مرغیوں کی جنت


کی ویسٹ (Key West) فلوریڈا کی ریاست کا ایک جزیرہ شہر ہے۔ یہ میامی ، فلوریڈا سے 129میل اور کیوبا سے 106میل کے فاصلے پر ہے۔ اس چھوٹے سے شہر میں انٹرنیشنل ائیر پورٹ بھی ہے کہ یہ ٹورسٹ کی پسندیدہ جگہوں میں سے ایک ہے۔ یہ ایک تاریخی شہر ہے۔ اس میں امریکہ کی خانہ جنگی کے دوران یونین کی سائیڈ کی نیوی کی بیس تھی یہاں امریکہ کی صدر ہیری ٹرومین کا سردیوں کا گھر موجود ہے۔ امریکہ کے مشہور نوبل پرائز یافتہ ادیب، ارنسٹ ہمنگوے کا گھر بھی یہاں ہے۔ یہ 1822 میں امریکہ کے کنٹرول میں آیا ۔ اس کی آبادی  27,000 کے لگ بھگ ہے یہ شہر اپنی نائٹ لائف، تاریخی جگہوں اور بازاروں کی وجہ سے قابل دید ہے۔ مگر مجھے اس شہر کی جس بات نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ یہاں کے مرغے، مرغیاں تھے جو کہ گلیوں اور سڑکوں پر بڑے طمطراق سے گھوم رہے تھے ۔ ایک د فعہ تو یہ نظارہ دیکھا کہ سٹرک پر بڑی دیر تک ٹریفک جیم ہو گئی کہ ایک مرغی اپنے چوزوں کے ساتھ سٹرک کراس کر رہی تھی۔

امریکہ میں جانوروں پر ظلم کے جرم میں آپ کو سزا ملتی ہے۔ مگر بزنس کے معاملے میں اور لیب میں جانوروں پر تجربات میں بڑے پیمانے پر ہونے والے ظلم کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ یہاں پر فارمی مرغیوں کو تنگ جگہوں میں بہت سے دوسری مرغیوں کے ساتھ بند کر کے رکھا جاتا ہے اور وہ کبھی بھی آزادانہ گھوم پھر نہیں سکتیں ۔ اُن کے اس طرح اکٹھے بند ہونے سے اُن کے درمیان بیماریاں تیزی سے پھیلنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ جس سے بچنے کیلئے اُن کو خوب اینٹی بائیوٹک دی جاتی ہے۔ جو پھر اس مرغی کے کھانے والے کے سسٹم میں بھی چلی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے اُس کے بیمار ہونے کی صورت میں عام اینٹی بائیوٹک اثر نہیں کرتی ۔ جانوروں کے حقوق کی تنظیمیں اس پر احتجاج کرتی رہتی ہیں ۔ کچھ نے لوگوں کو ایسے فارمز اور لیبز کے وڈیو دکھائے ہیں تاکہ عوام میں اس ظلم کے خلاف شعور پیدا ہو لہٰذا بہت سے لوگ اس بارے میں آگاہی رکھتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ صرف آزادی سے کھلے پھرنے والے (فری رومنگ) مرغیوں کے انڈے اور گوشت کھائیں۔ فری رومنگ مرغیاں اور انڈے نسبتاً مہنگے اور بعض اوقات عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہوتے ہیں ۔ بہت سے لوگوں نے گوشت کھانا چھوڑ دیا ہے کہ بہت سی سائنٹیفک ریسرچ نے یہ ثابت کیا ہے کہ سبز یاں، فروٹ، دالیں، لوبیا، گری دار میوے (بادام، اخروٹ) کھانے سے انسان صحت مند رہتا ہے اور اُس کا وزن بھی کنٹرول میں رہتا ہے۔

میں نے جب کی ویسٹ میں ان مرغیوں کو اس رعونت سے چلتے دیکھا جیسے یہ گلیاں اُنہوں نے خرید رکھی ہیں تو سوچا کہ شاید ان لوگوں نے مرغوں کے فری رومینگ ہونے کو بہت سنجیدگی سے لے لیا ہے ۔ میں نے وہاں کے ایک دوکاندار سے کہا کہ مجھے اُس کے شہر کے مرغے مرغیاں کھلے پھرتے ہوئے بہت اچھے لگے ہیں ۔ وہ تو بہت بھرا بیٹھا تھا۔ کہنے لگا کہ اگر مجھے یہ مرغے ، مرغیاں پسند ہیں تو میں اُن کو اپنے ساتھ لے جائوں۔ کہنے لگا کہ یہ مرغیاں اُس کے لان میں بوئی سبزیوں اور پھولوں کے بیج کھا جاتی ہیں، اُس کے گھر میں گھس کر بِیٹھیں کر جاتی ہیں مگر وہاں کبھی انڈے نہیں دیتیں اور مرغے صبح سویرے بانگیں دے کر اُس کی نیند میں خلل ڈالتے ہیں ۔ میں نے پوچھا کہ یہ مرغیاں کس نے پال رکھی ہیں تو اُس نے بتایا کہ یہ کسی کی ملکیت نہیں ہیں ۔ یہ جپسی (خانہ بدوش) مرغیاں ہیں اور اصل معنوں میں آزاد ہیں ۔ میں نے پوچھا کہ لوگ ان کو پکڑ کر ذبح کیوں نہیں کرتے تو کہنے لگا کہ کی ویسٹ شہر میں ان آزاد مرغیوں کو مارنا غیر قانونی ہے۔

میں نے بعد میں اس موضوع پر کچھ اور ریسرچ کی تو معلوم ہوا کہ امریکہ کی چند اور ریاستوں کے کچھ علاقوں میں بھی اس طرح کی آزاد مرغیاں موجود ہیں ۔ مگر جس طرح یہ کی ویسٹ میں پھرتی ہیں اُس نے اس شہر کو ایک خاص وضع اور رنگ دیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان مرغیوں کو کیوبا اور باہاما سے لوگ اپنے ساتھ لائے تھے۔ یہ کافی عرصے تک اپنے انڈوں اور گوشت کے لئے استعمال ہوتی رہیں۔ کیوبا کے لوگوں کو مرغ لڑانے کا بھی شوق تھا۔ مگر 70 کی دہائی میں اس پر پابندی لگا دی گئی کہ یہ جانوروں پر ظلم کے زمرے میں آتا ہے۔ پھر شہر میں سپر مارکیٹ کھل جانے سے انڈے اور مرغی کا گوشت بآسانی سے دستیاب ہوگئے تو یہ مرغیاں گلیوں میں آزادانہ گھومنے لگیں ۔ شہر کے بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ انسانوں کے طرح جانوروں کو بھی آزاد رہنے کا حق ہے۔ لہٰذا شہر کے قانون میں باقی جنگلی جانوروں کے ساتھ ان مرغیوں کے مارنے پر بھی پابندی لگا دی گئی ۔

ایک اندازے کے مطابق کی ویسٹ میں آزادانہ پھرنے والی مرغیوں کی تعداد 2 ہزار کے قریب ہے۔ بسااوقات کچھ انسانوں اور مرغیوں کے درمیان تنازعہ شدت اختیار کر جاتا ہے۔ اس صورت میں انسان کے پاس یہ حل ہے کہ وہ کی۔ویسٹ وائلڈ لائف سنٹر کو کال کرے اور بتائے کہ کچھ مرغیوں نے اُس کا جینا حرام کر دیا ہے۔ وائلڈ لائف والے پھر اُن مرغیوں کو پکڑ کر لے جاتے ہیں اور اُن کو آرگینک فارم پر انڈے دینے اور کیٹرے کھانے کے کاموں پر لگا دیتے ہیں ۔ مگر اُن کو مار نہیں سکتے ۔ فارم والے ان مرغیوں کو بہت پسند کرتے ہیں کہ اس طرح اُن کو کیڑوں کیلئے زہریلی کیڑے مار ادویات کا استعمال نہیں کرنا پڑتا ۔ وائلڈ لائف والے زخمی اور بیمار مرغیوں کو بھی لے جا کر اُن کا علاج کرتے ہیں ۔

جب مرغیوں کی تعداد بہت زیادہ ہوجائے تو مرغیوں کے حقوق کے پاسبان اور مرغیوں سے متنفر لوگوں میں چپقلش پیدا ہو جاتی ہے۔ بہت سال پہلے اس جنگ کے نتیجے میں کی ویسٹ سٹی نے ایک شخص کو مرغیاں پکڑنے کیلئے ملازم رکھا کہ شہر میں ان کی تعداد کم ہو۔ یہ اعلان کیا گیا کہ ان مرغیوں کو ایک فارم پر بھیجا جائے گا۔ مگر شہر کے مرغ دوست لوگوں کو شک ہو گیا کہ فارم وغیرہ کی کہانی جھوٹی ہے اور یہ دراصل مرغیوں کے قتل کی بہت بڑی سازش ہے۔ لہٰذا اس سازش کو ناکام بنانے کیلئے مرغی دوست متحرک ہو گئے اور اُنہوں نے شہر میں مرغیوں کو پکڑنے والے جالوں کو بے اثر بنا دیا ۔ اس کے نتیجے میں سٹی کا ملازم مرغیوں کو پکڑنے میں ناکام ہو گیا اور اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھا۔

ایک دفعہ شہر میں لوگوں کو مرغیوں کے بارے میں اپنے خیالات لکھنے کو کہا گیا ۔ کچھ لوگوں نے مرغیوں کو بہت بُرا بھلا کہا کہ اِن مرغیوں نے ان کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے ۔ ایک آدمی نے لکھا یہ غلط ہے کہ مرغے صرف صبح بانگیں دیتے ہیں ۔ وہ تو صرف اُس وقت بانگیں دیتے ہیں جب وہ سونے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔ ایک نے لکھا کہ اگرچہ مرغیاں بے زبان ہیں مگر اُن کو بھی اپنی جان اور آزادی اُسی طرح پیاری ہے جس طرح ہمیں پیاری ہے۔ وہ بھی اُسی طرح درد محسوس کرتی ہیں جس طرح ہم کرتے ہیں ۔ ایک نے لکھا کہ انسان بے زبان جانوروں پر ظلم کرکے انسانیت کے دعوے کس طرح کرتا ہے ۔ ایک نے لکھا کہ جس کو اِس شہر میں آزاد مرغیاں پسند نہیں ہیں وہ شہر چھوڑ جائیں کیونکہ مرغیاں اس شہر میں اُن سے پہلے آئی تھیں۔

میں نے شہر میں پھرتے ہوئے یہ دیکھا کہ مرغے، مرغیاں کسی خاص گلی میں زیادہ نظر آ رہے ہیں ۔ شاید وہاں مرغی دوست رہتے ہوں جو اُن کو دانہ اور پانی مہیا کرتے ہیں ۔ مجھے لگا کہ یہ مرغیاں بہت اطمینا ن اور نازو انداز سے گلیوں میں گھوم رہی ہیں ۔ مرغے اعتماد سے سر اونچا کر کے پھر رہے ہیں ۔ان سب کے چہروں پر ایک طمانیت اور تمکنت پائی جاتی ہے۔ جو کہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب آپ کو یقین ہو کہ آپ اپنے شہر میں اپنی مرضی کی زندگی گزار سکتے ہیں ۔ آپ کو یقین ہو کہ یہ شہر آپ کے لائف سٹائل اور لائف کو تحفظ دے گا۔ مجھے یقین ہے کہ وہ کبھی کبھار جنگلی جانوروں مثلاً لومڑی وغیرہ کے ہاتھوں شکار ہو جاتی ہو نگی ۔ مگر اس قسم کے حادثے اُس زندگی سے تو بہتر ہیں جو آپ ایک پنجرے میں بند ہو کر کسی دوسرے کے کنٹرول میں گذارتے ہیں۔

مجھے یقین ہے کہ انسان مستقبل میں کوئی ایسی خوراک دریافت کر ے گا جو کہ غذائیت سے بھرپور ہوگی ۔ مثلاً سمندر سے نکالے جانے والے Seaweeds کی طرح کی غذا جو اتنی مقدار میں ہوگی کہ پھر جانوروں کو ذبح کرنے کے لیے پالنے کی ضرورت نا رہے گی۔ پھر مستقبل کا انساں اپنی کتابوں میں ہمارے عہد کے لوگوں کے جانوروں پر بربریت کی داستانوں کو پڑھ کر اُسی طرح حیران ہوگا جس طرح ہم پرانے زمانے کے لوگوں کے آدم خور ہونے پر حیران ہوتے ہیں۔ اُس وقت کے آنے تک کی۔ ویسٹ مرغیوں کی وہ جنت ہے جس کے رہنے والوں پر باقی دنیا کی مرغیاں رشک ہی کر سکتی ہیں ۔اور یہ امید کر سکتی ہیں کہ ایک روز اُن کی آئندہ نسل کے لیے آزادی کی روشن صبح طلوع ہو گی اور وہ سب کی ویسٹ جیسی جنت میں ہمیشہ کے لیےآباد ہو جائیں گے۔

ڈاکٹر غزالہ قاضی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر غزالہ قاضی

Dr. Ghazala Kazi practices Occupational Medicine (work related injuries and illnesses) in USA. She also has a master’s degree in Epidemiology and Preventive Medicine.

dr-ghazala-kazi has 35 posts and counting.See all posts by dr-ghazala-kazi