تین لڑکیاں تین شادیاں


سلونی کو گھر والوں نے اعلی تعلیم دلوائی اس نے جس چیز کی خواہش کی وہ اسے مل گئی گھر والوں نے اس کی تعلیم اور خواہشات میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ سلونی اپنے خاندان میں سب سے زیادہ پڑھی لکھی لڑکی تھی اور لاڈلی بھی کیونکہ چار بھائیوں کے بعد ملک خاندان میں اس کی پیدائش ہوئی تھی جہاں پر لڑکے بھی تعلیم حاصل نہیں کرتے تھے۔ وہاں لڑکیوں کے تعلیم کا تصور ہی نہیں تھا مگر اپنے باپ کی لاڈلی اور دُلاری ہونے کی وجہ سے سلونی نے میٹرک کے بعد کالج میں داخلہ لیا اور پھر یونیورسٹی میں داخلہ لیا جہاں اسے ایک غریب گھرانے کے لڑکے سے محبت ہوگئی۔ سلونی اس زعم میں تھی کہ اس کی شادی میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی کیونکہ اس کے خاندان والے اس کے ساتھ بہت زیادہ محبت کرتے تھے اور اس بات کا تصور ہی نہیں تھا کہ ا س کا خاندان سلونی کی یہ خواہش پوری کرنے میں روڑے اٹکائے گا۔ تعلیم کے مکمل ہوتے ہی گھر میں سلونی کی شادی کی بات ہونے لگی اور ماموں زاد جو کہ کوئی کام نہیں کرتا تھا بلکہ ہر وقت شکار ہی کھیلتا رہتا تھا، تعلیم سے اس کا دور دور سے کوئی واسطہ نہیں تھا، سے سلونی کی شادی طے ہوگئی۔ جب سلونی نے گھر والوں کے سامنے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو سب کے رویوں میں تبدیلی آگئی۔ باپ کی باپتا غائب، ماں کی مامتا غائب، بھائیوں کا لاڈ ختم اور پابند سلاسل کرنے کے بعد زبردستی اسے کھونٹی کی بکری بنا کر ماموں زاد سے بیا ہ دیا۔ کیونکہ اگر وہ خاندان سے باہر شادی کرتے تو ان کی جائیداد کا بٹوارا ہوجاتا اور جو خاندانی اسٹیٹس تھا وہ ڈھے جاتا اور یوں سلونی خاندانی روایا ت کی بھینٹ چڑھ گئی اور جو جائیداد تھی وہ گھر ہی میں رہ گئی۔ سلونی کی زندگی مرے ہووں سے بھی بدتر ہوگئی جسم ملے مگر روح کا ملاپ صدیوں میں بھی ممکن نہیں تھا اور یوں زندگی اپنے ڈگر پر رواں دواں ہوگئی جو خاندانی پرمپرا تھی وہ برقرار رہی۔

عاشی اپنے سب بہن بھائیوں میں سب سے خوبصورت تھی۔ اس کا والد ایک پرائیویٹ کمپنی میں ملازم تھا۔ گھر میں کسی چیز کی کمی نہیں تھی۔ ایک بھائی اوتین بہنیں سب کے سب بھلا کے ذہین اور فطین تھے۔ عاشی سب سے چھوٹی تھی اور ایف ایس سی کی طالبہ تھی۔ بھائی کی شادی ہوچکی تھی جب کہ بہنیں شادی کے انتظار میں بوڑھی ہورہی تھیں۔ بہت سے رشتے آئے۔ کبھی ماں باپ نے اس میں کیڑے نکالے تو کبھی بہنوں نے انکار میں سر ہلا دیے اور یوں دونوں بہنوں کی عمریں اس حد کو چھو گئی کہ رشتے آتے تو عاشی کو ہی منتخب کرتے یا اگر کوئی رشتہ آتا تو عاشی کے لئے ہی آتا۔ ایک تو وہ کم عمر تھی دوسری سب بہنوں میں خوبصورت بھی، اور یوں گھر والے انہیں رخصت کردیتے کہ نہیں پہلے ہم نے بڑی لڑکیوں کی شادی کرنی ہے پھر عاشی کی باری آئے گی۔ بہنیں بھی عاشی سے حسد کرنے لگی تھیں مگر کیا کیا جاسکتا تھا کیونکہ انہوں نے اور گھر والوں نے اچھے رشتوں کی تلاش میں بہت سے رشتے ٹھکرا دیے تھے اور غلطی ان کی اپنی تھی جس میں نہ عاشی کا قصور تھا نہ کسی اور کا۔ گھروالے پریشانی کا شکار تھے کہ اب کیا کیا جائے کیونکہ ماں دل کی مریضہ تھی اور باپ بھی عمر کے آخری حصے کو چھو رہا تھا جبکہ بھائی شادی کے بعد بیوی کا ہی ہوکر رہ گیا اور پھر ایک رشتہ آیا جو کہ دوسری بیوی بننے کا تھا اور وہ شخص بنک میں اچھے عہدے پر فائز تھا۔ اس کی شادی کو دس سال ہوگئے تھے مگر بچے نہیں تھے جس کی وجہ سے اسے دوسری شادی کی ضرورت آن پڑی تھی اور وہ رشتہ لینے آگیا۔ ماں باپ نے بغیر سوچے سمجھے ہاں کردی اور دو ہفتوں بعد شادی بھی کرڈالی دوسرے مہینے ایک رنڈوے نے اپروچ کی جس کی بیوری کو مرے چھ ماہ ہی ہوئے تھے۔ اچھے کھاتے پیتے خاندان کا بندہ تھا اور یوں منجھلی بھی پیا گھر سدھار گئی کیونکہ کوئی چارہ اس کے سوا نہیں تھا۔ عاشی کے لئے راہ ہموار ہوگئی اور یوں ماں باپ نے بڑی بیٹیوں کے رشتوں سے عبرت حاصل کرتے ہوئے عاشی کی شادی میں بہت جلد ی کی اور یوں بیٹیوں کی شادی سے سبکدوش ہونے کے بعد ماں باپ نے سکھ کا سانس لیا۔

اعجاز احمد ایک سکول میں ٹیچر تھا اس کی تین بیٹیاں اور دو بیٹے تھے۔ بیٹیاں ساری بڑی تھیں جبکہ بیٹے ابھی سکول میں پڑھ رہے تھے۔ چاروں بیٹیاں اعلی تعلیم یافتہ اور سگھڑ تھیں اور خوبصورتی میں بھی اپنی مثال آپ تھیں۔ محلے والے ان کے حسن اور اخلاق کی مثالیں دیتے تھے کیونکہ کالج سے سیدھا گھر آنا ان کی روٹین تھی۔ سب بہنوں میں ایک خاصیت مشترک تھی کہ سب بہت کم بولا کرتی تھیں اور یہی خوبی لوگوں کو ان کی جانب متوجہ کرتی تھی۔ جب بڑی بہن کا رشتہ آیا تو اس وقت اعجاز احمد نے سکول سے پنشن لیا تھا اور کچھ اور جمع پونجی بھی جمع کی تھی۔ رشتہ ایک اچھے خاندان کا تھا۔ انہوں نے بغیر سوچے سمجھے ہاں کردی اور یوں ڈولی اٹھ گئی شادی پر کافی خرچہ کیا گیا تھا۔ شادی کے دن نکاح سے پہلے دلہا والوں نے جہیز کی ڈیمانڈ کردی کہ ہمیں یہ یہ چیز چاہیے ورنہ شادی نہیں ہوگی۔ اعجاز احمد کے پاؤں تلے زمین نکل گئی کیونکہ جو ڈیمانڈ تھی اس میں اس کی ساری پنشن ختم ہو جاتی اور ابھی دو مزید بیٹیوں اور بیٹوں کے فرض سے اسے سبکدوش ہونا تھا۔ یہ بات اس پر بجلی بن کر گری اور نہ چاہتے ہوئے بھی اس نے ساری ڈیمانڈ پوری کردی حالانکہ بیٹی نے کہا کہ بابا میری وجہ سے میری دیگر بہنوں کا مستقبل برباد نہ کرو مگر سفید پوشی کا بھرم تھا اور یوں اپنے بھرم کو برقرا ر رکھنے لے لئے اس نے جہیز جیسے ناسور کو پروان چڑھنے دیا اور یوں شادی ہوگئی۔ جب دوسری بیٹیوں کی شادی کی باری آئی تو سب نے جہیز کی ڈیمانڈ پہلے کی بعد میں لڑکی کو دیکھتے تھے جس کی سکت بوڑھے اور ناتواں کندھوں میں نہیں تھی اور یوں ان بیٹیوں کی شادیوں کی عمریں گزر گئیں۔ ایک نے تو شادی کے نام سے ہی توبہ کرلی جبکہ دوسری بیٹی نہ چاہتے ہوئے بھی ایک بوڑھے شخص کے پلے باندھ دی گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).