اشک آباد کی شام غارت نہیں ہوئی


گزشتہ کالم میں اشک آباد کی شام کے غارت نہ جانے کا ذکر تو تھا لیکن یہ شام کیسے گزری اس کی تفصیل نہ تھی۔

اس شام کا احوال جاننے میں اور کسی کو دلچسپی ہو نہ ہو بے تکلف دوست اور شفیق بزرگ جیسے استادِ محترم وجاہت مسعود صاحب اورعزیزدوست ظفر عمران کی طبیعت نمکین ضرور تھی۔
خاکسارجب اشک آباد میں شائستہ مزاج پاکستانی سفیر مراد اشرف جنجوعہ سے ملاقات کے لئے پہنچا تو انہوں نے سٹاف سے کہا’’بھائی تڑکے والی چائے لاؤ‘‘۔ سو گزشتہ کالم کو ذہن میں رکھیں تو اشک آباد کے سفر میں اس شام سمیت کچھ اور واقعات بھی تڑکے والے تھے، اس تڑکے کا سواد کچھ او ر سوا ہوتا جب اس تڑکے کے سواد سے محروم ہمارا ہم سفر ’’ڈَمرو‘‘ ہمیں حسد کی نگاہ سے دیکھتا۔ ترکمانستان کے حسن کے گرویدہ تو ہم دوبئی کے ہوائی اڈے پر ہی ہو گئے تھے جب ترکمن خواتین کا ایک گروپ اشک آباد جانے والی پرواز کے انتظار میں عین ہمارے سامنے آبراجا۔ ترکمانستان کی خواتین عربی مردوں کے روایتی لباس جیسا ملبوس پہنتی ہیں لیکن فرق یہ ہے کہ ان کا چست لباس ان کے جسمانی خطوط کو واضح کرتا ہے۔

انہی خواتین میں سے ایک نازنین ہمیں ایسی بھائی کہ فوراً قرآن حکیم کی دو دو اور چار چار والی آیت کی حکمت کا پورا پورا ادراک ہوگیا۔ گورا چٹا کھلتا رنگ، ساڑھے پانچ فٹ سے نکلتا قد، صراحی کی طرح تراشا بھرا ہوا لیکن متناسب جسم اور اس پرپھولوں والا ’’لال جوڑا‘‘۔ اب بھی اگر کسی مرد کا دل نہ مچلے تو میرے مطابق اسے علاج درکار ہے۔ اسی گروپ کی ایک خاتون نے موبائل چارجنگ میں ہماری مدد چاہی تواندھا کیاچاہے دو آنکھوں کے مصداق ہم نے راہ رسم بڑھانے کے لئے گپ شپ شروع کردی۔ حالات کی نزاکت کوبھانپتے ہوئے ڈمرو کی پلکوں نے جھپکنے سے انکار کردیا اور عین ہمارے پاس آکر بت بن گیا۔ لیکن اس وقت ہماری اشک شوئی کرنے والا کوئی نہ تھا جب دبئی فلائی نامی ظالم سماج کے ایک ہرکارے نے اشک آباد جانے والی پرواز کا اعلان کیا۔ معلوم ہوا وہ حسینہ تو ہم سے دو گھنٹے پہلی والی پرواز میں ہی کوچ کرنے والی ہے۔ ادھر ہمارے دل پر اوس پڑی اُدھرڈمرو نے خوشی کے شادیانے بجائے۔

بہرحال!سترہ ستمبر کی شام ہمیں پانچویں ایشین ان ڈور اینڈ مارشل آرٹس گیمز کی افتتاحی تقریب میں شرکت کرنا تھی۔ افتتاحی تقریب کو سورج غروب ہونے کے بعد آٹھ بجے کے قریب شروع ہونا تھا لیکن منتظمین نے ہمیں تین بجے ہی بس میں بٹھایا اور پولیس کی ایک کار ہمیں اسکارٹ کرتے ہوئے اشک آباد کے اولمپک ویلج تک چھوڑ آئی۔ سیکورٹی اور انتظامی امور کی وجہ سے ہمیں تقریب سے کافی پہلے ہی سٹیڈیم میں پہنچا دیا گیا جس پر ہم کچھ جز بز بھی ہوئے لیکن وہاں پر انتظامات اور مردوزن کی بھیڑ دیکھی تو’’ ٹھنڈپے گئی‘‘۔ اولمپک ویلج میں ہم نے دشمن جاں نمود مسلم، ذوالفقار بیگ، شاکرعباسی اور دوسرے صحافی دوستوں کوبھی ڈھونڈ نکالا۔ پانچ بجے کے قریب ہمیں ایک بار پھر گاڑیوں میں بٹھا کر مرکزی سٹیڈیم تک لایا گیا۔ افتتاحی تقریب میں شرکت کے لئے گویا سارا اشک آباد امڈ آیا تھا۔ بچے، بڑے، مرد، خواتین، نوجوان اوربوڑھے ہر کوئی موجودہ تھا۔ بڑی تعدا د میں سیاہ سوٹوں میں ملبوس سیکورٹی اہلکار روایتی لباس میں ملبوس پھدکتی نوجوان لڑکیوں کو سیدھی راہ پر ڈالنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اب یہ مت پوچھئے گا کہ اس تقریب میں کیا نوجوان لڑکیوں کے علاوہ اور کوئی موجود نہیں تھا؟ ارے بھائی ہماری بلاسے! ہم تو’’ ا اللہ جمیل ویحب الجمال ‘‘کوذہن میں بسائے حسن بے مثال کی حشر سامانیاں دیکھ رہے تھے، اور یہ دیکھ کر ہی سمجھ میں آیا کہ سید سبط حسن، فیض احمد فیض کو اکیلا چھوڑ کر اشک آباد کی سیر کو کیوں گئے تھے۔ مشکل مگریہ تھی کہ ہمیں ایسی کوئی رہنما میسر نہ تھی جو سید سبط حسن کومیسرآئی، اب اس بات پر افسوس کی بجائے اور کیابھی کیا جاسکتا ہے۔

سٹیڈیم میں تقریبا اڑتالیس ہزار افراد کے بیٹھنے کی گنجائش تھی لیکن اس کے باوجود داخلی راستوں پر بہت سے لوگ کھڑے ہو کر تقریب شروع ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔ دنیا بھر سے آئے ہوئے صحافیوں کے لئے سٹیڈیم سے تقریبا پندرہ منٹ کی پیدل مسافت پر میڈیا سنٹر تھا۔ ہم نے مناسب سمجھا کہ پہلے وہاں کا چکر لگا لیں تاکہ انٹرنیٹ کی سہولت سے فائدہ اٹھا کر کچھ صحافتی امور بھی سرانجام دیے جاسکیں۔ میڈیا سنٹر اور سٹیڈیم میں صحافیوں کے لئے پانی، چائے، کافی اور چاکلیٹ کا مفت انتظام کیا گیا تھا اور ہمیں اب تقریب کے خاتمے تک اسی پر گزارا کرنا تھا۔ سات بجے کے قریب ہم دوبارہ سٹیڈیم میں پہنچ گئے۔ چاروں اوڑ نظردوڑائی تو خوبصورت چہرے تقریب کے آغا ز کے مشتاق تھے۔ یہاں پر ڈمرو کی پریشانی کا ایک اور ساماں موجود تھا کہ ہمیں جو نشست میسر آئی اس پر دائیں بائیں اور آگے کی نشستوں پر بھی صنف نازک ہی جلوہ افروز تھی۔ عقب میں دیکھنے کی زحمت اس لئے نہیں کی کہ انسان کو کبھی شکر گزار بھی تو ہونا چاہیے۔

خیر!غروب آفتاب کے وقت سٹیڈیم میں سربراہان مملکت اور حکومت کی آمد شروع ہوگئی، صدر پاکستان ممنون حسین بھی تقریب میں شرکت کے لئے پہنچ گئے اور پھرشام کے سائے گہرے ہوتے ہی آٹھ بج کر سترہ منٹ پر تقریب کا باقاعدہ آغاز ہوگیا۔ تقریب کیا شروع ہوئی سٹیڈیم میں رنگ و نور کا سیلاب امڈ آیا۔ انتظامیہ نے سٹیڈیم میں آنے والے ہر شخص کو اس کی نشست پر ایک لاکٹ فراہم کیا تھا جس میں ایک ننھی سی روشنی نصب تھی اور اس کا کنٹرول تقریب کے منتظمین کے پاس تھا۔ تقریب کے دوران سٹیڈیم کی مرکزی روشنیاں گل کر کے جب ان ننھے برقی قمقموں کو مختلف رنگوں کے ساتھ بدل بدل کرروشن کیا جاتا تو یوں محسوس ہوتا جیسے آسمان پر تارے ٹمٹارہے ہوں۔

اچانک سٹیڈیم میں روشنی کم ہوئی اور ملگجے اندھیرے میں سٹیڈیم کے گراؤنڈ پر صبح صادق کی روشنی پھیل گئی، ترکمانستان کی قدیم پارتھیا تہذیب کے مناظر ہمارے سامنے تھے۔ آسمان کی بلندیوں کو چھوتے ستونوں پر مشتمل قلعے کے مناظر، روایتی جنگی لباس میں ملبوس جنگ و جدل میں مصروف فوج اور فوجیوں کے حوصلے بڑھاتی رجز گاتی رقصاں خوبصورت ناریاں۔ پارتھیا تہذیب ہمارے ہاں اسلام آباد کے قریب ٹیکسلا میں موجود گندھارا تہذیب سے بہت ملتی جلتی ہے اس کا احساس ہمیں تب ہوا جب اس کے نمونے ہمیں سٹیڈیم میں دیکھنے کو ملے۔ روشنی ایک بار پھر کم ہوئی اور ہوا میں معلق چند فنکاروں کی شاندار آتش بازی سے جو روشنی پیدا ہوئی اس نے سٹیڈیم میں موجود سفید رنگ برنگے لباس پہنے ہزاروں فنکاروں کو نمایاں کردیا۔ ایک لمحے کے لئے سٹیڈیم کی روشنیاں گل ہوئیں تو ان فنکاروں کے ہاتھ میں جگمگاتے چاند اور ستارے موجودتھے۔ انہی چاند تاروں کے روشنی میں ہوا میں رقصاں چارجوڑے نمودار ہوئے جنہوں نے ہمیں ہیر رانجھا، سسی پنوں اور سوہنی مہینوال کی محبت یاد دلادی۔

رنگوں اور روشنیوں کا اس قدر حسین امتزاج کہ نہ کبھی دیکھا نہ سنا، تقریب کا سحر حاضرین کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے چکا تھا جب چند لمحوں کے لئے سٹیڈیم کے گراؤنڈ پر اندھیرا چھایا اور پھر اس کے عین درمیان ایک موٹے ستون جیسی گول سکرین ظاہر ہوئی جس پر ترکمانستان کے روایتی لباس میں ایک قد آدم بزرگ نمودار ہوا۔ یہ مرد بزرگ ترکمانستان اور وسط ایشیا کی تاریخ کے سیاسی، سماجی اور سائنسی کارناموں کا ابتدائیہ بیان کرتا اورسٹیڈیم کے گراؤنڈ میں موجود فنکاراس تاریخ کی جیتی جاگتی تصویر بن جاتے۔ سلجوقی خاندان کی فتوحات اور طویل وعریض سلطنت، ابونصر فارابی، موسی الخوارزمی، عمر خیام اورابن سینا کے سائنسی اور ادبی کارناموں کے ساتھ ساتھ ترکمانستان اور وسط ایشیاکی سرزمین سے ابھرنے والی روحانی شخصیات تک ہر چیز کا احاطہ کیا گیا۔ صحرا میں چلتے اونٹوں کے مناظر اور ان کے درمیان روشنیوں میں نہائے فنکار اور خودکار نظام کے تحت سٹیڈیم کے گراؤنڈ میں چکرلگاتے سٹیج پر موسیقی کی مدھر تانوں پرگاتی لچکیلے بدن والی خوب رو گلوکارائیں۔ ماحول نے ہمیں بھی اپنے سحر میں ایسا جکڑا کہ کچھ دیر کے لئے ہماری کمر بھی’’ پرویزی ‘‘ہو گئی۔ یہ مناظر اگر کوئی عالم ارواح میں فیض احمد فیض اور سید سبط حسن کے گوش گزارے توعین ممکن ہے کہ ان کی سانس ہی رک جائے۔

سانس تو سٹیڈیم میں موجود پچاس ہزار سے زائد شائقین کی بھی رک گئی تھی جب سنہرے چمکیلے بد ن والے برق رفتار ی سے دوڑتے گھوڑوں کی پشت پر ترکمانستان کے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں نے کرتب دکھائے، دنیا میں ایسی مہارت شاید ہی کسی اور ملک کے فنکاروں کو حاصل ہو۔ آخر میں ایک خاکے کے ذریعے بہت خوبصورت انداز میں یہ پیغام دیا گیا کہ ترکمانستان اپنے قدرتی وسائل کے ذریعے نہ صرف اپنے ملک کو بلکہ خطے کو بھی روشن اور خوشحال کرنے کا عزم رکھتا ہے۔ اس کے بعد کھیلوں میں شریک کھلاڑی اپنے اپنے ملک کے پرچم کے ساتھ سٹیڈیم میں رونق افروز ہوئے اور پھر چند گھڑ سواروں کی معیت میں ایک شہ سوار کھیلوں کی مشعل لئے گراؤنڈ میں نمودار ہوا۔ گراؤنڈ کے عین وسط میں ایک قدیم قلعے کی گول برجی نمودار ہوئی، شہ سوار برجی پر بنے ڈھلوان راستے کے ذریعے برجی کی چھت پر پہنچا اور گھوڑے کو ایڑ لگائی، گھوڑا اپنی پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہوا اور شہ سوار نے ہاتھ میں پکڑی مشعل ہوا میں معلق اوغوز خان کے ستارے سے ٹکرا دی۔

دو شعلے سٹیڈیم کی چھت کی طرف لپکے جنہوں نے ایک اور شعلے کو جلایا، یہ شعلہ سٹیڈیم کے ایک طرف بنے آسمان کو چھوتے گھوڑے کے مجسمے کی گردن پر رکھی مشعل سے جا ٹکرایا اور اس مشعل کی روشنی پورے اشک آباد میں دیکھی جانے لگی۔ اس کے ساتھ ہی آتش بازی کا ایک شاندار مظاہر ہ شروع ہوا جس نے شائقین کے چہروں پر رونق اوربدن میں جوش بھر دیا۔ میں دیکھ سکتا تھا کہ ترکمانستان کے باسیوں کے چہروں پر اس رونق اور جوش کے پیچھے قوم پرستی کا بے پناہ جذبہ موجودہے۔ کاش میری قوم کو یہ جذبہ میسرآئے تو پھر ہم دیکھیں وہ دن کہ جس کا وعدہ تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).