ملا مجید، مسٹر زہری اور ہم سب    


 یہ کہانی ہوا کے رخ سے آشنا ایک ایسے ملا کی ہے جس نے بروقت ہوا کا رخ پہچان لیا-

یہ کہانی ایک ایسے مسٹر کی ہے جو رند کا رند بھی رہا اور جنت بھی پا لی-

یہ کہانی ایک ایسے مفتی کی بھی ہے جسے اپنے لادوا درد کے لئے چارہ گر کی تلاش ہے اور یہ کہانی ہم سب کی بھی ہے-

کہانی میں ملا کا کردار ادا کرنے والے عبدالمجید کا تعلق کوئٹہ سے جنوب مشرق میں صوبہ سندھ سے ملحق ضلع جعفرآباد کی تحصیل اوستہ محمد کے ایک متحرک تبلیغی گھرانے سے تھا جہاں بچوں کی مدارس دینیہ سے آشنائی اوائل عمری سے ہی ہو جاتی تھی۔ سو روایت کے عین مطابق اس کا مسکن بھی شہر کا معروف مدرسہ بنا۔ عبدالمجید کی سوچ میں تبدیلی کی پہلی لہر کمپیوٹر نے پیدا کی۔ ان دنوں کمپیوٹر نیا نیا آیا تھا اور اس کا حصول کسی خواب کی تعبیر کی مانند تھا۔ دوسروں کو ساتھ ملانے کاہنر اسے بخوبی آتا تھا سو اس نے ہم مکتب دوستوں کو ساتھ ملایا، مہتمم سے بات کی، مہتمم بھی شاید زمانے کے تیوروں سے آگاہ تھا سو اجازت مل گئی یو ں مسجد سے منسلک مدرسے کے ایک کمرے میں کمپیوٹر آ گیا۔

لیکن کمپیٹر چلائیں کیسے؟ اس سوال کا جواب ظفر زہری کی صورت میں ملا -یوں کہانی میں” مسٹر “کا ظہور ہوتا ہے

ظفر زہری، اوستہ محمد کا البیلا بانکا جوان، اوستہ محمد جیسے قدامت پسند شہر میں پینٹ شرٹ پہن کر چلنے والا، کلین شیو، لمبے بال، گفتگو میں انگریزی کی حد درجہ آمیزش، روایت شکن، باغیانہ روش، سلگتے سوال کرنے والا، ہر بات میں انگریزوں کی مثالیں دینے والا غرض مسٹر کی تمام علامات کا حامل اور اس پہ مستزاد ایسی اکیڈمی کا مالک جہاں انگلش کی تعلیم دی جاتی تھی -تو طے پایا کہ زہری سے بات کی جائے، اس سے بات کی گئی۔ وہ مان گیا اور یوں ملا اور مسٹر کا پہلا جوڑ بیٹھا –

وقت کا پہیہ گھومتا رہا، عبدالمجید نے سند لے لی اب وہ مفتی عبدالمجید کہلانے لگا۔ خوبصورت اور باعمل تو تھا لیکن عمامے اور سفید لباس میں اور زیادہ باوقار لگتا-

لیکن…..

اصل کہانی تو اب شروع ہوتی ہے…..

عبدالمجید کے خاندان نے طے کیا کہ مدرسہ بنایا جائے جس میں یتیم اور مسکین بچوں کو علاقے بھر سے ڈھونڈھ کر داخل کیا جائے۔ عبدالمجید اور اس کا بڑا بھائی مدرسے کے کرتا دھرتا ٹھہرے۔ ذرا سی تگ و دو کے بعد طلبا بھی اکھٹے کر لئے گئے-مدرسہ شروع ہو گیا۔ لیکن عبدالمجید مطمئن نہیں تھا۔ وہ اپنی نا آسودہ حسرتوں کی تکمیل چاہتا تھا، وہ اپنے طلبا کو وہ کچھ بھی دینا چاہتا تھا جو وہ خود چاہتے ہوے بھی نہ پا سکا-

سو اس نے طے کرلیا اور اس کی نظریں پھر” مسٹر ” پہ ٹک گئیں- اوستہ محمد کے خاک آلودہ شہر کی واحد تفریح گاہ وہ ہوٹل ہیں جہاں چائے کی پیالیوں پہ محفلیں سجتی ہیں۔ شاید ایسی ہی کسی محفل میں ملا نے مسٹر کی مدد چاہی۔ اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اپنے طلبا کو انگلش سکھانا چاہتا ہے اور اسے ظفر زہری کا وقت چاہئے –

ظفر کے لئے فیصلہ مشکل تھا۔ روزانہ وقت دینا، بچوں کو ابتدا سے پڑھانا، بدلے میں کچھ نہ ملنا سوائے اک دلی سکون کے، سوائے اس امید کے: کہ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی- ظفر نے سوچنے کے لئے وقت مانگا اور بالآخر مان گیا-

ظہر کے بعد کا وقت طے ہوا گو اس سے پہلے یہ وقت اس کے آرام کا تھا، اکیڈمی بھی تھی۔ حلقہ احباب بھی، لیکن کہانی کا “مسٹر” ڈٹ گیا، اپنے وعدے پر قائم رہا-

اللہ کا کرنا ایسا ہواکہ ظفر نے کمیشن کا امتحان پاس کیا اور اس کی تعیناتی بطور لیکچرار انگلش اوستہ محمد سے چالیس کلومیٹر دور ضلع جعفر آباد کے ضلعی ہیڈ کوارٹر ڈیرہ اللہ یار کے انٹر کالج میں ہو گئی- ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ظفر مولانا عبدالمجید سے معذرت کر لیتا لیکن پسپائی ظفر کی فطرت میں ہی نہیں تھی، سو وہ ثابت قدم رہا۔ روزانہ علی الصبح لوکل ویگن پر چالیس کلومیٹر جانا (نصیرآباد ڈویژن اور جیکب آباد کی لوکل ویگنوں میں بیٹھنا دل گردے والوں کا ہی کام ہے)، طلبا سے سر کھپانا، پھر واپس آنا، مدرسے کے بچوں کو پڑھانا، شام کو اکیڈمی سنبھالنا۔۔۔ لیکن وہ ڈٹا رہا-

سو وہ دن اور آج کا دن مدرسہ موجود، مفتی عبدالمجید موجود، ظفر زہری موجود، لیکن تبدیلی یہ آئی کہ جو حفاظ اس مدرسے سے نکلے اور نکل رہے ہیں، وہ ملا بھی ہیں اور مسٹر بھی، قرآن کے حافظ تو ہیں ہی البتہ انگریزی پڑھنے، لکھنے اور کسی درجہ بولنے کے بھی ماہر، البتہ مفتی عبدالمجید پورے “ملا” اور زہری پورا “مسٹر” ہے-

ٹھہریے…

کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی….

اس کہانی کا دوسرا کردار بھی ایک مفتی ہے۔ مفتی صاحب کا تعلق بھی جھنگ کے مضافات میں واقع ایک شہر کے مذہبی گھرانے سے ہے۔ ابتدائی عمر ہی سے مدرسے کے مکیں بن گئے، جنوبی پنجاب کے ایک بڑے مدرسے سے تخصص فی الافتاء کی سند حاصل کی، بڑے بھا ئی کا مدرسہ بھی تھا، مڈل کے مساوی سند تو لے لی لیکن میٹرک کے مساوی سند لینے میں انگریزی آڑے آگئی، سو کمر کس لی۔ امتحان دیا، انگلش میں فیل، پھر امتحان دیا، پھر وہی نتیجہ اور اب آخری چانس ہے-

مفتی صاحب حقیقی معنوں میں گفتار اور کردار کے غازی ہیں۔ صاحب علم ومطالعہ، فن تحریر کے رموز سے بھی واقف ہیں -لیکن سد راہ صرف انگلش۔ تکافل سمیت کئی اداروں میں ملازمت کے کنفرم مواقع موجود لیکن رکاوٹ صرف میٹرک کا نہ ہونا اور میٹرک نہ ہونے کی وجہ انگریزی-

ان سے عرض کیا ” حضور! کسی اکیڈمی میں داخلہ لے لیں “۔ فرمانے لگے ” اپنی عمر سے کئی درجہ کم عمر میٹرک کے بچوّں کے ہمراہ کیسے پڑھوں۔ مالی استعداد اتنی نہیں کہ ہوم ٹیویشن رکھ سکوں یا کسی بڑے شہر کے انگلش لینگویج سنٹر میں داخلہ لوں”۔ سو اب وہ ہیں، ان کا درد ہے اور چارہ گر کا انتظار-

کہانی اب بھی ختم نہیں ہوئی –

اس کہانی کا تیسرا کردار میں ہوں، آپ ہیں، شاید ہم سب ہیں جن کے نزدیک مدارس میں انقلابی تبدیلیاں ہونی چاہیں، جو مدارس میں پڑھنے والے بچوں اور انتہا پسندی کو لازم و ملزوم گردانتے ہیں، بجا….. لیکن ذرا تصویر کا یہ رخ بھی تو دیکھیں کہ ہم نے کیا کیا؟ ہم نے تو ہمیشہ ان مدارس کو دوسروں کی آنکھ سے دیکھا-

پاکستان میں موجود معدودے کے چند مدارس کے علاوہ تمام مدارس میں سوائے مسلک کے باقی تمام چیزیں ایک جیسی ہیں، اساتذہ کی قلیل تنخواہیں، روز بروز بڑھتا احساس کمتری، دبی خواہشیں، ناآسودہ حسرتیں، مصلحتیں، صبر وجبر سے لبریزقیام و طعام-

 سچ پوچھئے توانھیں میری اور آپ کی ضرورت ہے۔ انھیں مولانا عبدالمجید اور ظفر زہری جیسے لوگوں کا انتظار ہے۔ اور ظفر زہری جیسے مسٹروں کی تو از حد ضرورت ہے۔ تو بجائے طعن و تشنیع کے ترکش سنبھالنے کہ کیوں نہ ان کی انگلی پکڑی جائے، کیوں نہ ہم اپنے قریبی مدرسہ کے بچوں کو کسی درجہ عصری تعلیم بھی دیں۔ کیوں نہ ہم اپنی خدمات ان مدارس کے مہتمم حضرات کو پیش کریں۔ آپ ان بچوں کو دشمن کے بچوں کی بجائے اپنے بچے کی نگاہ سے تو دیکھیں –

 ہمت کر کے تو دیکھیں…… یقین مانیے سب مہتمم حضرات آپ کو ہاتھوں ہاتھ لیں گے۔ ان بچوں کی صلاحیتیں آپ کو متحیر کردیں گی۔ آپ کا دامن عقیدت سے بھر جائے گا، محبت کے عجیب سے لمس کے احساس کا ادراک ملےگا، دعائیں کیسے لی جاتی ہیں؟ اس ہنر سے آشنائی حاصل ہوگی….. اور سب سے بڑھ کر آپ اس سکون کے مالک بنیں گے، بلا شرکت غیرے مالک جس نے ایدھی اور رتھ فاو کو آفاقی زندگی دی۔ وہ سکون جو فیس بک، ٹویٹر اور وٹس ایپ زدہ معاشروں میں ناپید ہوتا جا رہا ہے-


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).