لیفٹیننٹ ارسلان ستی…. بیانیہ کیسے بدلتا ہے؟


 

پاک فوج کے لیفٹیننٹ ارسلان ستی تئیس ستمبر کی رات شمال مغربی پاکستان کے علاقے راج گال میں اپنے مورچے پر شہید ہو گئے۔ بائیس سالہ لیفٹیننٹ ارسلان عالم سرحد پار افغانستان کے علاقے سے حملہ کرنے والے دہشت گردوں کی گولی کی نذر ہوئے ہیں۔ ارسلان عالم نے پاک فوج کے لانگ کورس 135 میں تربیت پائی تھی۔ وہ تین بہنوں کے اکلوتے بھائی تھے۔ سوشل میڈیا پر شہید لیفٹیننٹ ارسلان کے کچھ پیغامات دیکھے جا سکتے ہیں جن میں پاکستان کے اس جیالے بیٹے نے اپنی حیات مختصر کی آخری کارروائی پر جانے سے پہلے شہادت کی آرزو ظاہر کی تھی۔ نفسیات کے اساتذہ جانتے ہیں کہ موت کی خواہش میں زندگی سے گہری محبت موجود ہوتی ہے۔ بائیس برس کی عمر تو خواب دیکھنے کی عمر ہے۔ اس عمر میں موت کا سامنا کرنا بہت گہرے غور و فکر کا تقاضا کرتا ہے۔ زندگی عزیز ہے، اپنی چھوٹی سی دنیا میں موجود ماں، باپ، بہنیں اور دوست بھی پیارے ہیں۔ فرض کہتا ہے کہ کچھ ذمہ داریاں ایسی بھاری ہیں کہ انہیں ادا کرتے ہوئے جان بھی دینی پڑے تو بخوشی یہ قرض ادا کیا جائے گا۔

میں نے شہید ارسلان کے آخری لمحوں میں لی گئی ایک تصویر دیکھی ہے۔ لیفٹیننٹ ارسلان زمین پر چت لیٹے ہیں اور تین فوجی جوان انہیں ابتدائی طبی امداد دے رہے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ لیفٹیننٹ ارسلان کو بہتر علاج کے لیے ہیلی کاپٹر کے ذریعے پشاور لایا گیا تھا مگر وہ جاں بر نہ ہو سکے۔ مٹی میں گرے زخمی لیفٹیننٹ کی تصویر دیکھ کر مجھے فیض احمد فیض کی نظم یاد آ گئی۔ اٹھو اب ماٹی سے، اٹھو میرے لعل…. شاعر کا بیانیہ دعا کرتا ہے کہ بیٹوں کی جبیں خاک آلود نہ ہو۔ ہم اپنے بچوں کے لیے خیر چاہیں گے تو دنیا بھر کے بیٹے اور بیٹیاں ہمارے اپنے بچے قرار پائیں گے۔ پاکستان کے رہنے والے کم ظرف نہیں ہیں۔ جو اپنی زمین کی رکھوالی کرنا جانتے ہیں، وہ کسی دوسرے کے لیے دکھ اور اذیت کی خواہش نہیں کر سکتے۔ ہر مہذب معاشرہ امن کے بیانیے پر آگے بڑھتا ہے۔ جنگ کا واحد جواز امن کا قیام ہے۔ جائز جنگ اسی لیے لڑی جاتی ہے کہ امن کے مخالفوں کو شکست دی جا سکے۔ لیفٹیننٹ ارسلان نے اپنی جان کا نذرانہ دے کر امن کے بیانیے کو آگے بڑھایا ہے۔ امن کے دشمنوں کو پیغام دیا ہے کہ ہم زندگی سے اس قدر محبت کرتے ہیں کہ گندم کے کھیت، دلہن کے آنچل، بزرگ والدین کی نیند اور بچوں کی کلکاری کے لیے جان دینے میں بھی عار نہیں سمجھتے۔ یہ قربانی کی عظیم ترین صورت ہے اور ایسی قربانی امن چاہنے والے دیا کرتے ہیں۔

خدا پروفیسر آر اے خان صاحب کو غریق رحمت کرے۔ خان صاحب انگریزی ادب پڑھاتے ہوئے اپنے طالب علموں کو تمدن کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ غالباً 1982ء کا موسم سرما تھا۔ گورنمنٹ کالج میں پرنسپل صاحب کے دفتر کی بالائی منزل پر واقع کمرہ جماعت میں لیکچر دے رہے تھے۔ اس عمارت میں لکڑی کے شہتیروں پر قائم بلند و بالا چھتوں سے شکوہ ٹپکتا ہے۔ کمرہ جماعت میں وسعت اور خاموشی ہو تو استاد کی بات طالب علم کے دل میں اتر جاتی ہے۔ خان صاحب اپنی بات کہتے ہوئے موضوع کی قید میں نہیں رہتے تھے۔ علم اور دانش کا دریا کناروں سے چھلکتا دور دراز منطقوں میں نکل جاتا تھا۔ فرمایا، ستمبر پینسٹھ کی لڑائی میں میرے کچھ بہترین بیٹے مارے گئے۔ آر اے خان بہت ضابطے کے آدمی تھے۔ ایک آنسو مگر آنکھ میں چھلک اٹھا۔ لحظے بھر کو خاموش رہے۔ رومال سے گوشہ چشم کو خشک کیا اور فرمایا، ’پاکستان اس نقصان سے آج تک سنبھل نہیں سکا‘۔ ہمیں ایک تو یہ معلوم ہو گیا کہ استاد اپنے طالب علموں کو واقعی بیٹا سمجھتا ہے اور دوسرے یہ کہ صوفی تبسم واقعی میں بہت بڑے استاد تھے جو جانتے تھے کہ پتر ہٹاں تے نئیں وکدے…. لیفٹیننٹ ارسلان جیسے بیٹے نخاس کی جنس نہیں ہیں کہ دکان سے مول لائیں۔

بتایا گیا ہے کہ لیفٹیننٹ ارسلان سرحد پار سے حملہ آور ہونے والے جنگجوؤں کی گولی کا نشانہ بنے ہیں، سرحد پار سے آنے والوں سے نمٹنا ہم خوب جانتے ہیں۔ دنیا کا ہر سپاہی بندوق تھام کر مورچے میں بیٹھتا ہے تو اپنے گھر کا رکھوالا ہوتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ لیفٹیننٹ ارسلان پر حملہ کرنے والے چند برس پہلے ہماری زمین پر موجود تھے اور ہم میں سے کچھ احباب جناتی زبان میں دفتر سیاہ کیا کرتے تھے کہ ان فتنہ پرور فسادیوں کی نشان دہی کرنا ملکی مفاد میں نہیں ہے۔ ہمیں ان کی بندوق سے ڈرایا جاتا تھا۔ ہمیں ان کی پارسائی کے قصے سنائے جاتے تھے۔ ان کے دستر خوان کی وسعت بیان کی جاتی تھی۔ انہیں ہمارے ملک کا اثاثہ قرار دیا جاتا تھا۔

خبر آئی ہے کہ اسلام آباد میں کسی قابل نفرت ٹولے نے داعش کے جھنڈے آویزاں کر دئیے ہیں۔ اسلام آباد پولیس نے یہ جھنڈے اتار دئیے ہیں، وزیر داخلہ نے رپورٹ طلب کر لی ہے لیکن اشارہ واضح ہے۔ لیفٹیننٹ ارسلان پر گولی چلانے والوں سے ہمدردی رکھنے والے ہماری دھرتی پر سانس لے رہے ہیں۔ ابھی کھل کر داعش کی تائید کرنے کا حوصلہ کسی میں نہیں لیکن یہ بتایا جا سکتا ہے کہ لیفٹیننٹ ارسلان کی غائبانہ نماز جنازہ لاہور میں کہیں ادا نہیں کی گئی۔ بچھڑنے والوں کے اعزاز میں یہ رسم ادا ہوتے ہم نے 2011ء میں بھی دیکھی، 2004ء میں بھی دیکھی، لیفٹیننٹ ارسلان کے دشمنوں کو 1998ء میں لاہور کی سڑکوں پر مونگ دلتے بھی دیکھ رکھا ہے۔ تب لیفٹیننٹ ارسلان شہید کی عمر دو برس تھی۔ لاہور اور دوسرے علاقوں میں رہنے والوں نے حیرت سے یہ تبدیلی محسوس کی ہے کہ سڑکوں پر دوڑتی گاڑیوں کی نمبر پلیٹ پر ’الباکستان‘ کا طغرہ اب نظر نہیں آتا۔ یہ جوانی کی سزا ہے یا بڑھاپے کا عذاب…. دل بدل گئے ہیں یا حکمت عملی بدل گئی ہے؟ ہمارا ملک پاکستان ہے۔ ہمارے ملک کے نام کا املا وہی ہے جو ہمارے آئین میں لکھا ہے۔ ہمارے ملک کا نام بدلنے والے ہماری قوم پر اپنا بیانیہ مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے درمیان رائے، عقیدے، زبان اور ثقافت کی بنیاد پر دیواریں اٹھانا چاہتے ہیں۔

 پاکستان کا بیانیہ امن، رواداری، جمہوریت، ترقی اور خیر سگالی کا بیانیہ ہے۔ اس بیانیے کو کئی برس سے دھندلایا جا رہا ہے۔ ہماری ریاست نے بار بار اعلان کیا ہے کہ ہم انتہاپسندی اور دہشت گردی کا بیانیہ تسلیم نہیں کرتے۔ ہمیں پاکستان کے نام سے دہشت گردی کا بیانیہ منسوب کرنا قبول نہیں۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں یہی موقف اختیار کیا ہے۔ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے دو روز قبل ملکی دفاع کے عہد کی تجدید کی ہے اور لیفٹیننٹ ارسلان عالم نے بائیس برس کی البیلی عمر میں اپنے لہو کا خراج دے کر بتایا ہے کہ نفرت، جھوٹ اور دشمنی کا بیانیہ ایسے بدلا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).