دشمن کا تعین کیسے ہو


ایک اچھے اپوزیشن لیڈر کے طور پر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان حکومت اور مسلم لیگ (ن) پر تنقید کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانتے دیتے۔ انہیں عوام میں مقبولیت حاصل ہے اور وہ اس گمان میں مبتلا ہیں کہ 2018 کے انتخابات میں وہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو پچھاڑ کر وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہو سکتے ہیں۔ کسی بھی سیاستدان کےلئے یہ ایک جائز خواہش ہے کہ وہ برسر اقتدار آنے کےلئے ہرممکن ہتھکنڈہ اختیار کرے۔ تاہم پاکستان میں اس حوالے سے سعی کرتے ہوئے بنیادی اخلاقی اقدار اور قومی ضرورتوں کو بھی نظر انداز کرنے کا رواج عام ہے جو کسی بھی صورت کے جمہوری انتظام کا حصہ نہیں ہو سکتا۔ نیا پاکستان بنانے کے خواہاں اور دعویدار عمران خان کو بھی اس معاملہ میں استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔ حالانکہ نئی نسل کو متحرک کرنے اور سیاسی عمل کا حصہ بنانے کی خوبی رکھنے کے سبب ان سے یہ توقع کی جانی چاہئے کہ وہ نہ صرف پرانے سیاسی کلچر کو تبدیل کریں گے بلکہ ذاتی سیاسی کامیابی اور قومی ضرورتوں کو علیحدہ کرکے دیکھنے کا رویہ بھی سامنے لائیں گے۔

اس وقت عمران خان کی سیاست مایوسی کی علامت بنی ہوئی ہے۔ نواز شریف کی معزولی کے بعد وہ خود کو وزارت عظمیٰ کا جائز اور واحد امیدوار سمجھتے ہیں۔ اس حوالے سے سامنے آنے والی مشکلات انہیں غصیلا اور چڑچڑا بنا رہی ہیں۔ اس مایوسی کا اظہار ان کی وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف کے بیان پر نکتہ چینی اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر تبدیل کرنے کی غیر ضروری کاوش میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے گزشتہ روز نیویارک کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے حقانی نیٹ ورک اور لشکر طیبہ و حافظ سعید کے حوالے سے بعض اعترافات کئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ عناصر پاکستان کےلئے بوجھ ہیں اور ان سے نمٹنے کےلئے حکومت کو کچھ وقت درکار ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے امریکہ کی طرف سے پاکستان سے یک طرفہ مطالبات کا بالواسطہ حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی واضح کیا تھا کہ یہ عناصر 30 برس پہلے امریکہ ہی کی ڈارلنگ تھے اور انہیں امریکہ کی پالیسیوں اور پاکستان میں ان کی اندھی تقلید نے ہی پاکستان کا بوجھ بنا دیا ہے۔ اب ہمیں ان سے نمٹنے کےلئے مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ یہ عناصر طاقتور ہیں۔

خواجہ آصف کا یہ بیان روایتی پاکستانی موقف سے مختلف ہے۔ اس طرح بعض کوتاہیوں کا اعتراف کرکے یہ سفارتی سہولت حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ امریکہ اور اس کے حلیفوں کی غلطیوں کی نشاندہی کی جا سکے اور بھارت کی تخریبی سرگرمیوں کے بارے میں سخت اور دو ٹوک موقف سامنے لایا جا سکے۔ لشکر طیبہ اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف اس قسم کا رویہ اختیار کرنے سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ پاکستان کی مشکلات کے بارے میں صورتحال کی عالمی تفہیم پیدا کرنے کا کام شروع کیا جا سکتا ہے۔

اس لحاظ سے یہ پالیسی قومی مفاد کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ اس سے پہلے پوری دنیا حافظ سعید کو دہشت گرد قرار دیتی رہی ہے لیکن پاکستانی سفارت کار یہ موقف اختیار کرنے پر مجبور ہوتے تھے کہ ان کے خلاف تو کوئی ثبوت نہیں ہے۔ بھارت شواہد فراہم کرے، جنہیں حکومت عدالتوں میں پیش کرے گی اور اگر حافظ سعید یا ان کے ساتھی دہشت گردی میں ملوث پائے گئے تو انہیں سزا مل جائے گی۔ یہ موقف گزشتہ دو دہائی سے فروخت کرنے کی تمام کوششیں ناکام ہو چکی ہیں کیونکہ یہ سچائی کی بنیاد پر نہیں بلکہ سچ کی ایک خود ساختہ تفہیم کی بنیاد پر اختیار کیا گیا تھا۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کا خیال رہا ہے کہ ان اثاثوں کو بھارت کی زور زبردستی کو روکنے کےلئے بوقت ضرورت استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کے برعکس بھارت پاکستان کو دہشت گردوں کا پشت پناہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو رہا تھا۔ اسی لئے ملک میں متوازن سوچ رکھنے والے حلقے مسلسل یہ نشاندہی کرتے رہے ہیں کہ اس حوالے سے پاکستان کو اپنی پالیسی تبدیل کرنی چاہئے ورنہ بھارت عالمی سطح پر پاکستان کی سفارتی تنہائی کا خواب پورا کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔

یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ خواجہ محمد آصف نے نیویارک میں جو موقف اختیار کیا ہے، وہ ان کی ذاتی رائے ہے، ان کی حکومت کی پالیسی ہے یا اس تبدیلی قلب میں فوج کی رائے بھی شامل ہے۔ چونکہ ملک کے وزیر خارجہ نے یہ موقف مدلل طریقے سے اختیار کیا ہے اور بعض اعتراف کرتے ہوئے ان مشکلات کا ذکر بھی پوری قوت سے کیا ہے جو اس حوالے سے پاکستان کو درپیش ہیں، اس لئے اس خوش گمانی کی وجہ موجود ہے کہ فوج بھی اب یہ تسلیم کر رہی ہے کہ دوسرے ملکوں میں تخریب کاری کرنے والے ہر قسم کے عناصر پاکستان کےلئے اثاثہ نہیں بلکہ بوجھ ہیں۔ تاہم ان عناصر کو چونکہ کئی دہائیوں تک پروان چڑھنے کی اجازت دی گئی تھی، اس لئے انہیں ختم کرنے کےلئے سخت محنت کرنا پڑے گی۔ ملک میں دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے والی پاک فوج کو اب بخوبی اس بات کا اندازہ ہونے لگا ہے کہ یہ عناصر اگرچہ پاکستان میں تخریب کاری میں ملوث نہیں ہوتے اور بوقت ضرورت پاک فوج کی حمایت میں قوت کا مظاہرہ بھی کرتے رہے ہیں لیکن معاشرے میں یہ گروہ جن رویوں کو عام اور راسخ کرنے کا سبب بنے ہیں، وہ  بقائے باہمی کے اس بیانیہ سے متصادم ہیں جو قومی ایکشن پلان کے تحت عام کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ اب یہ بات تسلیم کی جا رہی ہے کہ انتہا پسندی کی ہر شکل کو مسترد کئے بغیر پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مکمل کامیابی حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس لئے یہ بات خوش آئند ہوگی اگر پاک فوج ملک کے وزیر خارجہ کے ذریعے اپنے طرز عمل میں تبدیلی کا اشارہ دے رہی ہے۔

اس پس منظر کے باوجود عمران خان سیاسی مقاصد کے حصول میں اس حد تک جذباتی ہیں کہ انہوں نے یہ پیغام دینا ضروری سمجھا ہے کہ خواجہ آصف جیسے وزیر خارجہ کے ہوتے ملک کے دشمنوں کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے صرف یہ کہنے پر اکتفا نہیں کیا کہ وزیر خارجہ نے حافظ سعید کے حوالے سے ایسا موقف کیوں اختیار کیا جو بھارت کے موقف کی تائید کرتا ہے۔ بلکہ اس بیان کو مسلم لیگ (ن) اور نواز شریف کی بھارت نوازی کا شاخسانہ قرار دینا بھی ضروری سمجھا ہے تاکہ وہ بیرون ملک اپنے اثاثوں کی حفاظت کر سکیں۔ عمران خان کے پاس اس جارحانہ اور ذاتی کردار کشی پر مبنی موقف کےلئے نہ تو شواہد ہیں اور نہ وہ اس کی دلیل سامنے لا سکتے ہیں لیکن انہوں نے یہ ضروری سمجھا کہ ایک ایسے بیان کو مسترد کیا جائے جو فوج کے ابھی تک معلوم بیانیہ سے متصادم ہے۔ اس طرح ہوسکتا ہے کہ وہ سیاسی طور پر ملک کے طاقتور سمجھے جانے والے حلقوں کو یہ پیغام دینے کی کوشش کر رہے ہوں کہ وہ نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کے مقابلے میں زیادہ تندہی سے فوج کے موقف کی ترجمانی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس طرح انہوں نے بالواسطہ طور سے یہ تسلیم کیا ہے کہ ملک میں سیاسی تبدیلی کا راستہ صرف عوام کے ووٹوں سے ہی ہموار نہیں ہوتا بلکہ اس کےلئے جی ایچ کیو GHQ کی خوشنودی حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔

ملک کے سیاستدانوں کی سیاسی جاہ پسندی میں کی گئی یہی غلطیاں جمہوریت کا راستہ کھوٹا کرتی رہی ہیں۔ نواز شریف بھی جنرل ضیا الحق کا سہارا لے کر یہ کہتے ہوئے سیاست میں وارد ہوئے تھے کہ وہ فوج کی پالیسی کو نافذ کرنے کی بہتر صلاحیت رکھتے ہیں۔ 30 برس کے سیاسی سفر نے بالآخر انہیں اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہل قرار پانے کے بعد عدالتوں میں اپنے خلاف مقدمات بھگت رہے ہیں۔ انہیں اب یہ ادراک ہوا ہے کہ حب الوطنی اور عوام کے مفادات ہمیشہ فوج کی پالیسیوں کی اندھی تقلید سے حاصل نہیں کئے جا سکتے۔ اسی لئے اب وہ ملک میں جمہوری مزاحمت کی علامت کے طور پر سامنے آ رہے ہیں۔ عمران خان کو دوسرے سیاسی لیڈروں کے تجربات سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ نہ تو عمران خان کے پاس از سر نو تجربہ کرنے اور اس نتیجہ پر پہنچنے کا وقت ہے جس پر نواز شریف اب پہنچے ہیں اور نہ ہی قوم و ملک اس کے متحمل ہو سکتے ہیں۔

ملک میں یہ فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے کہ قومی امور طے کرنے کےلئے سیاسی قیادت اور فوج کے درمیان کس قسم کی افہام و تفہیم ضروری ہے اور منتخب پارلیمنٹ کس حد تک فوج کی فراہم کردہ بنیاد پر قومی پالیسی استوار کر سکتی ہے۔ تاہم یہ کام اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب ملک کے سب سیاستدان اقتدار تک پہنچنے کا راستہ مختصر کرنے کےلئے فوج کا سہارا لینے اور بننے کے رویہ کو ترک کرنے پر آمادہ ہو سکیں۔ عمران خان کو نواز شریف دشمنی میں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ وہ جس قوت کے سہارے آج سیاسی جست لگانے کی خواہش کر رہے ہیں، کل کو وہی ان کے پاؤں کی بیڑی بھی بن سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali