الباکستانی اور السعودی دماغ الٹ رہے ہیں


سعودی عرب تیزی سے ادھر جا رہا ہے جہاں 60 کی دہائی میں پاکستان تھا اور پاکستان تیزی سے ادھر جا رہا ہے جہاں 80 کی دہائی میں سعودی عرب تھا۔

ساٹھ کی دہائی کے پاکستان کے مناظر پر شاید آج کی نسل کو یقین نہیں آئے گا۔ پاکستان ایک لبرل ملک تھا جو تیزی سے خوشحالی اور ترقی کے زینے چڑھ رہا تھا۔ دنیا کی اہم طاقتوں میں پاکستان کا شمار تھا۔ ادھر جو شخص مذہبی زندگی گزارنا چاہتا، وہ ایسا کر سکتا تھا، جو مغربی طرز زندگی کا شائق تھا، اسے بھی دقت پیش نہ آتی تھی۔ جہاں ایک طرف مساجد آباد تھیں وہیں دوسری طرف نائٹ کلب اور مے خانے بھی مقبول تھے۔ ہر شخص کی مرضی تھی کہ وہ شام کہاں گزارتا ہے۔ اس کے مشاغل پر دوسرا اسے اچھا یا برا تو سمجھ سکتا تھا مگر اس سے مار پیٹ یا قتل و غارت کا تصور تک ممکن نہ تھا۔

مذہب کی طرف لوگوں کا اتنا زیادہ رجحان نہیں تھا کہ سخت گیری کے باعث تنگ نظری پیدا ہو جو آگے چل کر دوسروں کے لئے نفرت اور پھر شدید نفرت سے ہوتے ہوئے دہشت گردی تک جا پہنچے۔ پاکستان فری تھنکنگ کی اس سوچ کی وجہ سے تیزی سے ترقی کر رہا تھا جس کی جڑیں اس خطے کی قدیم روایات میں تھیں۔

اس زمانے میں کاریں اور موٹر سائیکلیں تو خال خال تھیں مگر سائیکل ایک عام سواری تھی۔ لاہور کراچی کی سڑکوں پر خواتین بغیر کسی پریشانی کے سائیکل چلاتی دکھائی دیتی تھیں۔ جدید مغربی تراش کے لباس میں خواتین عام دکھائی دیتی تھیں اور وہ محفوظ تھیں۔ خواتین یا ننھی بچیوں کا ریپ کر کے ان کے لباس کو الزام نہیں دھرا جاتا تھا۔ بے شمار غیر ملکی سیاح پاکستان کا رخ کرتے تھے اور یہاں وہ اپنے مغربی لباس کے باوجود قطعاً محفوظ تھے۔ دیسی اینگلو انڈین لڑکیوں کے سکرٹ بھی کسی کے ایمان کو خطرے میں نہیں ڈالتے تھے۔ کیبرے، نائٹ کلب اور شراب خانے بھی قوم و ملک کو تباہ کرنے کا سبب نہیں سمجھے جاتے تھے۔

اس قدیم زمانے کے پاکستان کو آپ نے اگر آج دیکھنا ہو تو دبئی کا چکر لگا لیں۔

پاکستان کی مثالی معاشی ترقی کو سنہ 1965 اور پھر 1971 کی جنگوں کی وجہ سے شدید زک پہنچی۔ باقی رہی سہی کسر ذوالفقار علی بھٹو کی نیشنلائزیشن کی پالیسی نے پوری کر دی۔ رواداری کو 1979 کا ایرانی انقلاب، سعودی عرب کی نئی مذہبی پالیسی اور افغان جنگ کھا گئی۔ اس زمانے کے پاکستان کی چند تصویری جھلکیاں دیکھ کر پھر سعودی عرب چلتے ہیں (تصاویر کے نیچے مضمون جاری ہے)۔

ماضی کا پاکستان

دوسری طرف سعودی عرب بھی ویسا نہیں تھا جیسا آج دکھائی دیتا ہے۔ 1979 تک مختصر مغربی لباس میں ملبوس عورتیں آزادی سے جدہ اور ریاض میں گھومتی تھیں۔ اس زمانے میں مذہبی پولیس کے شرطے راہ چلتی عورتوں کو ڈنڈے مارنے کو عبادت نہیں سمجھتے تھے۔ پھر ایسا ہوا کہ 1979 میں سخت گیر مذہبی عناصر نے مسجد الحرام پر قبضہ کر لیا جو ایک خونریز کمانڈو ایکشن کے بعد ان سے واپس لیا گیا۔

اب سعودی حکمرانوں کو یہ فکر ہوئی کہ اپنے اقتدار کا ان عناصر سے کیسے تحفظ کیا جائے۔ فیصلہ یہ کیا گیا کہ علما کو اقتدار میں حصہ دیا جائے اور ان سے پوچھ کر پالیسیاں بنائی جائیں تاکہ مذہب کے نام پر دوبارہ بغاوت نہ ہو۔ یوں عورتوں پر سعودی عرب میں پابندی لگ گئی۔ مردوں کو بھی ڈنڈے کے زور پر نیک بنایا جانے لگا اور سعودی عرب ویسا ہو گیا جیسا ہم دیکھ رہے ہیں۔ بدقسمتی سے 1973 کے تیل کے بحران کے بعد سعودیوں کے پاس پیسہ بھی بہت آ گیا تھا۔ شاہ ایران کے زوال کے بعد سعودی امریکہ کے چہیتے بھی بن چکے تھے۔ ایرانیوں اور عربوں میں سیاسی چپقلش تو صدیوں سے تھی، اب سعودی ملا کی ایرانی ملا کے ساتھ مذہبی جنگ بھی چھڑ گئی۔ دونوں نے اس جنگ کے لئے جس میدان کو منتخب کیا اس کا نام پاکستان تھا۔

یوں پاکستان میں ایک طرف سعودی پیسوں سے مدارس اور مساجد تعمیر ہوئیں اور دوسری طرف ایرانی بھی پیچھے نہ رہے۔ جو ملا دوسرے مسلک سے جتنی زیادہ نفرت کا پرچار کرتا تھا اس کو غیب سے اتنے زیادہ پیسے ملنے لگے۔ افغان سوویت جنگ نے دنیا بھر کے مذہبی شدت پسندوں کو پاکستان میں جمع کر دیا اور اس جنگ کے نام پر نوجوانوں کو بھرتی کرنا ایک منفعت بخش کاروبار کا روپ اختیار کر گیا۔ دوسری طرف سعودی عرب کی ریاست اور پاکستانی عوام کو متاثر کرنے کے لئے جنرل ضیا الحق نے قوم کو منافقت کی راہ میں ڈال دیا کہ اعمال چاہے جیسے بھی ہوں، اگر بندہ ظاہری طور پر نورانی صورت اختیار کر لے اور عبادات و وظائف کرے تو وہ جنتی تصور ہو گا اور عبدالستار ایدھی جیسے بھی کفار کہے جائیں گے۔ ہم روادار دیسی پاکستانی سے تنگ نظر الباکستانی ذہن کے مالک بن گئے۔ یوں جو کبھی مباح سمجھا جاتا تھا وہ حرام ٹھہرا۔

دوسری طرف سوویت افغان جنگ کے بعد عرب انتہا پسند جنجگو فارغ ہو گئے تھے۔ انہوں نے سوچا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی سعودی عرب کے خلاف بھی جہاد کر دیا جائے۔ القاعدہ اور اس کے بعد داعش بھی اسی سخت گیر مذہبی نظریے کی بنیاد پر سعودی سرزمین پر دہشت گردی کرنے لگیں جس کی بنیاد پر وہ افغانستان کی حکومت کے خلاف جنگ لڑ رہی تھیں۔

اب سعودی پالیسی نے ایک بڑا شفٹ لیا۔ پہلے 1979 میں اقتدار بچانے کے لئے جس طرح سخت گیر ملائیت کو اختیار کیا گیا تھا، اب اس زہر کا تریاق کرنے کی فکر ہوئی۔ اب وہاں نہ صرف مغربی موسیقی کے مخلوط کنسرٹ ہونے لگے، بلکہ نوجوانوں کو مصروف رکھنے کے لئے یہ اعلان ہوا کہ ہر ویک اینڈ پر شہریوں کی تفریح کے لئے کچھ نہ کچھ پروگرام لازم ہو گا تاکہ رواداری پیدا ہو اور انتہا پسندی سے نفرت بڑھے۔ یوں جو کبھی حرام سمجھا جاتا تھا وہ مباح ٹھہرا۔ پہلے جس دبئی کو اس کے آزاد کلچر کی بنیاد پر برا سمجھا جاتا تھا اب اسی کی پیروی ہونے لگی۔ سیاحوں کو اپنے پاس بلانے کے لئے اب سعودی عرب میں ایسے سیاحتی علاقے تعمیر کیے جا رہے ہیں جہاں وہ مکمل مغربی انداز میں چھٹیوں کا آنند لیں گے۔ نہ ادھر سعودی قوانین چلیں گے اور نہ مذہبی پولیس ہو گی۔ بس ساحل ہوں گے، غسل آفتابی ہو گا اور شام کو شراب و شباب کی محفلیں ہوں گی۔

ویسی ہی کھلی فضا جیسی کبھی پاکستان میں ہوا کرتی تھی اور آج کل دبئی میں دکھائی دیتی ہے اب سعودی عرب میں دکھائی دے گی۔ سعودی عرب کو اِس دنیائے فانی کی قدر ہونے لگی ہے۔ پاکستان اس دنیائے فانی کو بھاڑ میں جھونک کر صرف ابدی دنیا کا سودا کرنا چاہتا ہے۔

کیا اس میں سوچنے والوں کے لئے کوئی نشانیاں موجود ہیں؟ ہمیں تو بنیاد پرست بنانا اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس سے سعودیوں اور ایرانیوں کو اربوں ڈالر زائرین سے ملتے ہیں۔ اور خود اس لئے لبرل بننا ضروری ہو گیا ہے کہ صرف مذہبی زائرین کے ڈالر ہی نہیں، بلکہ سیاحت کے ڈالروں کی بھی چاہ جاگ اٹھی ہے۔ جب تیل مک جائے اور مذہبی انتہاپسندوں سے اپنے اقتدار کو خطرہ ہو جائے تو دماغ کام کرنے لگتا ہے۔

دماغ واقعی کام کرنے لگتا ہے بشرطیکہ دماغ الباکستانی نہ ہو۔ جہاں نہ تیل ہے اور نہ وطن سے محبت۔ پاکستان میں تو بس گیس ہی کی شکایت ہے کہ پاکستان میں انرجی کا سب سے بڑا ماخذ وہی ہے۔ (ختم شد)

ماضی کا سعودی عرب

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar