی۔۔۔ اکرام اللہ ماچھی کی سادہ لوحی۔ ۔ نور بشر کی مذہبی بحث۔

۔۔ نتیجہ ۔۔۔ 22 اگست 2017ء کو ولی الرحمان اور ساتھی کا قتل۔۔۔ اس کے بعد گہری چپ۔۔۔

حاشر ارشاد صاحب۔ آپ نے جس خوبصورتی سے ان واقعات اور حادثات کو ایک لڑی میں پرو کر رقم کیا ہے اس پر میں آپ کو مبارکباد پیش کرنا چاہتا ہوں۔ آپ نے ایک نہایت اہم اور سنجیدہ مسائلے کو بڑی دیانتداری سے پیش کیا ہے جس سے آپ کی INTELLECTUAL HONESTY کا پتہ چلتا ہے۔ آپ نے ایک سماجی سائنسدان کی طرح اپنی تحقیق کے نتائج کو قارئین کے سامنے رکھ دیا ہے ۔ اس کے بعد مسئلے کی نشاندہی بھی کی ہے اور دعوتِ فکر بھی دی ہے۔ اسی دعوتِ فکر نے مجھے یہ خط لکھنے پر مجبور کیا ہے۔

اب میں آپ کے بیان کیے ہوئے سنجیدہ مسئلے کا ایک وسیع کینوس سے رشتہ جوڑنا چاہتا ہوں۔

 میں ایک نفسیات کے طالب علم اور ایک امن پسند  انسان دوست ہونے کے ناطے کئی دہائیوں سے سوچ رہا ہوں کہ انسان دوسرے انسانوں کی جانیں کیوں لیتے ہیں۔ انہیں کیوں قتل کرتے ہیں اور پھر اس پر فخر کیوں کرتے ہیں۔ اس پر نادم ہونے کی بجائے اس کا ایوارڈ اور ریوارڈ بھی چاہتے ہیں۔ میں اپنے تجربے‘ مشاہدے ‘مطالعے اور تجزیے سے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جب IDEAS AND IDEALS آہستہ آہستہ IDEOLOGIES بن جاتے ہیں تو وہ انسانیت کے لیے خطرہ بن جاتے ہیں کیونکہ وہ اتنے طاقتور ہو جاتے ہیں کہ وہ تشدد کو نہ صرف جواز دیتے ہیں بلکہ اسے GLORIFY بھی کرتے ہیں۔ میں نے جب اپنی دو کتابوں

PROPHETS OF VIOLENCE /PROPHETS OF PEACE اور

 FROM HOLY WAR TO GLOBAL PEACE

 کے لیے بیسویں صدی کی سیاسی اور مذہبی تحریکوں کے رہنمائوں کی سوانح عمریوں کا مطالعہ کیا تو میں اس نتیجے پر پہنچا کہ بیسویں صدی میں

NATIONALISM کے سیاسی نظریے

COMMUNISM کے معاشی نظریے اور

کئی سیاسی پارٹیوں کے مذہبی نظریوں نے تشدد کو فروغ دیا ہے۔ ان نظریوں کے نام پر نجانے کتنے معصوم قتل ہو چکے ہیں اور نجانے کتنے ابھی ہونے والے ہیں۔

نیشل ازم کے نام پر ملک فوجی تیار کرتے ہیں‘ کمیونزم کے نام پر کامریڈ تیار ہوتے ہیں اور مذہب کے نام پر غازی‘ شہید اور مجاہد۔ دلچسپی اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ان میں سے بہت سے تشدد کے راستے سے امن کی منزل تک پہنچنا چاہتے ہیں۔

ہم سب جانتے ہیں کہ ہر مذہب میں ایک بنیاد پرست روایت ہوتی ہے جس میں مولوی‘ پنڈت اور پادری شامل ہوتے ہیں جو گناہ و ثواب کے جھگڑ وں میں الجھا کر نہ صرف عوام کو اگلی دنیا میں جہنم رسید کرتے ہیں بلکہ بعض اس دنیا میں بھی تشدد کی تبلیغ کرتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں ہر مذہب میں ایک امن پسند روایت بھی ہوتی ہے جس کی پیروی کرنے والے سنت‘ سادھو اور صوفی کہلاتے ہیں یہ امن اور آشتی کا پیغام دیتے ہیں اور گناہگاروں کو بھی گلے لگاتے ہیں۔ اگر ہم پچھلی دو صدیوں کا مطالعہ کریں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ ساری دنیا میں تین گروہ پائے جاتے ہیں

روایتی مذہب کو ماننے والے

 روحانی روایت کو ماننے والے

سائنسی روایت کو ماننے والے

پچھلے دو صدیوں میں دنیا کے بہت سے ممالک اور معاشروں میں روحانی اور سائنسی روایات کے پیروکاروں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے لوگ بنیاد پرستی اور تشدد کے خلاف ہیں۔ یہ لوگ انسان دوست ہیں اور انسانی حقوق کا احترام کرتے ہیں۔

میں پرامید ہوں کہ جوں جوں امن پسندی‘ روشن خیالی اور انسان دوستی کی روایت زیادہ مقبول ہوگی پاکستان میں تشدد پسندی کی روایت کی شدت میں کمی آئی گی۔ اسی لیے آپ جیسے لکھاریوں اور ’ہم سب‘ جیسے رسالوں کے مدیروں کے شانوں پر ذمہ داری کا بھاری بوجھ ہے تا کہ وہ مکالمے کی فضا قائم رکھیں اور جمہوریت کے لیے راہ ہموار کرتے رہیں۔ حاشر ارشاد صاحب ! آپ انسانیت کے نام محبت نامے لکھتے رہیں۔ میں یہ خط اپنے ایک شعر پر ختم کرنا چاہتا ہوں

نہیں ایسی کوئی بھی رات جس کا

کہیں سورج کوئی نہ منتظر ہو

مجھے یہ خط لکھنے پر INSPIRE کرنے کا شکریہ۔ آپ کے محبت نامے کا انتظار رہے گا۔

آپ کا مداح

خالد سہیل ستمبر 2017

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail