پاکستان میں فکری اور نظریاتی کشمکش کا نیا دور


\"arshad1970 کی دہائی میں دائیں اور بائیں بازو کی نظریاتی اور سیاسی کشمکش کے بعد گذشتہ کچھ عرصہ سے پاکستان ایک نئے فکری مباحثہ یا نظریاتی کشمکش کے دور میں داخل ہوتا نظر آ رہا ہے۔ یہ سوشلسٹ بائیں بازو اورقدامت پسند دائیں بازو کے درمیان زور آزمائی نہیں اور نہ ہی اسے دائیں اور بائیں بازو کی روایتی نظریاتی یا سیاسی محاذ آرائی کہا جا سکتا ہے۔ یہ لڑائی جدیدیت، معاشی ترقی، سیاسی، جمہوری اور ریاستی اداروں کے استحکام کے لئے اور مذہبی جنونیت، قدامت پرست اور پسماندہ فکر اور نظریات کے مابین ہے۔

1970 کی نظریاتی اور سیاسی کشمکش میں دائیں اور بائیں بازو کی تفریق اور تقسیم نمایاں تھی۔ پیپلز پارٹی اور نیشنل عوامی پارٹی بائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھنے والی سیاسی جماعتیں تصور کی جاتی تھیں جبکہ مسلم لیگ کے مختلف دھڑے، جماعت اسلامی، اور دیگر چھوٹی بڑی مذہبی اور سیاسی جماعتیں دائیں بازو کی جماعتیں کہلاتی تھیں۔ اس نظریاتی اور سیاسی کشمکش کا نقطہ عروج پنجاب، سندھ، کے پی کے اور بلوچستان میں دائیں بازو کی مذہبی اور سیاسی جماعتوں کی 1970 کےعام انتخابات میں بد ترین شکست، اور پی پی پی اور این اے پی کی کامیابی تھی۔

آج کی فکری یا نظریاتی کشمکش کی نمایاں جھلکیاں مذہبی جماعتوں کے احتجاج، الیکٹرونک میڈیا کے مباحث، سوشل میڈیا، نیٹ اخبارات کے علاوہ پاکستان کے اردو اور انگریزی اخبارات میں شائع  ہونے والی خبروں، تبصروں اور کالموں میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے بعض راہنما بھی اس مباحثہ کا محتاط انداز میں حصہ بننے پر مجبور ہیں۔ جبکہ مذہبی راہنما اور مذہبی سیاسی جماعتیں ان مباحثوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔

پاکستان میں جدت پسند اورقدامت پرست قوتوں کے درمیان فکری یا نظریاتی کشمکش شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ ملک جدید اور قدیم خیالات کے درمیان معرکہ آرائی کا میدان بن رہا ہے۔   قانون برائے تحفظ نسواں اور ممتازقادری کی پھانسی نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ مذہبی جماعتیں خواتین کے تحفظ کے قانون اور قادری کی پھانسی کے خلاف کھل کر میدان میں نکل آئی ہیں۔ ان کے نزدیک ملک کے منتخب ایوانوں، آئین، قانون اور اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کی کوئی اہمیت ، احترام یا  حثیت نہیں ہے۔ بعض لوگوں کی فہم کے مطابق مذہبی جنونیت ملک کی سماجی، ثقافتی اور سیاسی زندگی پرغلبہ حاصل کر نے کی منزلیں تیزی سے طے کر رہی ہے۔

بعض دانشوراسے ذہنی طور پر تقسیم شدہ قوم میں روز افزوں فکری اور نظریاتی تنزل، انارکی اور خلفشار سے تعبیر کرتے ہیں۔ اسے عوام میں پھلتے پھولتے مذہبی، سماجی، ثقافتی اور سیاسی انتشار، بے یقینی اور بے چینی کا ذمہ دار ٹھہرایا جا تا ہے۔ جمہوری آزادیوں اور الیکٹرانک میڈیا نے اس کشمکش کو گھر گھر بحث کا موضوع بنا رکھا ہے۔ اس فکری اختلاف اور محاذ آرآئی کے نتیجہ میں ہونے والے مباحثوں کے معیار پر کئی سوال اٹھائے جا سکتے ہیں مگر اس کی تاریخی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔

دہشت گردی کے خلاف ضرب عضب اور مذہبی شدت پسندی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان کے بعد مذہبی شدت پسند قوتوں کو پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ جبکہ ان کے حامی انتہا پسند مذہبی اور سیاسی حلقوں کو شدید جھٹکے کے بعد مصلحت کوشی سے کام لینا پڑا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف بھرپور فوجی ایکشن کے نتیجہ میں شدت پسند مذہبی نظریات کے حامی عناصر حکمت عملی بدل کر سیاسی، مذہبی، صحافتی اور ثقافتی محاذوں پر سر گرم نظر آتے ہیں۔

پنجاب اسمبلی سے قانون تحفظ نسواں کی متفقہ منظوری قدامت پرست مذہبی اور پسماندہ ثقافتی روایات کے نمائندہ عناصر کے لئے ایک دھچکے سے کم نہ تھی۔ پنجاب اسمبلی میں کسی سیاسی جماعت نے اس قانون کے خلاف ووٹ نیہں دیا۔ نام نہاد مفتیوں نے اس قانون کو اسلامی شریعت کے خلاف جنگ سے تعبیر کرتے ہوئے اس کے نفاذ کو چیلنج کر دیا۔ ایک مذہبی جماعت جے یو آئی کے راہنما مولانا فضل الرحمان نے خواتین کے تحفظ  کو مغربی ایجنڈا کا حصہ قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کر دیا۔ جماعت اسلامی اور تقریباً سبھی مذہبی جماعتیں عورتوں کے تحفظ کے قانون کی مخالفت میں پیش پیش ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف کا آسکر ایوارڈ یافتہ شرمین چنائے کو وزیر اعظم ہاؤس میں دعوت دینا اسلامی قدامت پرستوں کو شدید ناگوار گزرا اور ان حلقوں کی جانب سے اس پر حکومت اور وزیر اعظم پر لعن طعن کے نشتر چلائے جا رہے ہیں ۔

سلمان تاثیر کے قاتل کی پھانسی کے خلاف ملک کی تقریباً تمام جھوٹی بڑی مذہبی جماعتوں نے یکجہتی کا مظاہرہ کیا اور قاتل کے جنازے پر طاقت کا بھر پور مظاہرہ کیا اور ملک کے مخلتف شہروں میں احتجاجی مظاہرے کرنے کے علاوہ بعض ٹی وی چینلوں کے عملے پر حملے کئے۔ مذہبی جماعتوں کے مظاہروں اوراحتجاج کو ماضی کے برعکس اسٹیبلشمنٹ کی حامی تصور کی جانے والی دائیں بازو کی کسی سیاسی جماعت کی حمایت حاصل نہ ہو سکی۔ مذہبی جماعتیں اس وقت میدان سیاست اور وفاقی اور صوبائی منتخب ایوانوں میں تنہا کھڑی نظر آئیں۔ مسلم لیگ کے تمام دھڑے، تحریک انصاف اور دائیں بازو کی کسی بھی چھوٹی بڑی جماعت نے جماعت اسلامی، جے یو آئی اور دیگر مذہبی جماعتوں کے مطالبات پر کان نہ دھرے۔ مذہبی جماعتوں کی مذہبی نعرہ بازی اور احتجاج کو بلا امتیاز دائیں اور بائیں بازو کی تقسیم کے، ملک کی تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے مسترد کر دیا۔ باخبر مبصرین کا کہنا ہے کہ تاریخ کے اس موڑ پر مذیبی جماعتیں ملک کے طاقتور حلقوں کی پشت پناہی سے بھی محروم ہو چکی ہیں۔ غیرت کے نام پر قتل کے خلاف مجوزہ قانون کی پارلیمنٹ سے متوقع منظوری بھی روایت پرست اور پسماندہ سوچ رکھنے والے مذہبی شدت پسندوں کےلئے ایک اور تاریخی صدمہ ثابت ہو گی۔

 1970 کی عوامی کامیابی کو 1977 کی فوجی بغاوت اور ذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی نے شکست میں بدل دیا۔ 1970 میں ترقی پسند اور سوشلسٹ رجحان کی کامیابی پاکستان کے استحصالی نظام، حکمران طبقوں اور مغربی سامراجی طاقتوں کے لئے چیلنج کی حثیت رکھتی تھی۔ ان سب کی مشترکہ کاوشیں اور سازشیں بالآخر عوامی قوتوں اور فکر کو شکست دینے میں کامیاب ہو گیئں۔

آج کی فکری اورنظریاتی کشمکش کا قومی منظرنامہ ایک تبدیل شدہ نقشہ پیش کررہا ہے۔ مذہبی سیاسی جماعتیں اپنی تمام تر قوت کے باوجود سیاسی تنہائی کا شکار ہیں۔ ان کی روایتی پشت پناہ دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں محتاط رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں اور یہ بات بھی قرین قیاس ہے کہ مذہبی جماعتیں ملک کے طاقتورحلقوں کی حمائت کھوتی جارہی ہیں۔ بین لاقوامی منظرنامہ خصوصا چین اور دیگر ہمسایہ ممالک سے بڑھتے ہوئے اقتصادی رشتے بھی مذہبی سیاست کی اہمیت کو کم کرتے معلوم ہوتے ہیں۔

ملک کی اقتصادی و معاشی ترقی، سیاسی و سماجی استحکام، چین اورہمسایہ ممالک سے بڑھتے ہوئے اقتصادی رشتوں کے اپنے تقاضے ہیں۔ یہ سب کچھ مذہبی جنونیت اور شدت پسندی کی موجودگی میں ممکن نظر نہیں آتا۔ ایسا کہنا شاید غلط نہ ہو کہ آج ملک کے طاقتور حلقے، دائیں بائیں بازو کی تفریق سے بالا تقریباً سب سیاسی جماعتیں مذہبی جنونیت سے نجات پانا چاہتی ہیں۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے عوام کی واضح اکثریت ایک ایسا  ملک دیکھنا چاہتی ہے جو دہشت گردی، مذہبی شدت پسندی سے پاک ہو جہاں انہیں امن، خوشحالی سے جینے کے مواقع فراہم کئے جائیں۔

افغان اور کشمیر جہاد اور ملک میں اسلامی نظام کے نام پر ضیا آمریت کے پروردہ بظاہر بہت طاقتور نظر آنے والے مذہبی عناصر اپنے عروج تک پہنچ کر زوال کی جانب رخت سفر باندھتے نظر آ رہے ہیں۔ آج کے حالات کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ آنے والے حالات مذہبی شدت پسندوں اور ان کے سیاسی حمایتوں کے لئے تنگ ہوتے نظر آرہے ہیں۔ قومی اور بین الاقوامی حالات کے پس منظرکو مد نظر رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو آج کی فکری اور نظریاتی کشمکش میں جدت پسند قوتوں کو شکست دینے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ جبکہ مذہبی شدت پسندی اور پسماندہ فکر کی کامیابی کے امکانات روز بروز کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments