میر انیس اور ہندوستانی تھیٹر کے چیلینج


میر انیس کا ایک مرثیہ نواب شیفتہ کے سامنے پڑھا گیا، پہلے ہی شعر پہ نواب صاحب کہنے لگے کہ میر صاحب نے اگر پورا مرثیہ نہ پڑھا ہوتا، فقط یہی مطلع بلکہ مطلعے کا بھی پہلا مصرعہ کہہ دیتے تو وہ خود اپنی جگہ ایک مکمل مرثیہ تھا۔ نواب مصطفیٰ خان شیفتہ خود باکمال شاعر تھے، ان کے جیسی داد کوئی سخن شناس ہی دے سکتا تھا۔ وہ مصرعہ تھا، “آج شبیر پہ کیا عالم تنہائی ہے”

انیس ایسے شاعر نہیں تھے جو ایک آدھے شعر یا دو نظموں کی کمائی پر ساری عمر گزار دیں۔ روز ایک نیا معرکہ ہوتا تھا، ایک عالم ان کا نیا کلام سننے کو بے تاب رہتا تھا۔ ہر نئے مرثیے میں کئی شعر ایسے ہوتے کہ سننے والوں کو لگتا کہ جیسے سب کچھ یہیں آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے اور یہی میر انیس کے ہر دل عزیز ہونے کا سب سے اہم راز تھا۔ میر صاحب کا زمانہ وہ تھا جب نصیر الدین حیدر اور واجد علی شاہ اختر جیسے حکمران لکھنئو کو نصیب تھے۔ وہ لوگ ہر فن کے رسیا تھے۔ کیا شاعری، کیا تھیٹر، کیا مصوری، کیا خطاطی، کیا فن تعمیر اور کیا موسیقی، جس بھی میدان کا رخ کیا کرتے، اس فن کے کامل لوگوں سے دربار بھر جاتا۔ چونکہ جوہر شناس تھے اس لیے عموماً فنکاروں کی گزر بسر اچھی رکھنے کا بھی دھیان کرتے اور عزت و احترام میں بھی کوئی کسر نہیں رہنے دیتے تھے۔ تو لکھنئو بنیادی طور پہ ایک سینٹر آف ایکسیلینس بن چکا تھا۔ تھیٹر کی بہت سٹرونگ روایت جڑ پکڑ چکی تھی اور داستان گوئی آہستہ آہستہ زوال کی طرف جا رہی تھی۔

 داستان گوئی میں ہوتا یوں تھا کہ ایک آدمی سٹیج پر یا کسی واضح جگہ پر بیٹھتا اور لوگوں کو مکمل تاثرات اور باڈی لینگوئج کے ساتھ کہانی سنایا کرتا۔ تھیٹر جب آیا تو داستان لوگوں کو بور کرنے لگی کہ نہ کوئی بیک گراؤنڈ ہے، نہ سیٹ ڈیزائن، نہ کاسٹیوم، نہ بہت سے اداکار، نہ وہ ساؤنڈ ایفیکٹس، لوگوں کا مذاق تبدیل ہو چکا تھا۔ ایسے میں بہت بڑا چیلنچ مرثیہ کہنے والوں کے لیے پیدا ہوا ہو گا کہ یار لوگوں کو باندھ کر کیسے رکھا جائے۔ بیٹھنے والا مذہبی عقیدت میں گندھے احترام کے ساتھ سر تو جھکا سکتا ہے لیکن اگلی مرتبہ اس کو آنے کے لیے مجبور کرنا صرف اور صرف پریزینٹیشن پر منحصر ہے۔ داستان گوئی کی طرح مرثیہ پڑھنا بھی ون مین شو ہوتا تھا۔ یہاں ایک ایج یہ ضرور تھا کہ داستان گوئی کو تو تھیٹر ہضم کر رہا تھا لیکن مذہبی تمثیلیں کچھ خاص جڑ نہیں پکڑ سکی تھیں۔ مذہبی واقعات پر بنے ڈرامے ہندو مائتھالوجی میں اس وجہ سے کامیاب ہو جاتے تھے کہ ان کے یہاں مقدس شخصیات خود بت کی شکل میں موجود تھیں۔ تو ان کا چہرہ جب سامنے آتا تھا، کوئی اداکار رام چندر جی بن جاتا یا کہیں سیتا کھڑی ہوتیں تو وہ لوگ مائنڈ نہیں کرتے تھے بلکہ ان کی دلچسپی اسی طرح قائم رہتی تھی۔

اس کے برعکس ایران اور ہندوستان میں جب مسلم مذہبی تھیٹر چلانے کی کوشش ہوئی تو سب سے پہلے تو مسئلہ وہیں کھڑا ہو گیا کہ مقدس ہستیوں کی شکل دکھانا ممکن نہیں تھا۔ پھر سیٹ ڈیزائننگ میں بھی کافی زیادہ دھیان رکھنا پڑتا تھا، اہانت کے پہلو اور عوامی ناپسندیدگی کا خیال اتنا زیادہ ہوتا کہ ڈرامہ بے جان ہو جاتا، تو مرثیہ بہرحال اس لیے تھوڑا سیف زون میں آ چکا تھا اور داستان کا مقابلہ جنرل تھیٹر سے تھا اس لیے وہ آہستہ آہستہ پیچھے ہوتی جا رہی تھی۔ میر انیس کا مرثیہ قدرتی طور پر اپنے اندر مکمل منظر پیش کرنے کا بہت طاقتور گر رکھتا تھا۔ اس بات کو مزید ڈسکس کرنے سے بہتر یہ ہو گا کہ صرف ایک شعر دیکھ کے آگے بڑھا جائے؛

فرما سکے نہ یہ کہ شہ مشرقین ہوں
مولا نے سر جھکا کے کہا، میں حسین ہوں

اب آگے بڑھنا ممکن نہیں ہے۔ دیکھیے مقدس واقعات کو اس طرح پیش کرنا کہ دو مصرعوں میں پورا قصہ ہاتھ باندھے سامنے کھڑا ہو جائے، یہ آسان کام نہیں ہوتا۔ ان دو مصرعوں میں پوری کربلا سمٹ کر سامنے کھڑی ہے۔ گریہ کرنے والی آنکھ ہو تو بھی یہی دو مصرعے کافی ہیں، فنی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو بھی کامل ہیں، اس وقت امام حسین علیہ السلام کی بے کسی اور مجبوری دیکھنی ہو تو بھی سامنے ہیں اور اگر مبنر پہ بیٹھے بیٹھے تحت اللفظ سے ادا کیجیے تو بھی سامنے والوں کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں، یہ ایسا شعر ہے۔

میر انیس کا پڑھنا بلاشبہ ایک الگ مہارت تھی، ان کی مرثیہ خوانی پر بہت جگہ بہت کچھ لکھا ہوا ملے گا لیکن، سوال یہ ہے کہ پڑھا کیا جا رہا ہے۔ اگر کانٹینٹ میں جان ہو گی تو پریزینٹیشن شاندار ہو سکتی ہے ورنہ جتنا مرضی زور لگایا جائے سننے والے کو دوبارہ لا بٹھانا ممکن نہیں ہوتا۔ میر انیس کو ایسا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ حکمرانوں تک کو ایسا کھینچ کے رکھا ہوا تھا کہ ایک بار نواب واجد علی شاہ کی والدہ (ملکہ کشور) نے بلایا تو انہوں نے پیغام بھجوا دیا کہ بھئی مولا کی ذاکری کرنے آئیں گے تو ہم سے درباری لباس نہیں پہنا جائے گا، نہ ہی رسوم کی زیادہ پابندی ممکن ہو گی، منظور ہو تو بلوا لیجیے۔ میر انیس گئے، شروع کیا، “غیر کی مدح کروں شہ کا ثنا خواں ہو کر” ابھی تیسرا شعر پڑھا تھا کہ بادشاہ خود اٹھ کر آ گئے، بے تحاشا داد دی اور بعد میں ادب و احترام سے رخصت کیا۔ تو آخر کچھ تھا جس پر اتنا طنطنہ تھا، رعب تھا، غرہ تھا۔ “کانٹینٹ” اور منظر نگاری وہ دو چیزیں تھیں جن پہ میر انیس کے مرثیے استوار تھے۔

سب جھیلوں میں صحرا کے پرندے تو پڑے تھے
اور دھوپ میں تنہا شہ مظلوم کھڑے تھے

دو مصرعوں میں کربلا کی گرمی، پیاس کی شدت، امام کی مظلومی، صحرا کی رہنے والی مخلوقات کا بیان، جنگ کی کیفیت، بے سر و سامانی کا عالم سبھی کچھ تو میر انیس نے باندھ دیا، اس پر اب کسی پریزینٹیشن کی اہمیت کتنی رہ جاتی ہے؟ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہی شعر جب انیس پڑھتے ہوں گے تو کیا عالم ہوتا ہو گا۔ وہ تو آنکھ کی جنبش سے تلوار کی چمک کا مضمون باندھ دیتے تھے، اس شعر میں تو صرف پڑھت سے ہی کیا کیا امکانات سامنے نہیں آتے۔

گردنیں ڈالے ہوئے چپکے چلے آتے تھے!
آنسو ان گھوڑوں کی آنکھوں سے بہے جاتے تھے

اگر آپ کسی گھوڑے کے ساتھ ہیں اور اسے بتانا چاہتے ہیں کہ بھئی اس کھیت کی سیر ہم دونوں نے کرنی ہے تو آپ سیدھے سبھاؤ اس کے سامنے کھڑے ہو کر اپنا رخ اس طرف کریں گے جہاں جانا ہے۔ سر تھوڑا سا اوپر اٹھائیں گے، تھوڑا سینہ تانیں گے اور ایک قدم آگے بڑھائیں گے۔ اگر گھوڑے کا موڈ ہو گا یا گھوڑا پالتو ہے تو وہ لازمی آپ کے پیچھے چلنا شروع کر دے گا۔ اسی طرح چلتے ہوئے اگر مڑنا ہے تو جس طرف مڑنا ہے، کندھے کو ہلکا سا اچکائیں، گھوڑا اس طرف آپ کے پیچھے مڑ جائے گا۔ پالتو گھوڑوں کے ساتھ واک کرنے کے یہ بالکل سا سے اصول ہیں جو اکثر گھوڑے پال دوست بتا سکتے ہیں۔ عین اسی طرح گھوڑا جب غمگین ہو گا تو وہ گردن جھکا لے گا، چال سے بھی اس کی دل گرفتگی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے لیکن جتنی مرضی لائینیں کالی کر لیں اس طرح دو مصرعوں میں شہیدان کربلا کے لاوارث گھوڑوں کا حال کھینچنا، یہ چیزے دیگر است!

عمر بن سعد کا لشکر جس وقت کربلا میں آتا ہے تو یہ جنگ کے پہلے مناظر میں سے ایک تھا۔ (مسئلہ یہ ہے کہ انیس کے سیناریو پر ہزار صفحوں کی دستاویز بھی کچھ نہیں ہو گی۔ آن لائن لکھتے ہوئے یہ دھیان رہتا ہے کہ پڑھنے والوں کی حد برداشت عام طور پر چودہ سو الفاظ سے بڑھ نہیں پاتی۔ تو وہ منزل جب آتی ہے، نہ چاہتے ہوئے بھی گفتگو روکنی پڑتی ہے۔)
کربلا کا میدان ہے، دشمنوں کی فوج آ رہی ہے، مظلومین حصار میں ہیں، میر انیس ایک ایسے ویوئر کی حیثیت میں کھڑے ہو کر مرثیے کا بند کہتے ہیں جیسے وہ دور کیمرہ سنبھالے ڈاکیومینڑی بنائے جاتے ہیں، بند دیکھیے؛

یہ ذکر تھا کہ دور سے ظاہر ہوئے نشاں
امڈا زمیں پہ ظلم کا دریائے بے کراں
موجوں کی طرح سب تھیں صفیں پیش و پس رواں
لہراتے تھے ہوا سے عَلَم مثل بادباں
ہلتا تھا دشت کیں دہل اس طرح بجتے تھے
باجوں کا تھا یہ شور کہ بادل گرجتے تھے

دور سے غبار اٹھ رہا ہے، فوجی گھڑ سوار آتے دکھائی دے رہے ہیں، لشکر آتا دکھائی دیتا ہے، ختم کہاں ہو گا، کچھ نظر نہیں آتا، ایک سمندر کی لہروں کا سا منظر ہے، دشمن قریب آتے جا رہے ہیں، علم پھڑپھڑاتے نظر آنے لگے ہیں، جنگی نقاروں کی دھمک کان پڑنے لگی ہے، مزید آگے آتے ہیں تو پورے جنگی آرکسٹرا کی تیز آوازیں ماحول پر چھا چکی ہیں ۔۔۔ کتنے کروڑ میں انگریزی فلموں والے یہ سین فلمائیں گے؟ کلام انیس ہر جگہ مل جاتا ہے۔ لاکھوں کے موتی کوڑیوں کے دام ہیں۔ صرف اچھی زبان پڑھنے کے لیے یا منظر نگاری کیا ہوتی ہے، یہ جاننے کے لیے بھی کبھی کبھار کھول لیا جائے تو کیا حرج ہے۔ کلاسیکس بہرحال سیکھنے میں اچھے مددگار ہوتے ہیں۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain