ڈرائیونگ سے ورجینیٹی ختم ہو جائے گی؟


سعودی عرب میں ایک تاریخی فیصلے کے تحت خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت دی گئی ہے اور ملک کے فرما روا شاہ سلمان نے خواتین پر عائد ڈرائیونگ کی پابندیوں کو ختم کرنے کا حکم دیا ہے۔

سعودی عرب کی پریس ایجنسی کے مطابق ملک کی مختلف وزارتوں کو اس معاملے میں تیس دن کے اندر اندر ایک رپورٹ تیار کرنی ہے اور یہ تازہ حکم نامہ جون 2018 سے نافذالعمل ہوگا۔

سعودی عرب میں پہلے خواتین پر ڈرائیونگ کی پابندی بس ایک روایت کے طور پر ہی تھی، لیکن بعد میں جب اس پر بحث شروع ہوئی تو حکومت نے سنہ 1990 کے دوران اس پر باقاعدہ پابندی عائد کر دی تھی اور اسی کے بعد ہی اس کے خلاف احتجاج بھی شروع ہوا۔

پہلی بار 6 نومبر 1990 کو 47 خواتین نے اس پابندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس کا بائیکاٹ کیا۔ بطور احتجاج ان خواتین نے دارالحکومت ریاض کی سڑکوں پر گاڑی چلائی جس کے بعد انھیں گرفتار کر لیا گیا تھا۔

اس واقعے کے بعد ملک کے سینیئر علما پر مشتمل ایک کونسل نے فتویٰ جاری کر کے خواتین کی ڈرائیونگ کو روکنے کی کوشش کی۔ اس فتوے میں خواتین کی ڈرائیونگ کو غیر مناسب اور منفی نتائج کا حامل قرار دیا گيا تھا۔

اس میں کہا گیا تھا کہ اس سے مردوں اور عورتوں کے درمیان قربت اور اختلاط میں اضافہ ہوگا اور مخالف جنس کی طرف رغبت کا با‏عث بنے گا۔

اس کی مخالفت کرنے والی خواتین کو گرفتار اور ان کے پاسپورٹ کو بھی ضبط کیا جانے لگا تھا۔ ان تمام سختیوں کے باوجود خواتین نے اس قانون کے خلاف اپنی آواز بلند کرنا جاری رکھی۔

اس کے خلاف علامتی احتجاج نے 2011 تک پہنچتے پہنچتے ایک مہم کی شکل اختیار کر لی جس کا نام ‘ویمن ٹو ڈرائیو موومنٹ’ تھا۔

اس مہم کے تحت درجنوں خواتین نے کار ڈرائیو کرتے ہوئے اپنی ویڈیوز بنائیں اور سوشل میڈیا پر شیئر کرنا شروع کیا اور پھر یہ مہم سوشل میڈیا پر پھیلتی گئي۔

اسی دوران 2011 میں حکومت کی طرف سے ایک رپورٹ جاری کی گئی جس میں کہا گيا کہ اگر خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دی گئی تو ان کی ورجینٹی ختم ہو جائے گی۔ یہ رپورٹ سعودی عرب کی مجلس شوریٰ نے جاری کیا تھا۔

لیکن خواتین کی جانب سے اس کی مخالفت تیز تر ہوتی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس پابندی کا بنیادی سبب یہ ہے کہ حکومتیں چاہتی ہیں کہ خواتین مردوں کی نگرانی میں رہیں۔

مرد حضرات بھی خواتین کی اس آزادی کے خلاف معترض تھے۔ تین اکتوبر، 2011 کو بی بی سی سے بات کرتے ہوئے 25 سالہ جوان نواف نے کہا تھا: ‘اگر خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دی گئی تو وہ اپنی مرضی کے ساتھ کہیں بھی جا سکتی ہیں۔ یہ پابندی سعودی عرب کے لیے نہیں بلکہ اسلامی شناخت کی بق‍ا کے لیے ہے۔ آج وہ ڈرائیونگ کی اجازت مانگ رہی ہیں، کل وہ مختصر سے لباس پہننے کی اجازت طلب کریں گی۔’

دسمبر 2014 میں سعودی عرب کی سماجی کارکن لجین الحتلول کو گاڑی چلانے کے جرم میں گرفتار کر لیا تھا
خواتین سوشل میڈیا پر بھی متحرک ہونا شروع ہوگئیں اور فیس بک پر ڈرائیونگ کی حمایت کے لیے کئی صفحات بنائے گئے۔ اس مہم کو ٹویٹر اور یو ٹیوب پر پھیلانے کا آغاز ہوا۔

رفتہ رفتہ مردوں کی جانب سے بھی اس مہم کو حمایت ملنے لگی۔ خواتین کے بعض حلقوں نے اس پابندی کے لیے حکومت سے انونی جواز کا مطالبہ کرنا شروع کر دیا۔

خواتین کی یہ طویل جد و جہد رنگ دکھانے لگی اور حکومت نے بھی ان کے مطالبے کو تسلیم کرنے کے بارے میں سوچنا شروع کیا اور بالآخر ان کو ڈرائیونگ کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا۔

سعودی عرب کی پولیس نے دسمبر 2014 میں ملک کی ایک سماجی کارکن لجین الحتلول کو گاڑی چلانے کے جرم میں گرفتار کر لیا تھا۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق، انھیں سرحد پر ملک میں داخل ہونے کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔

ڈرائیونگ کے فیصلے کے بعد سوشل میڈیا پر سعودی خواتین نے خوشی کا اظہار کیا ہے
اس کے رد عمل میں معروف سعودی صحافی ماس العمودی بھی ان کی حمایت میں سرحد پر ڈرائیو کرتی ہوئی پہنچیں اور پھر پولیس نے انھیں بھی گرفتار کر لیا۔

اس کیس کی سماعت کے دوران ایک ذیلی عدالت نے حکم دیا تھا کہ ان خواتین کے خلاف ریاض کی مخصوص انسداد دہشت گردی کی عدالت میں مقدمہ چلنا چاہیے۔

عالمی انسانی حقوق تنظیم، ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت دنیا کے دیگر انسانی حقوق کے علمبردار اداروں نے اس بات پر سعودی عرب پر سخت تنقید کی تھی۔

اس تنقید کے بعد لجین کو 73 دن تک قید میں رہنے کے بعد آزاد کر دیا گیا تھا لیکن اس وقت تک خواتین کے حقوق کے مسائل ایک مہم کی شکل اختیار کر چکے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32550 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp