مشال خان کے والد کا انٹرویو


ہارون رشید ۔ بی بی سی اردو۔
بر صغیر میں ہر انسان نہ صرف ہر روز، ہر ہفتے، ہر ماہ اور ہر سال جینے کی جد مسلسل میں پھنسا رہتا ہے بلکہ ساتھ میں مستقبل خاص طور پر بڑھاپے کا بھی بندوبست کرتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کے برعکس جہاں ریاست بڑھاپے میں آپ کا بوجھ اٹھاتی ہیں یہاں اس خطے کے متوسط طبقے میں اس سب کے لیے اولاد پر تکیہ کیا جاتا ہے۔ لیکن جب یہ اولاد ہی آپ سے چھین لی جائے تو کوئی بھی والد یا ماں دائمی صدمے سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ لیکن پھر محمد اقبال جیسے مضبوط اعصاب کے انسان بھی اس ہی دنیا میں پائے جاتے ہیں۔

محمد اقبال اب نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک میں بھی جانی پہچانی شخصیت بن چکے ہیں۔ وہ مشال خان مقدمے کا چہرہ بن چکے ہیں۔ تیرہ اپریل 2017 کو تئیس سالہ مشال خان کی مردان میں ولی خان یونورسٹی میں ایک ہجوم کے ہاتھوں بےرحمانہ ہلاکت کے واقعے نے سب کو ہلا کر رکھا دیا تھا۔

ہر کوئی گریبان ٹٹولنے لگا کہ ایک درس گاہ میں یہ قتل کیسے ممکن ہے۔ ایسے میں محمد اقبال کو بیٹے کی خون سے لت پت لاش کو اس کی ماں کو دکھانے سے پہلے غسل دینا پڑا۔ تدفین کے بعد نے میڈیا پر آکر جو جذبات سے پاک، سنجیدہ، مدلل اور بالغ ردعمل دیا اس نے ہر ایک کو حیران کر دیا۔ بی بی سی کے ساتھ اپنے پہلے انٹرویو نے انھوں مرزا غالب کا ایک شعر پڑھ دیا:

شرع و آئین پر مدار سہی
ایسے قاتل کا کیا کرے کوئی

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس ملک میں اظہار رائے پر مکمل پابندی ہے۔ ’مار بھی دیا اور الزام بھی ایسا لگایا۔ محبت اور امن کے راستے میں سب کو اکھٹا ہونا ہوگا۔ ہر گھر میں تعلیم کی مشعل موجود ہے۔ ہمیں انہیں بچانا ہے۔‘

محمد اقبال میٹرک پاس ہیں لیکن کہتے ہیں ادب میں آنرز بھی دو تین امتحان دے کر پاس کیا ہوا ہے۔ لیکن اس شخص کی باتیں یقینا کسی اعلی تعلیم یافتہ سوچ رکھنے والے سے کم نہیں۔ ان کی گفتار کے علاوہ طرز گفتار بھی قائل کرنے والی محسوس ہوتی ہے۔ لگتا نہیں کہ صوابی کے ایک گاؤں کا تاجر اس قسم کی سوچ اور مسائل پر نظر رکھتا ہے۔

اس شخص اور ان کے خاندان کا تعلق خیبر پختونخوا میں دریائے سندھ اور کابل کے درمیان زرخیز زمین صوابی ہے۔ یوسفزئی پشتونوں کا آباد کیا ہوا یہ ضلع صوبے کا آبادی کے اعتبار سے چوتھا بڑا ضلع ہے۔ اکثر کا ذریعے معاش زراعت خصوصا تمباکو ہے تاہم دیگر فصلیں بھی اچھی ہوتی ہیں تو یہاں تعلیم بھی کافی عام ہے۔ پشاور کی اہم ترین درسگاہ کی بنیاد یہیں پیدا ہونے والے سر صاحبزادہ عبدالقیوم جیسے شخص نے رکھی تھی۔ مضبوط تعلیمی پس منظر ہی یہاں کی پہچان نہیں بلکہ یہ علاقہ جنگجو بھی پیدا کرچکا ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا بہادری کا ایواڈ یہیں کے معرکہ کارگل کے کیپٹن کرنل شیر خان کو ملا تھا۔

یہاں کے زیدہ علاقے کے بابوخیل میں تمام زندگی بلکہ بقول ان کے ازل سے بیتانے والے محمد اقبال کا تاہم لڑائی جھگڑے سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ وہ ایک چھوٹا تاجر تھا جو کارخانوں سے مال لے کر گلگت بلتستان جیسے علاقوں میں بیچتا تھا۔ پشتو زبان میں شاعری اس کا محبوب مشغلہ آج بھی ہے۔ بی بی سی اردو کے ساتھ ایک نشست میں ان کا کہنا تھا کہ اکثر لوگ ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ ایسا شاعر ہے جو اپنی محنت مزدوری کرتا ہے اور حلال کمائی کھاتا ہے۔ ’میں نے حرام کبھی نہیں کھایا۔ ماضی میں اراضی بہت تھی لیکن اب کم ہوگئی ہے۔ ہماری وجہ سے نہیں کسی اور کی وجہ سے۔‘

’مشالہ تہ پے گڑم شوئے، چہ غلاگروں تہ دے غل اوئے
تا جبر دے تاریخ پہ اخپل سر پہ بدل اوئے‘

ترجمہ: مشال تم ملامت ہوئے جو چوروں کو چور کہہ دیا
تم نے تاریخ کا جبر اپنے سر کے بدلے بول دیا

یہ وہ شعر ہیں جن کی آمد، محمد اقبال پر اپنے جوان سال بیٹے مشال خان کی موت کے بعد ہو رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ آٹھ دس بلکہ اس سے بھی زیادہ شعر اپنے بیٹے کی یاد میں کہہ چکے ہیں لیکن بڑھاپے کی وجہ سے یاد نہیں رکھ پاتے ہیں۔ انھوں نے گھر سے یہ شعر لانے کا اصرار کیا لیکن ہم نے جو یاد ہے وہی سنانے پر اکتفا کیا۔ پوچھا کافی شہرت ملی اس واقعے اور اس کے نتیجے میں تحقیقات کو تو مزید نقصان پہنچنے کا خدشہ تو نہیں ہے تو ان کا کہنا تھا کہ جو طاقتور قوتیں مشال کے قتل کے پیچھے تھیں وہ دوبارہ بھی ایسا کر سکتی ہیں۔ خدشہ تو ہے۔

اسی انجانے خوف کی وجہ سے محمد اقبال کی دو بیٹیاں گھر بیٹھ گئی ہیں اور تعلیم جاری رکھنے سے قاصر ہیں۔ دونوں نے مشال کے قتل کے واقعے کے دوران نوئیں اور بارہویں کلاس کے امتحان دیئے تھے اور اچھے نمبروں سے پاس ہوئی ہیں لیکن سکیورٹی خدشات ہی کی وجہ سے اب سکول نہیں جا پار رہی ہیں۔ محمد اقبال کی صوبائی حکومت سے انہیں اسلام آباد منتقل کرنے کی درخواست پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوا ہے۔ حکومت کی جانب سے اس خاندان کی سکیورٹی یقینی بنانے کی خاطر چھ پولیس اہلکار تعینات کیے ہوئے ہیں۔

پوچھا علاقے کے خصوصا محلے کے لوگوں کا ردعمل اس تمام تر صورتحال میں کیا رہا ہے، تو محمد اقبال نے بتایا کہ واقعے کے بعد چونکہ اس پر توہین مذہب کا الزام لگایا گیا تھا تو مشکلات تھیں۔ ’وقت کے ساتھ ساتھ خصوصا مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کے منظر عام آنے کے بعد یہ بادل چھٹ گئے۔ اب تو محلے کے چھوٹے چھوٹے بچے کہتے ہیں کہ مشال شہید ہے، مشال بےگناہ ہے۔ اب لوگوں کو سمجھ آگئی ہے۔‘

محمد اقبال کی حفاظت کے لیے تعینات ایک پولیس اہلکار سے بھی بات ہوئی تو اس کے منہ سے بھی غیرارادی طور پر مشال خان شہید نام نکلا۔ مہمان نوازی کا یہ حال کہ ابھی کولڈ ڈرنک حلق سے نیچے نہیں اتری تھی کہ گرم گرم چائے بھی میز پر سجا دی۔

محمد اقبال نے بتایا کہ اس واقعے کے بعد ملک بھر سے لوگ اظہار افسوس کے لیے آئے اور یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔ ان میں ہندو بھی تھے، سکھ بھی اور اہل تشیع بھی۔ تصوف اور تبلیغ والے بھی آئے۔ ’بدقسمتی یہ ہے اس ملک میں کہ کہ جو بھی یہاں امن کی بات کرتا ہے، چاہے وہ سیکولر ہے، تبلیغی ہے یا صوفی ہے اسے قتل کر دیا جاتا ہے۔‘

اس ہمدردی کو چند سیاسی جماعتوں نے کیش کرنے کی کوشش کی لیکن محمد اقبال نے اس کی اجازت نہیں دی۔

جواں سال بیٹے کی موت کتنا بڑا سانحہ ہے ان کے لیے تو انھوں نے ایک مرتبہ پھر بڑا نپا تلا جواب دیا: ’مشال تو میرا اثاثہ تھا۔ وہ اثاثہ ہم سے چھین لیا گیا۔ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ ہر بچے کا مستقبل روشن ہو۔‘

اقبال کا مشال کے علاوہ ایک بڑا بیٹا اور دو بیٹیاں بھی ہیں۔ ’میں بیٹے یا بیٹی میں فرق نہیں کرتا۔ جو تعلیم حاصل کرکے آگے جاسکتا ہے وہ ہی اچھا ہے چاہیے بیٹا ہو یا بیٹی۔ جب میری بیٹی ستوریہ اقبال پیدا ہوئی تو میں نے خوشی میں یہاں ایک مشاعرہ منعقد کروایا تھا، چھ بسکٹ کے کارٹن تقسیم کیے تھے اور چھ دیگیں پکوائی تھیں۔ ساٹھ شاعروں کو بلایا تھا اور یہاں ہجرے میں تقریریں کی تھی حالانکہ ہمارے معاشرے میں اسے اچھا تصور نہیں کیا جاتا ہے۔‘

والد کو بھی یقین ہے کہ ان کے بیٹے کے قتل کی بڑی وجہ اس کا متحرک، فعال اور بےباک ہونا تھا۔ ’یہ اعتراف تو جے آئی ٹی کی رپورٹ میں بھی تھا کہ وہ بہت آگے جانے والا تھا۔ نادیدا قوتیں تو بہت دور کی سوچتی ہیں۔ انھوں نے کہا ہوگا کہ بعد میں علاج کیا کرو گے ابھی سے مار دو۔ کتنوں کو وہ ماریں گے؟‘

اس قتل کے اسباب کیا تھے؟ وہ کہتے ہیں کہ ’ایک تو یہ سامنے والے ہیں جو بچے ہیں اور یونیورسٹی ہے جنہوں نے ہمارا مستقبل بھی تباہ کر دیا۔ لیکن اصل لوگ تو وہ تھے جو اس کے پیچھے تھے۔ اس کے پیچھے سیاسی ہاتھ ہے۔ یہ وہی بیانیہ ہے جو تقریبا چالیس سال سے جاری ہے۔ اس کے پیچھے مذہبی گروپس بھی تھے۔ پھر یہاں کے نصاب میں زہر موجود ہے۔‘

مشتبہ افراد جن پر قتل کا الزام ہے کیا ان کے والدین نے اب تک کسی صلح صفائی کے لیے رابطہ کیا ہے تو ان کا جواب تھا کہ نہیں ابھی تک تو کسی نے بات نہیں کی ہے۔ ’نہیں وہ میرے پاس نہیں آسکتے ہے۔ انہیں میرے بارے میں اچھی طرح معلوم ہے کہ میں بہت صبر والا ہوں لیکن ظلم برداشت نہیں کرسکتا ہوں۔‘

پوچھا کہ سات ماہ کا عرصہ اس واقعہ کو ہوچکا ہے تو کتنا یاد آتا ہے اور اس کی کونسی بات زیادہ یاد آتی ہے تو انھوں نے بتایا کہ اس کی ماں نے تو اچانک علیحدہ کمرے میں چیخیں مارنا شروع کر دیتی ہے۔ وہ تو میرا ایک عظیم بیٹا تھا میں نے تو اسے سلیوٹ بھی کیا ہے۔ ایک آدمی گھر میں لڑتا نہیں ہے۔ اخلاق سے پیش آتا ہے۔ بہنوں کو اولاد کی طرح پیار دیتا تھا۔ اس کے بائیں بازو پر ایک پیدائشی نشان تھا جسے ہم اللہ سمجھ کر پڑھتے تھے۔‘

اس موقعے پر محمد اقبال کی آواز بھاری ہوگئی لیکن انھوں نے گفتگو جاری رکھی اور اس کا احساس نہیں ہونے دیا۔ کسی ہمسائے کے ہجرے میں ہونے والی ملاقات کے دوران تبلیغی جماعت بھی گلی میں سے گزری۔ لیکن نہ انھوں نے نہ ہم نے کسی کا نوٹس لیا۔ جب گفتگو ختم ہوئی تو ہم سے نظریں چرا کر انھوں نے اپنی کندھے سے اتار کر گود میں رکھی چادر سے آنکھیں صاف کر لیں۔
’اس کو تو ہم نے یونورسٹی بھیجا تھا جو محفوظ جگہ سمجھی جاتی تھی۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp