سیاست کی گنجل


ڈیل کا تاثر درست نہیں لگتا۔ احتساب عدالت میں پیشی کیلئے نواز شریف کی آمد کے فوری بعد مخصوص حلقوں میں جوہڑبونگ دیکھنے میں آئی وہ کسی سودے بازی کی نفی کررہی ہے۔ سابق وزیراعظم کی آمد پر ’سلامی‘ پیش کرنے کیلئے ایل ڈی اے کے پلاٹوں کی الاٹمنٹ والا28 سال پرانا معاملہ بھی ہنگامی بنیادوں پر اچھالا گیا۔ پکا راگ گانے میں یدطولیٰ رکھنے والے شیدے ٹلی کو بری طرح کنفیوژ دیکھا گیا۔ اوٹ پٹانگ ہانکنے کے عادی طاقتور حلقوں کے ترجمان کے منہ سے نکل گیا کہ نواز شریف کی واپسی اچھا فیصلہ ہے۔ یہ دعویٰ بھی کر دیا کہ واحد میں ہی تھا جو کہتا تھا کہ نواز شریف واپس ضرور آئیں گے۔ پھر کہیں سے کھچائی ہونے پر پرانی اول فول شروع کر دی۔ سچ تو یہ ہے کہ نواز شریف کی پاکستان آمد اور عدالت میں پیشی غیر متوقع واقعہ نہیں۔ کلثوم نواز کینسر کے مرض کے باعث شدید علیل نہ ہوتیں تو سابق وزیراعظم نے باہر آنے جانے کا سلسلہ رکھنا ہی نہیں تھا۔ نواز شریف کو خاندان سمیت تاحیات ملک سے باہر رکھنا مقتدر حلقوں کی خواہش ہے جو بظاہر پوری ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ گرفتاری یا ای سی ایل میں نام ڈالنے تک باہر آنے جانے کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ان کی اہلیہ صحت یاب ہو کر لوٹ نہیں آتیں۔ اس وقت ملکی سیاست میں سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ مقتدر حلقوں سمیت کسی کا کوئی ٹارگٹ پورا نہیں ہورہا۔ نواز شریف نے اپنی واپسی کے بعد پنجاب ہاﺅس اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے جو لب و لہجہ اختیار کیا اس کا یہ کہہ کر صرف ایک فقرے میں احاطہ کیا جا سکتا ہے کہ ”کر لو جو کرنا ہے“ جیل اور مقدمات بھگتنے کیلئے مکمل طور پر تیار سابق وزیراعظم کو صرف ایک ہی خدشہ ہو سکتا ہے کہ انہیں بے نظیر بھٹو کی طرح کسی دھماکے کا نشانہ نہ بنادیا جائے۔شاید اسی لیے پروٹوکول کے نام پر سخت سکیورٹی حاصل کی گئی ہے۔ ان کی حکمت عملی بالکل واضح ہے ،ان کے ساتھ جو بھی ہو اسٹیبلشمنٹ اور عدالتوں کے کھاتے میں پڑے۔اس سے قبل مصدقہ اطلاعات تو یہی تھیں کہ شہباز شریف کو پارٹی سربراہی اور نئے الیکشن کے بعد 5 سال کیلئے وزیراعظم بنانے کے فارمولے پر اتفاق رائے ہو گیا ہے۔ تاہم ایک اہم شرط یہ بھی تھی کہ نواز شریف فیملی کو پاکستان کو ہمیشہ کیلئے گڈبائے کہنا ہو گا۔ شاید اسی لیے مسلم لیگ(ن) میں دھڑے بنانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ کسی حد تک اچھل کود کرنے والے چودھری نثار کے بارے میں اگر اسٹیبلشمنٹ کا بندہ ہونے کا تاثر ہے تو یہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کہ نثار کا شہباز شریف سے نہ صرف ’نظریاتی‘ اتفاق بلکہ گہری دوستی بھی ہے۔ ن لیگ مائنس نواز فارمولا مگر پارٹی کو قبول ہے نہ ہی نواز شریف اور ان کے فیملی ممبران کو۔ پارٹی کے حامی اور کارکن بھی کسی طور نواز شریف کو الگ کر کے سیاست آگے بڑھانے کے مخالف ہیں۔

ارکان اسمبلی کا تو ایسا کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ سیاسی عمل میں مسلسل براہ راست اور بالواسطہ ایجنسیوں کی مداخلت کے باعث کوئی بھی جماعت اتنا مضبوط نظام نہیں بنا پائی کہ اپنے ارکان کو لوٹے ہونے سے روک سکے۔ سیاسی مبصرین اسی لیے تو اس رائے کا اظہار کرتے ہیں کہ سیاسی جدوجہد کو آگے بڑھانے کا کام اصل میں اس کے کارکن کرتے ہیں۔ ارکان لوٹے ہونے سے پارلیمانی اکثریت پر تو یقینا اثر پڑتا ہے مگر کارکن ساتھ رہیں تو پارٹی کی عوامی مقبولیت اور طاقت بڑی حد تک برقرار رہتی ہے۔ ایسا نہیں کہ مسلم لیگ(ن) کے حامی اور کارکن اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرانے کیلئے تیار ہیں ہاں !مگر اس کی آوازیں رائے عامہ کو ضرور متاثر کررہی ہیں۔ اسی لیے تو کہا جارہا ہے کہ پاکستان ایک خطرناک مرحلے سے گزررہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو اس کی زیادہ پروا نہ ہو کیونکہ وہاں یہ سمجھا جاتا ہے کہ اگر امریکہ سمیت عالمی برادری کو راضی کر لیا جائے تو پھر اندرون ملک جو چاہیں کرتے پھریں ۔لیکن یہ بات بھی کسی کو بھولنی نہیں چاہیے کہ اگر ملک میں گرما گرمی کا ماحول بن جائے تو باہر والے بھی موقع سے فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ خطرات اور خدشات کے ماحول میں توڑ جوڑ جاری ہے۔ ایک بات واضح طور پر محسوس کی جا سکتی ہے کہ منصوبہ ساز اپنے پلان تبدیل کرنے پر مجبور ہورہے ہیں ،گویا اب تک کیے جانے والے وار سیدھے نہیں پڑرہے۔ اس تمام بحران کا آغاز 2014 ءکے دھرنوں سے ہوا۔ پرائم ٹارگٹ تین تھے۔ (1)نواز شریف کی قیادت میں ن لیگ (2)جنگ جیو گروپ(3 )انٹیلی جنس بیورو(آئی بی)۔ زبردست تگ و دو اور نواز شریف کو نااہل کرانے کے باوجود ابھی تک سارا معاملہ ایک بکھیڑے کی صورت اختیار کیے ہوئے ہے۔ پینترے بدل بدل کر حملے کرائے جارہے ہیں مگر فتح حاصل نہیں ہورہی۔ اسٹیبلشمنٹ بھی سوچتی ہو گی کہ کیا بھلا وقت تھا کہ جب میڈیا اور ججوں کو ساتھ ملا کر حکومت کو مکھن میں سے بال کی طرح نکال دیا جاتا تھا۔کہیں سے کوئی شور اٹھتا تھا نہ ہی جوابدہی کے خدشات لاحق ہوتے تھے۔ اب کیسے ڈھیٹ حریفوں سے سامنا ہے جو آسانی سے تو کجا باقاعدہ بازو مروڑنے کے باوجود بھی قابو نہیں آرہے ۔جمہوری شعور کے حوالے سے عام لوگوں کے تیور بھی بدلے بدلے سے نظر آتے ہیں۔

ایک پہلو یہ بھی ہے کہ 70سال سے ایک ہی گروہ کو مسلسل اقتدار میں دیکھ کر دوسرے طبقات اکتا سے گئے ہیں۔ دھونس اور دھمکیوں کا خوف کم ہوتا جارہا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دینے والی قوتیں بھی عام عوام کی طرح تقسیم ہو چکی ہیں۔ اس ’خرابی‘ کا آغاز ویسے تو جنرل مشرف کے دور میں ہی ہو گیا تھا۔ بعد میں آنے والے نے نہایت احتیاط سے حل نکالنے کی کوشش کی مگر ہر گزرتے دن کے ساتھ معاملہ مزید الجھتا چلا گیا۔ پیپلز پارٹی کا 5سالہ دور تو جیسے تیسے گزر گیا۔ 2013 ءکے عام انتخابات کے بعد ن لیگ خصوصاً وزیراعظم نواز شریف کو اہل خانہ سمیت نشان عبرت بنانے کیلئے پلان تیار کر کے عمل درآمد کرانا اس لیے بھی ضروری تھا کہ جمہوریت کا مذاق کہیں سنجیدہ نہ ہو جائے۔ عام انتخابات کے بعددھاندلی کے نام پر دھرنے، دنگے کروائے گئے۔ نواز شریف خاندان کو دنیا کاکرپٹ ترین خاندان قرار دینے کی مہم چلی۔ کبھی مودی، کبھی امریکہ کا یار، یعنی سیدھا سیدھا غدار۔ کام ڈالنے والوں نے یہ نہیں سوچا کہ جب آپ کسی کو گھیرے میں لے کر گرانے کی کوشش کریں گے تو بچاﺅ کیلئے ہاتھ پاﺅں وہ بھی مارے گا۔ اسٹیبلشمنٹ اپنے پرانے ہتھیاروں میڈیا اور عدلیہ کے ذریعے حملہ آور ہوئی تو جوابی اقدامات بھی ہوئے۔ سب کی بدنامی ہونے لگی۔ میڈیا کس طرح سے تقسیم ہے وہ پوری قوم کے سامنے ہے۔ چلیں جج صاحبان کا ذکر نہیں کرتے مگر وکلاءبرادری کی ایک بڑی تعداد تو کسی بھی غیر جمہوری اقدام کی سخت مخالف ہے۔ اگرچہ اس وقت میڈیا اور قانونی حلقوں سے ن لیگ کو بہت زیادہ حمایت حاصل نہیں مگر یہ بھی تو اس کا دفاع ہی ہے کہ مارشل لاءکا نفاذ ناممکن ہو چکا۔ ٹیکنو کریٹس سیٹ اپ خواہ اس کی سربراہی جنرل راحیل شریف جیسا ’عظیم جنرل‘ ہی کیوں نہ کرے بنانا کسی طور آسان نہیں۔ کیونکہ ایسا کوئی بھی نظام لانے کیلئے توثیق یا منظوری عدلیہ سے ہی کرانا ہو گی۔ ججوں کو بھی بخوبی علم ہے کہ فرمائشیں پوری کرنے کی آخری حد کیا ہے؟

کسی طرح کے غیر جمہوری عمل کو وکلاءمانیں گے نہ معاشرے کے دیگر طبقات۔ سارا معاملہ محاذ آرائی کی طرف چلا جائے گا۔ نواز شریف کو مائنس کر کے اقتدار اگر ن لیگ کو ہی سونپنا ہے تو یہ بیل منڈے چڑھتی نظر نہیں آتی۔ سانحہ ماڈل ٹاﺅن اور حدیبیہ پیپرز ملز جیسے مقدمات کھول کر شہباز شریف کو بھائی سے بغاوت پر آمادہ کرنے کی کوشش شاید ہی کامیاب ہو۔ شریف برادران کو جیلوں میں ڈال کر سبق سکھانے کا عمل ملکی استحکام کیلئے کس قدر معاون ثابت ہو گا اس کا اندازہ پلان تیار کرنے والوں کو پہلے ہی کر لینا چاہیے۔ اب تحریک انصاف اور شیخ رشید سے کہا جارہا ہے کہ نئے الیکشن کا نعرہ بلند کیا جائے۔ تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے اس کی مخالفت کر دی ہے۔ این اے 120 کے الیکشن کے بعد ایک اور خطرناک بحث جاری ہے کہ اگلے عام انتخابات کس کی نگرانی میں کرائے جائیں گے؟ ن لیگ اگر اداروں کو فریق قرار دے رہی ہے تو پھر یہ سلسلہ کہاں جا کررکے گا۔ ن لیگ اکیلی نہیں اس کے ساتھ اتحادی جماعتیں بھی ہیں۔ آصف زرداری کو دوست بنا کر مفادات پہنچانے کے بعد مقتدر حلقوں نے اب اچانک اپوزیشن لیڈر بدلنے کیلئے تحریک انصاف کو ہلا شیری دے دی ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان (جو اصل میں الطاف گروپ ہی ہے) کو پی ٹی آئی کی بیساکھیاں بننے کیلئے کہا جارہا ہے۔ اس چال کا پیپلز پارٹی پر کیا اثر پڑے گا؟ ایم کیو ایم والے کیا قیمت وصول کریں گے؟ ان سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کی کوشش مزید پیچیدہ راہوں پر لے جائے گی۔ حیرت ہے کہ اس ماحول میں بھی مقتدر حلقوں کو حکومت گرانے کی پڑی ہے۔ حق بات تو یہ ہے کہ ملک کو اس وقت سب سے زیادہ ضرورت سی بی ایم (اعتماد سازی اقدامات) کی ہے۔ ایک طرف تو اعتراض کیا جارہا ہے کہ اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ دوسری جانب شیخ رشیدوں اور ہارون رشیدوں کے ذریعے مخالفین پر گند اچھالا جارہا ہے۔ میڈیا ہاﺅسز میں موجود مخصوص اینکر (جو کسی سے مخلص نہیں) کو استعمال کر کے ملک بھر میں غیر یقینی کی فضا پیدا کی جارہی ہے۔

احتساب سب کا ہو اور منصفانہ ہو تو کوئی ہرج نہیں۔ ملک کا کون سا شعبہ ہے جو کرپشن سے پاک ہے؟ 70 سالہ ملکی تاریخ میں ہم نے یہ بھی دیکھ لیا کہ کوئی ادارہ اپنا احتساب خود نہیں کر سکتا۔ بڑی سے بڑی واردات ہو جائے تو ادارے کی ساکھ اور مورال کے نام پر ساتھیوں کو صاف بچا لیا جاتا ہے۔ ایسے میں صرف دوسرے کے احتساب کے نعرے لگانا کیا معنی رکھتا ہے۔ گولی یا اینٹ مار کر صورت حال کو کنٹرول میں رکھنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ ملک کو سنگین سرحدی خطرات کا سامنا ہے۔ غیر یقینی کی فضا کے باعث معیشت بھی گرتی جارہی ہے۔ کوئی ایک ادارہ اس پوزیشن میں نہیں کہ ملک کو بحران سے نکال سکے۔ باہمی کدورتیں اسی انداز میں بڑھتی رہیں تو وہ دن دور نہیں جب بڑے بڑوں کا رہا سہا بھرم بھی ختم ہو جائے گا۔ وہ باتیں جو اب تک ہونٹوں پر آتے کسی خوف یا احترام کے سبب رک جاتی ہیں کھل کر ہونا شروع ہو جائیں گی۔ مکرر عرض ہے کہ ہماری اپنی غیر ضروری ’ہوشیاریوں‘ کے باعث قوم بری طرح سے تقسیم ہو چکی ہے۔ کوئی دوسرے کی رائے برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں۔ رعونت، ضد اور چالاکی چھوڑ کر اعتماد سازی کے اقدامات نہ کیے تو بحران ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید سنگین ہوتا جائے گا پھر حل کیا اور کیسے نکلے گا۔ اس کی پیش گوئی کرنا ممکن نہیں۔ الجھی ہوئی ڈوریں الگ الگ کرنا وبال جان ہو جائے تو پنجابی میں اس کے لیے ایک جامع لفظ ”گنجل“ استعمال کیا جاتا ہے۔ اللہ نہ کرے، معاملہ وہاں تک پہنچے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).