برقع نہیں، بکینی چاہیے


اتوار کا دن، ہلکی ہلکی بارش، برلن کی سڑکوں پر صرف وہاں وہاں لوگ جہاں جہاں سے میراتھن دوڑنے والوں کو گزرنا تھا۔ باقی ہر طرف وہی ویرانی جو مغربی شہروں میں چھٹی کے دن ہوتی ہے۔ سوائے گلیوں میں لگے پوسٹرز کے جرمنی کے تاریخی انتخابات کے کہیں کوئی آثار نہیں۔ دل نے کہا کہ اس سے زیادہ ہنگامہ خیزی تو کراچی پریس کلب کے الیکشن میں ہوتی ہے۔

اس انتخاب میں تو فیصلہ ہونا تھا کہ جرمن اور یورپ کی ہی نہیں بلکہ امریکہ اور روس کو چھوڑ کر باقی آزاد دنیا کی رہنما کہلائی جانے والے اینگلا میرکل کے مستقبل کیا ہو گا۔الیکشن سے پہلے ہونے والے جائزوں کے مطابق اور برلن کے مقامی شہریوں سے گپ شپ کے بعد یہ تو طے تھا کہ میرکل چوتھی مرتبہ چانسلر ضرور بنیں گی۔ صرف دو سوال تھے کہ ان کی اکثریت کتنی ہوگی اور سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ تبدیلی کے نام پر بننے والی نئی پارٹی اے ایف ڈی کتنے ووٹ حاصل کرے گی۔
یہ نئی پارٹی کس طرح کی تبدیلی لانا چاہتی ہے اس کا اندازہ صرف ایک انتخابی پوسٹر سے لگایا جا سکتا ہے جو برلن میں جگہ جگہ لگایا گیا ہے۔ اس میں بکینی پہنے کچھ لڑکیوں کو دکھایا گیا ہے اور نعرہ ہے ‘برقع نہیں، بکینی چاہیے۔’
اس سے یاد آیا کہ کسی زمانے میں اسلامی جمعیت طلبہ یونیورسٹی میں یہ نعرہ لگوایا کرتی تھی کہ میوزک نہیں، کتاب چاہیے۔

جرمن انتخابات کے نتائج سامنے آئے تو مبصرین کے خدشات اور اندازے درست ثابت ہوئے۔ میرکل چوتھی مرتبہ چانسلر منتخب تو ہو گئیں لیکن ان کی جماعت کی کارکردگی ماضی کے مقابلے میں کافی بری رہی۔ اگر وہ اپنی مدت پوری کر لیتی ہیں تو جرمنی پر مسلسل حکومت کرنے کا نیا ریکارڈ قائم کریں گی۔ لیکن دوسرا ریکارڈ یہ کہ نصف صدی میں پہلی بار دائیں بازو کی سخت گیر پارٹی جس نے انتخابی مہم جرمنی آنے والے پناہ گزینوں کے خلاف نفرت کی بنیاد پر چلائی۔ جرمن پارلیمنٹ میں پہنچ گئی۔

اور یہ بات جرمنی ہی نہیں، پوری دنیا جانتی ہے کہ شام سے جانیں بچا کر نکلنے والے پناہ گزینوں کے لیے جرمنی کی سرحدیں کھولنے کی ذمہ دار میرکل ہی ہیں۔ایک ایسے وقت میں جب پورا یورپ اپنی سرحدیں بند کر رہا تھا، جب انگلینڈ، امریکہ اور آسٹریلیا جیسے بڑے اور امیر ملک پناہ گزینوں کو اپنی سرحدوں سے دور رکھنے کے لیے جیلیں بنا رہے تھے میرکل نے جرمن سرحدیں کھول دیں۔ اس کام کے لیے انھوں نے یورپ کے باقی رہنماؤں کی لعن طعن بھی سنی اور یہ تنبیہ بھی کہ جرمنی انتہاپسندوں کا گڑھ بن جائے گا لیکن جدید سیاست میں شاید پہلی مرتبہ کسی حکمران نے انسانیت کے نام پر سیاست کی۔

صرف 2015 میں لاکھوں پناہ گزینوں کو جرمنی آنے کی اجازت دی گئی ( یہ علیحدہ بات ہے کہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر جن پاکستانیوں اور افغانوں نے آنے کی کوشش کی انھیں کھڑے کھڑے واپس کر دیا گیا)۔ شام سے آنے والے پر مہاجر کو پناہ ملی۔ جو کام دنیا کے امیر ترین مسلمان بادشاہ نہ کر سکے وہ اینگلا میرکل نے تن تنہا کر دکھایا۔ پھر انتخابی مہم میں یہ بھی کہا کہ کچھ زیادہ احتیاط کرنا چاہیے تھی۔

اینگلا میرکل کو اپنی انسان دوستی کی سیاست کی قیمت اس انتخاب میں دینی پڑی اور جرمنوں کو برقعے سے ڈرانے والے پارلیمنٹ میں پہنچ گئے۔ وہ جرمنوں کی اور خاص طور پر نئے پناہ گزینوں کی مادرِ ملت تو بن گئیں لیکن اگلے چار سال ان کا امتحان ہے۔ میں نے میرکل کے حامیوں اور مخالفین سے بار بار پوچھا کہ ان کا چوتھی بار منتخب ہونا کیا معنی رکھتا ہے، کامیابی کا راز کیا ہے؟ سب نے یہی کہا کہ ٹرمپ جیسی نہیں ہے۔ بولنے سے پہلے سوچتی ہے اور جب بولتی ہے تو کم بولتی ہے۔ جب پوری دنیا تبدیلی تبدیلی چلاّ رہی ہے، میرکل نے معیشت کو سنبھالا اور جرمنی کو سبق دیا کہ اگر معاملات ٹھیک چل رہے ہیں تو تبدیلی کیوں؟

ماضی میں میرکل کے عملے میں کام کرنے والی ایک خاتون نے بتایا کہ ان کی کامیابی کا راز صبر و تحمل اور سٹیمنا میں ہے۔ پانچ گھنٹے تک اجلاس میں بیٹھیں گی، کچھ نہیں بولیں گی اور پھر کہیں گی کہ اچھا وہ جو شروع میں پوائنٹ تھا اس پر دوبارہ بات کرتے ہیں۔ اس عمر میں بھی رات کے دو بجے فون کر کے عملے میں کہیں گی، وہ جو صبح بات ہوئی تھی اس پر کچھ نوٹس بنا لیتے ہیں۔

ہو سکتا ہے کہ میرکل آئندہ چار برسوں میں اپنی گرتی ہوئی مقبولیت کو سنبھالا نہ دے سکیں لیکن ٹرمپ، پیوتن اور مودی جیسے چھاتی پھیلا کر حکمرانی کرنے والے سیاستدانوں کے دور میں میرکل نے ایک نیا اور اچھا اندازِ رہنمائی دکھایا ہے۔
ایک جرمن نے بتایا کہ میرکل شاید ان سب سے زیادہ بہادر ہے لیکن بڑھک باز نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).