جماعت اسلامی کی ”بقدر ضرورت“ اقامت دین کا معاملہ


آئیے جماعت اسلامی کے بانیوں میں سے ایک کی کتاب سے ایک لمبا سا اقتباس، اور چند چھوٹی چھوٹی سی خبریں پڑھتے ہیں۔ پہلے اقتباس دیکھتے ہیں:

”ان لوگوں کے لیے احکامت شریعت کی پابندی کے معاملہ میں کوئی رعایت نہ ہو گی، ان کو مسلمانوں کی زندگی کا پورا نمونہ پیش کرنا ہو گا اور ان کے لیے رخصت کی بجائے عزیمت کا طریقہ ہی قانون ہو گا“۔ دستور جماعت دفعہ نمبر 8۔ جماعت کے صف اول کے اراکان کے بارہ میں لکھا گیا۔

”ان سوالوں کا واضح مطلب یہ ہے کہ موجودہ حالات میں مسلمانوں کی اس قومی تحریک کا ساتھ دیا جائے اور جب یہ حالات ختم ہو جائیں تو پھر ان کا ساتھ چھوڑ دیا جائے۔ کیونکہ اسے تو سائل صاحب خود بھی تسلیم کرتے ہیں کہ یہ تحریک غیر اسلامی ہے۔ جب آپ ایک تحریک کو خود غیر اسلامی مان رہے ہیں تو پھر کس منہ سے ایک مسلمان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس کا ساتھ دیا جائے۔ “ مولانا مودودی، ٹونک، راجھستان، اپریل 1947۔ مسلم لیگ کی تحریک پاکستان پر ایک سوال کا جواب۔

”بعض لوگ یہ خیال ظاہر کرتے ہیں کہ ایک دفعہ غیر اسلامی طرز ہی کا سہی مسلمانوں کا قومی اسٹیٹ قائم تو ہو جائے پھر رفتہ رفتہ تعلیم و تربیت اور اخلاقی اصلاح کے ذریعہ سے اس کو اسلامی سٹیٹ میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ مگر میں نے تاریخ، سیاسیات اور اجتماعیات کا جو تھوڑا بہت مطالعہ کیا ہے اس کی بنا پر اس کو میں ناممکن سمجھتا ہوں۔ “ مولانا مودودی، ”اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے“۔

قیام پاکستان کے بعد طے کیا گیا کہ ہم الیکشن اسلامی اصول و احکام کی پابندی کے ساتھ لڑیں گے اور دکھلا دیں گے کہ الیکشن اسلامی احکام کی پابندی کے ساتھ اس طرح لڑا جاتا ہے۔ رسول پاکؐ کی ہدایت اور شریعت کے اصول کے مطابق عوام سے کہا جائے گا کہ کسی ایسے امیدوار کو ووٹ نہ دیں جو پارلیمنٹ یا اسمبلی کی ممبری کا خود طالب و خواستگار ہو، بلکہ ہر حلقہ کے اہل الرائے اپنے حلقہ کی نمائندگی کے لیے کسی اہل اور دیندار شخص کا خود انتخاب کریں اور سے الیکشن میں کھڑے ہونے کی درخواست کریں۔ یہ بھی طے کیا گیا کہ کسی ایسی پارٹی سے الیکشنی سمجھوتہ بھی نہ کیا جائے جو الیکشن کی مہم میں اس اصول کی اور دوسرے شرعی احکام و ہدایات کی پابندی نہ کرے۔ لیکن حیرت انگیز درجہ میں ناکامی کے بعد جب الیکشن کا دوسرا موقعہ آیا تو اصول اور طریقہ کار میں جو دین و شریعت کی روشنی میں اختیار کیے گئے تھے، تبدیلی کی ضرورت محسوس کی گئی۔ چنانچہ دوسری سیاسی پارٹیوں سے سمجھوتے کا شرعی طریقہ بدلا گیا۔ (اس پیراگراف کو خاکسار نے اختصار کی خاطر ایک معمولی حد تک اپنے الفاظ میں لکھا ہے۔ )

پالیسی کی اس تبدیلی اور الیکشن بازی کا ایک نتیجہ یہ بھِی ہوا کہ جماعت کا مزاج دین کی حامل و داعی جماعت کی بجائے سیاسی پارٹی والا مزاج بنتا چلا گیا اور اس میں وہی لوگ بھرتے چلے گئے جن کے لیے اس مزاج میں کشش تھی۔

”عورت اور مجالس قانون ساز“، مولانا مودودی، 1952

ایک اعتراض ہماری اس تجویز پر کیا گیا ہے کہ عورتوں کو مجلس قانون ساز کا رکن نہ ہونا چاہیے۔ موجودہ زمانہ میں جو مجالس اس نام سے موسوم کی جاتی ہیں ان کا کام محض قانون سازی کرنا نہیں بلکہ عملاً وہی پوری ملکی سیاست کو کنٹرول کرتی ہیں۔ ان مجالس کا مقام محض ایک فقیہہ اور مفتی کا مقام نہیں ہے بلکہ پوری مملکت کے قوام کا مقام ہے۔ اب ذرا دیکھیے قرآن اجتماعی زندگی میں یہ مقام کس کو دیتا ہے اور کسے نہیں دیتا ہے۔ سورہ نسان میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے ”مرد عورتوں پر قوام ہیں“۔

اور دیکھیے قرآن صاف الفاظ میں عورت کا دائرہ عمل یہ کہہ کر معین کر دیتا ہے کہ ”اپنے گھروں میں وقار کے ساتھ ٹھہری رہو۔ پچھلی اور جاہلیت کے سے تبرج کا ارتکاب نہ کرو۔ “ الاحزاب۔

اس کے بعد حدیث کی طرف آئیے ”جب تمہارے امرا (ارباب حکومت) تمہارے بد ترین لوگ ہوں اور جب تمہارے دولتمند بخیل ہوں اور جب تمہارے معاملات تمہاری عورتوں کے ہاتھ میں ہوں تو زمین کا پیٹ تمہارے لیے اس کی پیٹھ سے بہتر ہے“۔

اگرچہ ہمارے پاس اپنے نقطہ نظر کی تائید میں مضبوط عقلی دلائل بھی ہیں اور کوئی چیلنج کرے تو ہم انہیں بھی پیش کر سکتے ہیں مگر اول تو ان کے بارہ میں سوال نہیں کیا گیا ہے، دوسرے ہم کسی مسلمان کا یہ حق ماننے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں کہ وہ خدا اور رسول کے واضح احکام سننے کے بعد ان کی تعمیل کرنے سے پہلے اور تعمیل کے لیے شرط کے طور پر عقلی دلائل کا مطالبہ کرے۔ مسلمان کو اگر وہ واقعی مسلمان ہے، پہلے حکم کی تعمیل کرنی چاہیے، پھر وہ اپنے دماغی اطمینان کے لیے عقلی دلائل مانگ سکتا ہے۔ لیکن اگر وہ کہتا ہے کہ مجھے پہلے عقلی حیثیت سے مطمئن کرو ورنہ میں خدا اور رسولؐ کا حکم نہ مانوں گا، تو ہم اسے سرے سے مسلمان ہی نہیں مانتے۔ کجا اس کو ایک اسلامی ریاست کے لیے دستور بنانے کا مجاز تسلیم کریں۔ تعمیل حکم کے لیے عقلی دلائل مانگنے والے کا مقامل اسلام کی سرحد سے باہر ہے نہ کہ اس کے اندر۔

1962 کا صدارتی انتخاب

متحدہ محاذ کو صدر ایوب کے مقابلہ میں کسی مضبوط امیدوار کو کھڑا کرنا تھا۔ اور صرف مس فاطمہ جناح کی شخصیت ایسی تھی جو صدر ایوب کے مقابلے میں کامیاب ہو سکتی تھیں۔ جماعت اسلامی کو اس میں یہ مشکل پیش آئی کہ وہ ابتک یہ کہتی آئی تھی اور اس کے بانی اور رہنما مولانا مودودی قرآن و حدیث کے حوالوں سے لکھ چکے تھے کہ اسلام اور اسلامی شریعت میں کسی عورت کے مجلس قانون ساز کا ایک عام رکن اور ممبر ہونے کی بھی گنجائش نہیں ہے چہ جائے کہ اس کو مملکت کا صدر اور سربراہ بنا دیا جائے جو ایک حد تک مختار کل ہوتا ہے۔ لیکن مودودی صاحب نے ”دین میں حکمت عملی“ کا جو فلسفہ پیش فرمایا تھا اور اس کے جو دلائل دیے تھے (مثلاً اکراہ کی صورت میں زبان سے کلمہ کفر کہنا بھی جائز ہے اور حالت اضطرار میں حرام اور مردار کھا لینے کی بھی اجازت ہے وغیرہ وغیرہ) اس کی روشنی میں اس مشکل کا حل بھی نکال لیا گیا۔

جماعت اسلامی کی مجلس شوری نے پاکستانی کی صدارت کے لیے مس فاطمہ جناح کی امیدواری کے بارہ میں اپنے موقف کا اعلان کرتے ہوئے جو بیان جاری گیا تھا اس میں فرمایا گیا کہ

”شریعت میں جو چیزیں حرام ٹھہرائی گئی ہیں ان میں سے بعض کی حرمت تو ابدی اور قطعی ہے جو کسی حالت میں حلت سے تبدیل نہیں ہو سکتی اور بعض کی حرمت ایسی ہے جو شدید ضرورت کے موقع پر ضرورت کی حد تک جواز میں تبدیل ہو سکتی ہے، اب یہ واضح ہے کہ عورت کو امیر بنانے کی ممانعت ان حرمتوں میں سے نہیں ہے جو ابدی اور قطعی ہیں بلکہ دوسری قسم کی حرمتوں یں ہی اس کا شمار ہو سکتا ہے۔ اس لیے ہمیں ان حالات کا جائزہ لے کر دیکھنا چاہیے جن میں یہ مسئلہ ہمارے سامنے آیا ہے۔ اور یہ مجلس عوام سے اپیل کرتی ہے اور جماعت کے کارکنوں کو ہدایت کرتی ہے کہ وہ جبر و استبداد سے نجات پانے کے لیے اس آخری موقع سے پورا فائدہ اٹھائیں اور اس مہم کو تن من دھن سے کامیاب بنانے کی کوشش کریں“۔

اور پھر ایسا ہی ہوا کہ پاکستان کی جماعت اسلامی کے ”الکشنی مجاہدین“ نے اس معرکہ کو ”جہاد فی سبیل اللہ“ قرار دے کر مس فاطمہ جناح کو کامیاب بنانے کے لیے تن من دھن کی بازی لگا دی، اور جب انہیں یہ ”شرعی“ راہنمائی مل گئی تھی کہ یہ ایسا عظیم و اعلی مقصد ہے کہ اس میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے اگر ضرورت پڑے تو بقدر ضرورت حرام کا بھی ارتکاب کیا جا سکتا ہے تو ہر شخص اندازہ کر سکتا ہے کہ الیکشن جیتنے کے تقاضے سے کیا کچھ نہ کیا گیا ہو گا۔

یا بدیع العجائب، یا تو معیار کی یہ بلندی کہ جماعت کے دستور میں جماعت کے صف اول کے ارکان کے بارے میں کہا گیا تھا کہ ”ان کے لیے احکام شرعیہ کی پابندی کے معاملہ میں کوئی رعایت نہ ہو گی، ان کو مسلمانوں کی زندگی کا پورا نمونہ پیش کرنا ہو گا، اور ان کے لیے رخصت کی بجائے عزیمت کا طریقہ ہی قانون ہو گا“، یا یہ تسفل اور گراوٹ کہ جان بوجھ کر ایک حرام کا ارتکاب کیا جا رہا ہے اور پورے ملک کے مسلمانوں سے اس حرام کے ارتکاب کی اپیل کی جا رہی ہے اور اس کے لیے شرعی حرمتوں یں ”ابدی“ اور ”غیر ابدی“، ”قطعی“ اور ”غیر قطعی“ کی تقسیم کی جا رہی ہے۔

یہ طبقہ جو جماعت اسلامی کا اصل کارفرما عنصر ہے، اس حال میں نہیں ہے کہ براہ راست کتاب و سنت سے اور آئمہ سلف اور امت کے علمائے محققین کی تصنیفات سے رہنمائی حاصل کر سکے۔ اس کے پاس علم دین کا سارا سرمایہ بس مودودی صاحب کی تصنیفات اور جماعت کا لٹریچر ہے۔ پھر کو ”دین کی حکمت عملی“ کے عنوان سے مولانا موصوف نے یہ اصول بھی سکھا دیا ہے اور اس پر عمل کر کے اور کرا کے بھی دکھلا دیا ہے کہ ”اقامت دین“ کی جد و جہد کے سلسلہ میں (جس کی عملی صورت اب الکشنی معرکے ہی ہیں، اگر ضرورت پڑے تو ”بقدر ضرورت“ کسی ناجائز اور حرام کام کا بھی ارتکاب کیا جا سکتا ہے، تو سوچا جا سکتا ہے کہ الکشن کے میدان میں کام کرنے والے جماعت اسلامی کے ”مجاہدین“ میدان جیتنے کے لیے اس ”فتوے“ کی روشنی میں کیا کچھ نہ کریں گے۔

مولانا نے تو اپنے فدائی اس طبقے کے ہاتھ میں، جس نے کالجوں سے نکلنے کے بعد دین صرف ان کی کتابوں سے اور جماعتی اخبارات اور رسائل سے ہی سیکھا ہے اور وہ صرف انہیں کو دین کا رازداں اور ناقابل اعتماد ترجمان یقین کرتا ہے، یہ خطرناک اصول دے دیا ہے کہ ”اقامت دین“ کے مقصد کی خاطر حکومتی اقتدار حاصل کرنے کے لیے کسی بھِی ایسے کام کے کرنے کی ضرورت پڑے جس کی قرآن و حدیث میں ممانعت فرمائی گئی ہو تو ”بقدر ضرورت“ وہ کام کیا جا سکتا ہے۔ ۔ یہ عاجز بار بار غور کرنے کے بعد بھی نہیں سمجھ سکا کہ اس اصول کے تحت ”اقامت“ دین کے مقصد ہی کی خاطر کسی سیاسی حریف کو راستہ سے ہٹانے کے لیے اگر اس کو ختم کرا دینے کی یا اس پر کوئی جھوٹا کیس چلوا کر جیل بھجوا دینے کی ضرورت محسوس کی جائے تو مولانا کے متبعین کو اس کے جائز بلکہ کار ثواب ہونے میں کیوں کوئی شک یا تذبذب ہو گا۔ غور فرمایا جائے، مولانا کا یہ نظریہ تو وقت کے ہر ”یزید“ اور ”حجاج“ کے لیے سند اور دستاویز بن سکتا ہے۔

مندرجہ بالا طویل اقتباس تھا مولانا محمد منظور نعمانی کی کتاب، ”مولانا مودودی کے ساتھ میری رفاقت کی سرگزشت“ سے۔ کتاب کے مطابق مولانا نعمانی کو مولانا مودودی نے دو مرتبہ جماعت کی امارت کی پیشکش کی تھی جو مولانا نعمانی نے ٹھکرا دی۔ اس سے ان کی جماعت میں اہمیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

اور اب چند چھوٹی سی خبریں

سال 2015 کا ہے۔ لاہور میں بلدیاتی انتخابات ہو رہے ہیں۔ منصورے کے نواح میں کونسلر لیول کے انتخابات کے لیے جناب لیاقت بلوچ کے صاحبزادے نے تحریک انصاف اور فرید پراچہ صاحب کے صاحبزادے نے ن لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا ہے جو وہ پھر بھی ہار جائیں گے۔

اب ایک طرف لیاقت بلوچ صاحب کا اکتوبر 2014 کا بیان یاد آ رہا ہے، جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ ”ناچ گانے سے تبدیلی نہیں آ سکتی ہے۔ یہ صرف نوجوانوں میں بدکاری پھیلا رہے ہیں“۔ اور ساتھ ہی ایک پریس ریلیز بھی جاری کی گئی تھی جس میں لیاقت بلوچ صاحب نے تحریک انصاف کے سیاسی کلچر پر جو کہ اس نے تبدیلی لانے کے نام پر اپنایا ہوا تھا، شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

اور دوسری طرف امیر جماعت جناب سراج الحق صاحب کا وہ مشہور خطبہ جمعہ یاد آ رہا ہے جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ ”فخر سے بتاتے ہیں پچاس سال سے جماعت کا رکن ہوں مگر گھر والوں کو جماعت کا حامی بھی نہیں بنا سکے“۔ ہم ہرگز بھی یہ شبہ نہیں کر سکتے ہیں کہ امیر جماعت کا اشارہ جناب لیاقت بلوچ صاحب یا فرید پراچہ صاحب کی طرف تھا۔

بس یہی سمجھ میں آتا ہے کہ اگر اقامت دین کے مقصد کی خاطر حکومتی اقتدار حاصل کرنے کے لیے کسی بھِی ایسے کام کے کرنے کی ضرورت پڑے جس کی قرآن و حدیث میں ممانعت فرمائی گئی ہو تو ’بقدر ضرورت‘ وہ کام کیا جا سکتا ہے۔ سب یاد رکھیں کہ جماعت کے صف اول کے ارکان ”کے لیے احکامت شریعت کی پابندی کے معاملہ میں کوئی رعایت نہ ہو گی، ان کو مسلمانوں کی زندگی کا پورا نمونہ پیش کرنا ہو گا اور ان کے لیے رخصت کی بجائے عزیمت کا طریقہ ہی قانون ہو گا“۔

اب سونے پر سہاگہ لاہور میں قومی اسمبلی کے حلقہ 120 کے ضمنی الیکشن میں ہوا ہے۔ ساڑھے تین لاکھ ووٹروں میں سے 592 کی کثیر تعداد نے جماعت اسلامی پر ٹھپہ لگا دیا ہے۔ ابھی تو پشاور کے ضمنی انتخاب کا معاملہ بھی درپیش ہے جہاں کی صوبائی حکومت گزشتہ چار سال سے جماعت کی کارکردگی پر عوام کا ردعمل دکھائے گی۔ دیکھتے ہیں کہ ”بقدر ضرورت اقامت دین“ کے عظیم فلسفے کے تحت اب جماعت کیا لائحہ عمل اختیار کرے گی۔ کہیں سیاست ترک کر کے ایسی الگ جماعت ہی نہ بنا لے جس میں ایسے غیر صالح افراد کو بھی شامل کر لیا جائے جن کو عوام جماعت کے برخلاف قیادت کا اہل سمجھتے ہیں۔

 

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar