ٹماٹر اور بیگم کا ساتھ ضروری ہے


ٹماٹر ہرا ہو یا لال اگتا ٹماٹر کے پودے پر ہی ہے۔ اسے توڑنا ہو تو پودا لگانا پڑتا ہے اور خریدنا ہو تو سبزی والے کی صدا سننی پڑتی ہے۔ پیٹ بھرے یہ بحث کرتے پائے جاتے ہیں کہ ٹماٹر سبزی ہے یا پھل؟ مگر سبزی والوں کو کبھی اس کی فکر نہ رہی کیونکہ ٹماٹر کبھی ان سے بے وفائی کرکے پھلوں کے ٹھیلے پر نہیں گیا۔

بچپن میں ہم ٹماٹر صرف سردیوں کے موسم میں دیکھتے تھے اب یہ موسموں سے بےنیاز ہر وقت ہانڈیوں میں گرنے اور سلاد کی پلیٹوں میں سجنے کے لئے تیار نظر آتا ہے۔ ہر سبزی کے ساتھ تعلقات استوار کرلیتا ہے یہاں تک کہ مشروبات میں بھی اس کا مستقل اٹھنا بیٹھنا ہے۔ پینے والے جانتے ہیں کہ ووڈکا کے ساتھ ٹماٹری جوس کتنا خوش وخرم اور ٹٗن رہتا ہے۔

پاکستان میں ٹماٹر کے پودے ہی دیکھے مگر یہاں کینیڈا میں اسے اپنے کچن گارڈن میں لگایا تو احساس ہوا کہ یہ بیل کی طرح سہارے ڈھونڈتا ہے۔ ٹماٹر کی ہر براعظم میں پہنچ ہے اور ہر وہ شخص جو منہ رکھتا ہے ٹماٹر کو منہ لگانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔ یہ ہرے پرچم کے بھی قریب ہے اور لال پرچم تو وہ مرنے تک جسم سے لگائے رکھتا ہے۔

ٹماٹر کا جسم ورزش کی پہنچ سے آزاد ہے اسے کبھی اپنی کمر کی فکر نہیں کیونکہ وہ زبانی اعتبار سے مذکر ہے اور یوں گول مٹول ہوتا ہے، لمبوترا بھی، بھاری بھرکم بھی اور چھوٹا بڑا بھی۔ اپنی ہی جِلد سے چپکا رہتا ہے اور بیجوں سے اپنا پیٹ بھرا رکھتا ہے۔ بہ ظاہر نرم رسیلا مگر اس کے چھلکے اور بیج ہضم کرنا حضرتِ انسان کی بس کی بات نہیں اور اس کا ثبوت ہر کموڈ فراہم کردیتا ہے۔

ٹماٹر کھانے سے کوئی نہیں مرتا مگر ٹماٹر پر سب مرتے ہیں۔ اسے غریبوں کا سیب کہا جاتا ہے مگر جب بھی مہنگا ہوتا ہے غریب ہو یا امیر سب کےلئے آسیب بن جاتا ہے۔ محبوبہ جب بھی تعریف سنتی یا عملی طور پر محسوس کرتی ہے اس کے گال ٹماٹر کی طرح لال ہوجاتے ہیں۔

نظر ٹھیک رکھنی ہو تو بیگم کے علاوہ ٹماٹر کا ساتھ ضروری ہے کیونکہ ٹماٹر میں وٹامن اے اور بیگم میں آئرن پایا جاتا ہے جس سے نظر اور نیت کافی درست رہتی ہے۔ نئی ریسرچ کہتی ہے کہ ٹماٹر کینسر سے بچاؤ میں بھی مددگار ہوتا ہے مگر ٹماٹر کو آڑھتیوں سے کون بچائے جو نظر کے سامنے اس کے بھاؤ آسمان پر پہنچادیتے ہیں اور قدرت، محنت اور اینگرویوریا منہہ دیکھتی رہ جاتی ہے۔ ٹماٹر سنا ہے موٹاپے اور شوگر کے مریضوں کے لئے بھی فائدہ مند ہے اس جملے میں یہ بھی اضافہ کرلیں کہ بقرعید اور محرم کے اسلامی مہینوں میں یہ منافع خوروں کےلئے بھی فائدہ مند ہے۔
ٹماٹر کا استعمال کوئی پاکستانیوں سے سیکھے۔ یہ ہر اس چیز میں ڈال دیا جاتا ہے جسے ہم شوربہ، سالن یا گریبی کہتے ہیں چاہے گوشت پکایا جارہا ہو، مچھلی، سبزی یا بھیجہ۔ پانی اور تیل کے بعد ٹماٹر ہمارے ہر رسیپی کا لازمی جز ہے۔ جہاندیدہ شوہر تکرار سے بچنے کے لئے جب بھی سبزی خریدنے جاتا ہے ٹماٹر ضرور خرید لاتا ہے چاہے بیگم نے کہا ہو یا نہیں۔

ٹماٹر میں سڑنے گلنے کی عادت ہوتی ہے جو جانوروں کے کام آجاتی ہے۔ وہ ان کی خوراک کا حصہ بن کر راندۂ درگاہ ہونے سے بچ جاتا ہے۔ انگریز ٹماٹر کو بیک کرکے اور دھوپ میں سکھا کر بھی کھاتے ہیں۔ ہم سلاد کے علاوہ ہر جگہ ٹماٹر کو اس طرح ملیامیٹ کردیتے ہیں کہ اس کے گٗن ختم صرف ذائقہ رہ جاتا ہے۔

جن دنوں ٹماٹر مارکیٹ سے غائب اور قیمت میں سونے کو بھی پیچھے چھوڑ جاتا ہے ان دنوں ”پکوانی خواتین“ کی تڑپ دیدنی ہوتی ہے۔ وہ اسے اپنا اسٹیٹس سیمبل سمجھتی ہیں کہ اس ”بحرانی کیفیت“ میں ٹماٹر ان کے کچن اور ڈائننگ ٹیبل پر نظر آئے چاہے اس شوبازی میں مرد کی جیب خالی کیوں نہ ہوجائے۔

ٹماٹر سے نفرت صرف سیاست دان کرتے ہیں اور ان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ٹماٹر ہمیشہ مہنگے رہیں تاکہ جلسے گاہوں میں ان پر استعمال نہ کیا جاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹماٹر لاکھ مہنگا ہوجائے سیاست دان کبھی اس پر بیان نہیں دیتا۔ ٹماٹر اپنے اس سیاسی پہلو پر کبھی نادم بھی نہیں ہوتا کیونکہ اسے برے لیڈران کو نادم دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔

سبزی والے بھی اپنے آپ کو تب سنار محسوس کرتے ہیں جب ٹماٹر کے دام چڑھے ہوں۔ ان دنوں ان کے چہرے پر بھی ٹماٹر جیسی لالی جھلکتی ہے۔ ٹماٹر کو لٹیروں اور گلی کے چوہارے جیسے لفنگوں سے یوں بچائے پھرتے ہیں جیسے ٹماٹر نہ ہوا کوئی کنواری دوشیزہ ہوگئی۔

صد شکر میں ایسے ملک میں رہتا ہوں جہاں ٹماٹر جیسے گالوں اور خود اصلی ٹماٹروں کا کوئی قحط نہیں۔ بلکہ ٹماٹر ٹن پیک میں ہمہ وقت دستیاب رہتا ہے۔ گرمیوں میں ہر گھر کے بیک یارڈ میں سب سے زیادہ ٹماٹر اگتے ہیں۔ اگر ان دنوں کوئی میرے گھر آکر مفت ٹماٹر کھانا چاہے تو بندہ حاضر، پارسل کا کوئی انتظام نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).