میرے بچپن کا محرم


محرم کے پہلے عشرے میں خانیوال کے مرکزی امام بارگاہ سے دو جلوس برآمد ہوتے ہیں۔ ایک چھٹی محرم کو اور دوسرا یوم عاشور۔ آج چھٹی محرم ہے۔ مجھے اپنے بچپن کا خانیوال یاد آ رہا ہے۔ میں ماضی میں جھانکنے کی کوشش کررہا ہوں۔

میری بچپن میں محرم آتے ہی دادی اماں کے گھر میں چارپائیاں الٹی کردی جاتی تھیں۔ ایسا اس وقت کیا جاتا تھا جب گھر میں کوئی موت ہوجائے۔ امام حسین کا سوگ ہمارے گھر کا سوگ تھا۔

جب تک ہم خانیوال میں رہے، تب تک محرم کے جلوسوں میں صرف چھ علم ہوتے تھے۔ چار بڑے اور دو چھوٹے۔ امام بارگاہ ہمارے دادا نے قائم کیا تھا، جلوس کے بانی وہی تھے لیکن ابتدائی دو علم میرے دونوں ماموؤں نے اٹھائے۔ چھوٹے ماموں کراچی آگئے تو بڑے ماموں دونوں علم سجاتے رہے۔ ان کے ساتھ ان کے بیٹے بھی اس کام میں شریک رہے۔ باقی علم ذکی صاحب کے گھرانے کے تھے۔

میں 2009 میں خانیوال جا کر چھ محرم کے جلوس میں شریک ہوا تھا۔ اس جلوس میں درجنوں علم اٹھائے گئے۔ لیکن 1985 تک خانیوال میں صرف دو طرح کے علم ہوتے تھے۔ ایک پھریرے یعنی سفید چادر کا علم جس پر لال رنگ ٹپکا دیا جاتا۔ اس طرح وہ خون آلود دکھائی دیتا تھا۔ دوسرا تلواروں کا علم۔ یہ ایک لمبا سا نیزہ ہوتا ہے۔ اس کے اوپری حصے پر کمان جوڑ دی جاتی ہے۔ کمان کے دونوں کونوں سے دو تلواریں باندھ دی جاتی ہیں۔ پھر اس پر پھولوں کے ہار ڈالے جاتے ہیں۔ پھریرے والے علم کے مقابلے میں اسے سنبھالنا مشکل ہوتا ہے۔

مرکزی امام بارگاہ سے جلوس نکلتا اور گپی کے چوک پر پہنچتا۔ وہاں کسی ذاکر کا مختصر خطاب ہوتا ہے۔ جب تک میرے تایا مولانا بوعلی شاہ خانیوال میں رہے، وہی خطاب کرتے تھے۔ اس کے بعد ذکی صاحب کے گھرانے کے نوجوان اسد، بدر یا عباس بھائی تلوار والے علموں کی سلامی دیتے تھے۔

کربلا میں پھریرے کے علم کی سلامی دی جاتی ہے۔ یہ ذرا مشکل کام ہے لیکن تلواروں کے علم کی سلامی بہت زیادہ مشکل کام ہے۔ علم کو دونوں ہاتھوں سے تیز تیز گردش دی جاتی ہے۔ تیز ہوا اکثر امتحان لے لیتی ہے۔ علم سنبھالنے والے کے ہاتھوں میں قوت نہ ہو یا اس سے اندازے کی ذرا سے غلطی ہوجائے تو علم شہید ہوسکتا ہے۔ لیکن میں نے کبھی ایسا ہوتے نہیں دیکھا۔

تلواروں والے علم پر پھولوں کے چار ہار بھی کافی ہیں۔ لیکن کراچی میں امروہے والے درجنوں ہار بلکہ پوری چادر چڑھا دیتے ہیں۔ لچک دار بانس اور سیروں پھولوں کے وزن کی وجہ سے اسے اٹھانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں رہتی۔ چھ محرم کو پرانی رضویہ، سات محرم کو انچولی اور آٹھ محرم کو نشتر پارک سے امروہے والوں کے جلوس برآمد ہوتے ہیں۔ ان میں ایسے درجنوں علم ہوتے ہیں۔

عاشورہ کے جلوس میں تعزیے بھی اٹھائے جاتے ہیں۔ روایتی طور پر اہلسنت امام حسین سے اپنی محبت کا اظہار کرنے کے لیے تعزیے بناتے ہیں۔ میں نے خانیوال میں ایسے تعزیے دیکھے جو اہلسنت حضرات کسی جلوس میں لے کر نہیں جاتے تھے بلکہ انھیں اپنے ہی گھر کے سامنے رکھ لیتے تھے۔ شیعہ سنی عقیدت مند آتے اور ان کی زیارت کرتے۔

امام بارگاہ میں بھی تعزیے تیار کیے جاتے تھے۔ شب عاشور کو مجلس کے بعد نوجوان گھر نہیں جاتے تھے اور گلیوں میں گشت کرتے تھے۔ کچھ لڑکے تعزیے بناتے تھے۔ میں اس وقت کافی چھوٹا تھا اور ہمیشہ جلدی سو جاتا تھا۔ لیکن ایک رات مجھے یاد ہے جب ایک لڑکے نے چند گھنٹوں میں تنہا پورا تعزیہ سجا لیا تھا۔

خانیوال کے جلوس میں اس وقت بھی خون کا ماتم ہوتا تھا۔ کم عمر بچے بلیڈوں سے ماتم کرتے، بڑے زنجیروں سے۔ قمہ کا ماتم کوئی کوئی اور کبھی کبھی کرتا تھا۔ میں نے کراچی آکر دیکھا کہ اس ماتم کی تکنیک کیا ہے۔ پھر کربلا اور دمشق میں لبنانیوں کو ایسا ماتم کرتے دیکھا۔ لیکن خانیوال میں اس وقت تک لوگوں کو یہ ماتم کرنا نہیں آتا تھا۔ ایک بار ہمارے پڑوسی نے سیدھی چھری سر پر مار لی اور فورا بے ہوش ہو کر گر پڑا۔

مبشر علی زیدی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مبشر علی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریر میں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

mubashar-zaidi has 194 posts and counting.See all posts by mubashar-zaidi