سیاچن سے ایک خط


“ہم سب کچھ جانتے ہوئے وہ کام کر رہے ہیں جو ناممکن ہے، اور ان کے لیے کر رہے ہیں جنہیں کوئی پرواہ نہیں کہ ہو کیا رہا ہے۔ بہت تھوڑے وسائل کے ساتھ ایک طویل عرصے تک یہ سب کچھ کرتے رہنا ہمیں اس قابل بنا چکا ہے کہ ہم کچھ بھی کر سکتے ہیں اور خالی ہاتھ بھی کر سکتے ہیں۔”

جب اس نے مجھے اپنی ڈائری دکھائی تو یہ اقتباس پہلے صفحے پہ درج تھا۔ یہاں میری میزبانی یہ نوجوان آدمی کر رہا ہے جس کے جذبے زیرو سے کئی ڈگری کم سردی میں بھی اپنی آنچ قائم رکھے ہوئے ہیں۔ یہ ہماری پہلی ملاقات ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ یہ کوٹیشن مدر ٹریسا کی ہے۔ ویسے تو وہ مدر ٹریسا کو بھی نہیں جانتا۔ اس کا خیال ہے کہ یہ سب صرف اسی کے لیے کہا گیا تھا اور یہ کہ ان لائنوں کے بارے میں مزید کسی قسم کی تحقیق لاحاصل کام ہو گی۔ اس کی ابھی تازہ تازہ منگنی ہوئی ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ جب ہم مستقبل کی بات کرتے ہیں تو اس کے چہرے پر شفق سی پھوٹ پڑتی ہے۔ میں ایک رات پہلے یہاں پہنچا تھا لیکن ہم دونوں اب بیسٹ فرینڈز بن چکے ہیں۔

ادھر ہوا میں کچھ ہے، کچھ ایسا جو انسانوں کو مستقل بولنے پر اکساتا رہتا ہے، لیکن وہ سب باتیں خود کلامی ہوتی ہیں، کبھی نہ ختم ہونے والی خود کلامی! وہ اپنے جذبات کا ذکر کرتے ہیں، اپنی زندگی کے رازوں میں دوسرے کو شریک کر لیتے ہیں، اپنے بارے میں بات کرتے ہیں۔ وہ ایسا سب کچھ کرتے ہیں جو عام حالات میں کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، خاص طور سے جب وہ “مہذب دنیا” کے کاموں میں لگے ہوتے ہیں۔

میرا کمرہ، اسے میرا سٹوڈیو اپارٹمنٹ کہہ لو، بالکل ایک عام سا فوجی بنکر ہے جو اپنی مدد آپ کے تحت بنایا گیا ہے، یا بے سروسامانی تیرا ہی آسرا!  یہ ایک ٹیلے کی آغوش میں سے نکالا گیا ہے اور چودہ ضرب دس فٹ کا صرف ایک کھڑکی والا روائتی سا کمرہ ہے۔ دس فٹ اونچی چھٹ میں ستر کڑیاں ہیں۔ تم پوچھ سکتی ہو کہ سب خیر تو ہے، اتنی زیادہ تفصیلات میں کیوں بتا رہا ہوں؟ دراصل میں سونے سے پہلے ہر رات انہیں گنتا ہوں۔ نہ، مجھے بے خوابی کی شکایت ہرگز نہیں لیکن میں تارے گننے کے چکر میں باہر جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا، کم از کم دنیا کے اس حصے میں تو ہرگز نہیں۔

کمرے کی ایک طرف خالی ڈبے سجے ہوئے ہیں جن پہ بوریاں ڈلی ہیں اور اس سب کے اوپر جانماز رکھی ہے۔ عبادت کرنے اور خدا سے باتیں کرنے کے لیے میرے پاس بہت سا وقت ہے، شاید یہاں میں اس سے بہت قریب بھی محسوس کرتا ہوں۔ دوسری دیوار کے ساتھ بیڈ جڑا ہوا ہے، بیڈ کیا ہے بس خالی کارٹن ہیں اور ان کے اوپر ائیر میٹریس (ہوا سے پھولنے والا گدا) پڑا ہوا ہے اور ساتھ ہمارے سلیپنگ بیگز بھی موجود ہیں۔ لیکن وہ بڑے پھولوں کے پرنٹ والی چادر اس بستر کے تمام عیب چھپا لیتی ہے، اس کے علاوہ کہیں نظر جاتی ہی نہیں۔ اندھیرا ٹوائلٹ اسی کمرے کا ایک اضافی حصہ سمجھ لو۔ کھانسی کی دوا والی بوتل میں تیل ڈال کر وہاں ایسا چراغ جلایا جاتا ہے جو صرف اپنے آپ کو روشنی دیتا ہے، وہ بھی بہت مشکلوں سے۔ گھی کے خالی کنستر ہمارے لیے گیزر کا کام دیتے ہیں۔  یوں کہہ لو کہ رکاوٹ بھانپنے کی انسانی جبلت (فطرت) ہی اس باتھ روم کے اندھیرے میں ہماری راہنما ہوتی ہے۔ کمرے کی سجاوٹ کا پوچھتی ہو تو بس فنکارانہ سٹائل میں سجے ہوئے خوراک کے خالی ٹن ہیں، ایندھن ہے اور آگ ہے۔ کچھ کھانے والی چیزوں کے بڑے ڈبے ہی میز کے نام پر دھرے ہیں، تیل کے پیپے سٹول بنے ہوئے ہیں  اور اسلحے کے خالی صندوق بستر کے ساتھ تپائی کی جگہ موجود ہیں۔  جو میز سب سے زیادہ خوبصورت سجی ہے اس پر چکن کیوبز، نوڈلز، انڈے والے بسکٹ، برک گیم، اور ایک ریڈیو رکھا ہے، جو دنیا کی طرف کھلنے والی ہماری واحد کھڑکی ہے۔

میرے ساتھ یہاں کے باقی رہائشیوں میں ایک کیروسین کا ہیٹر ہے، ایک تیل سے جلنے والا چولہا ہے، وہ کتاب ہے جو تم نے بھیجی تھی اور ملٹری فون ہے، ٹیکنالوجی کا وہ شاہکار جو مجھے تم سے ملا پاتا ہے، اور جو اکثر خاموش رہتا ہے کیونکہ موسم، برف، تیز ہوائیں اور بجلی یہ سبھی ہر وقت ہماری بات چیت روکنے کی سازش میں شریک رہتے ہیں۔

یہاں مجھے شاہ لطیف کی بات یاد آ گئی؛
جو اونٹ پنوں کو لیے جاتا ہے، وہ میرا دشمن ہے
جو ہوا قافلے کے نشان مٹاتی جاتی ہے، میری مخالف ہے
یہ ریت تک میری دشمن ہے اور پنوں کے بھائی، وہ بھی میرے لیے انہیں سب جیسے ہیں!

دن کا سب سے اہم وقت تب ہوتا ہے جب ہم رات کا کھانا کھانے کے لیے بیٹھتے ہیں۔ تازہ سبزیاں مل جائیں تو کیا ہی عیاشی ہو، زیادہ تر ہم ٹن پیک بھنے ہوئے پیاز اور ٹماٹر کے شوربے نما چیز پر زندہ رہتے ہیں۔ موسم ہمیں تازہ سبزیوں اور بہت سی نعمتوں سے محروم رکھتا ہے۔ ڈنر کے بعد ہم لوگ ریڈیو کو گھیرا ڈال کے بیٹھ جاتے ہیں اور اسے آن کر دیتے ہیں۔ بس یہی دنیا ہے جو ہماری انگلیوں کی پوروں کا اشارہ سمجھتی ہے۔ ادھر کوئی ایف ایم نہیں چلتا، صرف بی بی سی یا بہت سے دوسرے سمجھ نہ آنے والی زبانوں کے مقامی چینلز ہیں۔ بی بی سی کے علاوہ ریڈیو پاکستان ہے جو رات کی نشریات چلاتا ہے۔ رات والی ٹرانسمیشن کو تم ریڈیو کا وہ انتقام سمجھ لو جو وہ ٹی وی کے مارننگ شوز سے لیتا ہے۔

اب ایک اور دن ختم ہو چکا ہے۔ چوکس جوان اپنی ڈیوٹیاں بدل رہے ہیں۔ گھر سے بہت دور، محفلوں سے دور، فون کالز، ایس ایم ایس اور ہر رابطے سے بہت دور یہ لوگ وہ سب کچھ کر رہے ہیں جسے میں الفاظ میں بیان ہی نہیں کر سکتا۔
ان کا سب سے بڑا دشمن موسم ہے، اس کی چالیں کبھی سوچی بھی نہیں جا سکتیں۔ یہ ایک دم بگڑ جاتا ہے اور جب بندہ اس کا شکار ہو جائے تبھی پتہ لگتا ہے کہ موت اور زندگی کے درمیان اب تک وہ کتنے کچے دھاگے سے لٹکا رہا ہے۔ ایک معمولی سر درد دماغی سوزش میں بدل جاتا ہے اور ایک انسان، جذباتی کہانیوں، ارادوں اور وعدوں میں گندھا خوبصورت انسان، اس چیز کا شکار ہو جاتا ہے جسے یہاں لوگ “کیژویلیٹی” کہتے ہیں۔

ریڈیو ابھی ٹیون کیا ہے اور اب ہم لوگ روزانہ کی طرح فوج کو برا بھلا کہنے والے دانشوروں کی باتیں سنیں گے۔ پڑھے لکھوں کا ایک گروہ ہمارا تعارف یوں کروائے گا جیسے ہم بہت تفریح کر رہے ہیں، انہیں یہ اندازہ نہیں ہو گا کہ سطح سمندر سے بیس ہزار فٹ اونچائی پر کیا عیاشی ہو سکتی ہے۔ میرا دماغ چلنے لگتا ہے، میں سوچتا ہوں، کیا ہمارے “بھاری بھرکم دفاعی اخراجات” یہ ہوتے ہیں کہ ہمیں ٹماٹر کا شوربہ اور سبزیاں ٹن فوڈ بنا کر دئیے جائیں؟ ہم “طاقت کے بھوکے” اس لیے کہلاتے ہیں کہ ہم ہر اس انسان سے محبت کرتے ہیں جو ہمارے ملک کا باسی ہے؟ اور ان سب کے لیے ہم زمین کے اس ٹکڑے تک کی حفاظت پر جتے رہتے ہیں؟ خالی کارٹنوں سے بھرے ہوئے ایسے بنکروں میں ہم یہ “پرتعیش” زندگی گزارتے ہیں؟  میرا خیال ہے مدر ٹریسا والی وہ کوٹیشن غلط بہرحال نہیں تھی!

تمہارے جواب کی راہ دیکھتا،
تمہارا،
ایچ

(محمد حسن معراج اور جوڈتھ ریون کی انگریزی کتاب “بیونڈ آور ڈگریز آف سیپریشن؛ واشنگٹن مون سونز اینڈ اسلام آباد بلیوز” سے ایک باب کا آزاد ترجمہ)

پس نوشت؛ لیفٹینینٹ ارسلان ستی کی جواں سال شہادت پر یہ ترجمہ پاک فوج کے ان تمام جوانوں کی نذر جو دہشت گردوں سے برسر پیکار ہیں۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain