سوچ کی ٹیکنالوجی کب بدلے گی


اِس کہانی میں ٹوئسٹ اینڈ ٹرنز دونوں ہیں۔ ہم بات شروع کرتے ہیں سن انیس سو نواسی نوے؛ یعنی یہ ذکر ہے ہماری ساتویں یا آٹھویں جماعت کا کہ ایک دن سکول سے واپسی پر راستے میں کسی شخص نے کاغذ کا ایک پرچا تھمایا اور چلتا بنا۔ ہم نے ابھی انسپکٹر جمشید سیریز جیسی کہانیاں پڑھنے کا شوق پالا ہی تھا، یہ کاغذ پڑھنے پر مجبور ہوگئے۔ تحریر خاصی دل چسپ تھی۔ کسی نیک، عرب شیخ کے سپنے میں کسی ایسے بزرگ کی تشریف آوری کا ذکر تھا جو قبل الذکر شیخ سے بھی ذیادہ نیک واقع ہوئے تھے۔ شیخ کو نروان ہوا کہ اس خواب کا دنیا بھر میں پرچار کیا جائے۔ لہٰذا شیخ جی نے یہ خواب دنیا بھر میں چھپوا کر پھیلانا شروع کر دیا۔ عربی زبان میں لکھا گیا یہ قصہ پاکستان پہنچتے پہنچتے کافی شستہ اردو میں ترجمے کے مراحل سے گزر چکا تھا۔ جذبات سے لب ریز تحریر کے آخر پر پڑھنے والوں کے لیے ہدایت تھی کہ بچہ لوگ اسے صرف پڑھنا نہیں اس کی بیس پچیس نقول بنواکر آگے بانٹنی ہیں تاکہ یہ کارِ صالح جاری و ساری رہے۔ نقول بانٹنے والے کے لیے جنت جیسے انعام کی گارنٹی تھی۔ شہد و دودھ کی نہروں کے کنارے سونے کے محل مع حور کے دعوے تھے، لیکن ہدایت پر عمل نہ کرنے والے نے تو جہنم کے پرلے درجے میں اپنا اپارٹمنٹ بک کروا ہی لینا تھا۔ اس کے علاوہ آنے والے چند برس اس فانی دنیا کے بھی مصائب سے پر ہوجانے تھے۔ تحریر پڑھتے پڑھتے نیکی، اچھائی و دین داری کے فرحت بخش جذبات پر ڈر و خوف کے ملے جلے جذبات غالب آچکے تھا۔

قوم کی امنگوں کی غلط ترجمانی ہو چکی تھی۔ ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والے سے ڈرائے جانے کا آغاز ہوگیا تھا؛ گھر پہنچتے ہی والدہ سے بیس روپے طلب کیے تاکہ جلد از جلد فوٹو کاپیاں بانٹ دوں۔ کیوں کہ دوسری صورت میں صرف گھاٹا ہی گھاٹا تھا؛ والدہ کے بیس روپوں سےمتعلق استفسار پر وہ کاغذ کھول کر سامنے رکھ دیا۔ پہلی سطر پر نظر پڑھتے ہی انھوں نے گھبرا کر جلدی سے وہ کاغذ واپس لوٹا دیا، ”ارے، ارے ہٹاؤ اسے، اسے پڑھا تو پھر آگے بانٹے گا کون؟ “ فوٹو اسٹیٹ نقول بنا کر بانٹنے کے لیے رقم تو مل گئی، لیکن ساتھ ہی یہ بھی اچھی طرح سمجھا دیا گیا کہ آیندہ کسی ان جان شخص سے بھلے مٹھائی، چاکلیٹس لے لی جائیں لیکن ایسا کاغذ نہ لیا جائے۔

یہ نصف صدی کا قصہ ہے، دو چار برس کی بات نہیں۔ بزرگوں سے سنا ہے کہ پچاس کی دہائی میں پشاور سے بیرونِ پشاور علاقے باڑہ کے درمیان روزانہ ”باڑے دی بس“ کے نام سے بسیں چلتی تھیں۔ راستے میں کسی مقام جیسے پرانے صدر یا اس کے قریب کہیں بس کچھ دیر کو رکتی تو کہیں سے ایک باریش، سفید لباس میں ملبوس آدمی، چہرے پر سنجیدگی و بزرگی سجائے اور ہاتھ میں کچھ کاغذ لیے بس کے اگلے دروازے سے سوار ہوجاتا۔ خاموشی سے بس کی سیٹوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے وہ ایک ایک پرچا لوگوں میں بانٹتا اور بس کے پچھلے دروازے سے اتر جاتا۔ جن لوگوں کو ان پرچوں کی حقیقت کا علم ہوتا وہ انھیں لینے سے یک سر انکار کردیتے۔ جنھیں یہ پہلی مرتبہ ملتا، اس کا مطالعہ کرتے ہوئے ان کے چہرے پر مختلف قسم کے تاثرات واضح طور پر نظر آتے؛ جیسے۔ تجسس، عقیدت، حیرت اور آخر پہ خوف۔ ان پرچوں پر عرب کے کسی نیک شیخ کا ایسا نصیحت آموز واقعہ لکھا ہوتا، جس کا ثبوت تو شاید کسی کتاب میں نہ ملے لیکن آخر پر اس پرچے کی دس، بیس یا حتیٰ کہ سو تک نقول کروا کے لوگوں میں بانٹنے کی تلقین کی جاتی۔ اس پر عمل کرنے والے کے لیے جنت کا وعدہ، دین و دنیا میں کامیابی کی نوید، اگلی رات تک کسی خوش خبری سننے کا دعویٰ، عمل نہ کرنے والے کے لیے سخت تنبیہہ، اگلے نو دس برس کے لیے بدقسمت رہنے کی ضمانت وغیرہ دی جاتی۔ فوٹو اسٹیٹ مشینیں اس زمانے میں باآسانی مہیا نہیں تھیں، لہٰذا یا تو کاربن پیپر کی مدد سے اس کی نقول بنائی جاتیں یا پھر ارزاں چھاپا خانہ ڈھونڈنا پڑتا کیوں کہ نو دس سال کی ممکنہ مصائب سہنے سے یہ تکلیف سہنا بہرحال بہتر تھا۔

نیا زمانہ آیا، اپنے ساتھ سیل فون لایا۔ سیلولر فون اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں تیزی سے استعمال میں آئے، ان کی ٹیکسٹ میسج سروسز نے پیغام رسانی کو سستا اور ترسیل میں آسان بنادیا۔ اکثر لوگوں کی طرح ایک دن ایک میسج ہمیں بھی ملا، ”یہ اللہ کے دس بابرکت نام ہیں، انھیں فورا دس لوگوں کو فارورڈ کریں اور اگلے چوبیس گھنٹے میں خوش خبری آپ کے قدموں میں، دوسری صورت میں دس برس کے لیے ٹریجڈی سانگز سننے کے لیے تیار رہیں۔ “ پہلی فرصت میں ہم نے اس پیغام کو جلدی سے چند دوستوں کو ارسال کر دیا، اور شکر بجا لائے، سکھ کا سانس لیا۔ تھوڑی دیر گزری ہوگی کہ موبائل کی میسج ٹون سنائی دی؛ کیا دیکھتے ہیں کہ وہی پیغام دھڑا دھڑ واپس آرہے ہیں۔ ہمیں اچانک سن نوے میں والدہ کی کی گئی نصیحت یاد آئی اور اس قسم کے میسج پڑھے بغیر ڈیلیٹ کرنے کا آغاز کردیا۔

زمانے کے انداز بدلے گئے
نیا راگ ہے ساز بدلے گئے

اب سوشل میڈیا سائٹس فیس بک، ٹوئٹر اور موبائل ایپس جیسے وٹس ایپ اور وائبر وغیرہ کا زمانہ ہے، لیکن وہ عظیم پیغامات اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ آج بھی جگ مگ جگ مگ کر رہے ہیں۔ فیس بک، ٹوئٹر پر کہیں آپ نے یہ پیغام دیکھ لیا تو اس کو شیئر کرنا آپ پر واجب، ورنہ آپ کے واجب القتل ہونے میں بھی کوئی عار نہیں۔ وٹس ایپ، وائبر پر آپ کا فرض بنتا ہے کہ آپ ان کو فارورڈ کریں ورنہ آپ کی خیر نہیں۔

زرا ٹھیریے، اب یہی پیغامات آپ کو آڈیو، وڈیو فائلز میں بھی موصول ہورہے ہیں، اور آپ کو اِن فائلز کو فارورڈ کرنا ہے۔ اس قسم کی سچوایشن میں کہیں من کے اندر سے ایک خود کار نظام کے تحت لتا منگیشکر گنگنانے لگتی ہیں کہ ”جائیں تو جائیں کہاں؟ “

زرا غور فرمائیے، جھوٹے قصے کہانیوں کا سہارا لے کر ہمارے اعتقاد کو متزلزل کرنے والے پیغامات ہر زمانے کے جدید ترین ٹیکنالوجیکل ہتھیاروں سے لیس ہو کر وار کرتے رہتے ہیں۔ پیغام رسانی کے لیے کاربن پیپر اور چھاپے خانوں اور پھر زیروکس فوٹو اسٹیٹ مشینوں سے ہوتے ہوئے ایس ایم ایس کو پھلانگتے ہوئے سوشل میڈیا اور موبائل ایپس کی جدید ترین سہولیات کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ جدید ترین کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کو استعمال میں لا رہے ہیں، اور دوسری طرف ہم جاہل ہاتھ میں آئی فون، سام سنگ جیسے ہائی ٹیک موبائل تھامے پاگلوں کی طرح یہ میسج فارورڈ کرتے رہتے ہیں۔

سائنس کی بنیادوں پر جدید ترین آلات ایجاد کے مراحل سے گزر کر ہمارے ہاتھوں میں کھلونا بنے ہوے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم کِن کے ہاتھوں میں کھلونا بنے ہوئے ہیں؟ سائنسی ٹیکنالوجی روز بروز ترقی کر رہی ہے، بدل رہی؛ سوال یہ ہے کہ سوچ کی ٹیکنالوجی کب بدلے گی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).