ڈرائیونگ کا حق، سلگتا ہوا سگریٹ اور شخصی آزادی


ایک لمبے عرصہ تک سعودی عرب کو دنیا کا وہ واحد ملک ہونے کا اعزاز حاصل تھا جہاں خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت نہیں تھی۔ مگر چند روز قبل سعودی عرب کے فرمانروا سلمان کے جاری کردہ ایک حکم نامے کے نتیجہ میں سعودی عرب اس اعزاز سے رضاکارانہ طور پر محروم ہو گیا ہے۔ ملک میں خواتین کی ڈرائیونگ پر سے پابندی اٹھانے سے متعلق قواعد و ضوابط کی تیاری کا آغاز کر دیا گیا ھے اور اگلے جون تک شاہی فرمان پرعمل درآمد مکمل کر لیا جائے گا۔ امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اس اقدام پر سعودی عرب کو مبارکباد پیش کی ہے۔ سماجی رابطے کی متعدد ویب سائٹس جن میں ٹویٹر اور فیس بک بھی شامل ہیں، کے استعمال کنندگان جن میں اکثریت خواتین کی ہے، نے سعودی عرب کی خواتین کو موٹر کار چلانے کا حق ملنے پر مسرت کا اظہار کیا ہے۔ اس خبر کی بین الاقوامی اخبارات اور نشریاتی اداروں نے نمایاں تشہیر کی ہے۔

بظاہر یہ واقعہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ریاست اور اس کے شہریوں کے درمیان کسی مسئلہ پر پائے جانے والے اختلافات کا جلد یا بادیر حل نکل آتا ہے۔ عورت اور مرد کی تفریق کو ایک طرف رکھتے ہوئے ہم اگر خواتین کی ڈرائیونگ پر پابندی اٹھنے کے معاملہ کا بغور جائزہ لیں تو ہمیں اس کے تانے بانے انسانی جبلی رویوں میں ملتے نظر آئیں گے۔ انسان جبلی طور پر شخصی آزادی کی جانب مائل ہے۔ معاشرہ چاہے مذہبی ہو یا سیکولر، یہ جبلت اپنے اظہار کا وسیلہ تلاش کر لیتی ہے۔ شخصی آزادی کی اسی جبلت کے زیراثر سعودی عرب میں، جہاں قانون شکنی کی سزائیں فوری اور کڑی ہیں، خواتین عرصہ دراز سےگاڑی چلانے کا حق مانگ رہی تھیں۔ اس حق کے حصول کے لئے خواتین کھلے عام گاڑی چلا کر ڈرائیونگ پر پابندی کے خلاف احتجاج رقم کراتی رہی ہیں۔ شخصی آزادی کیونکہ ایک جبلی رویہ ہے اس لیے اس کی حدود و قیود طے کرنا ناممکن ہے۔

اکیسویں صدی میں ایسے ترقی یافتہ معاشروں، جہاں فرد کی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے اس حق کو آئینی اور قانونی تخفظ فراہم کیا گیا ہے، میں بھی شہری اپنی مخصوص انفرادی آزادیوں کے حصول کے لیے مذاکرات اور احتجاج کا راستہ اپناتے ہیں۔ ماضی قریب میں اس کا اظہار ہم امریکہ میں حکومت کی جانب سے بعض ممالک کے شہریوں پر لگائی جانے والی سفری پابندیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر ہونے والےعوامی مظاہروں کی صورت میں دیکھ چکے ہیں۔ آسٹریلیا میں ان دنوں ہم جنسیت کے رشتہ میں بندھے افراد کے تعلق کو قانونی تحفظ فراہم کرنے سے متعلق عوامی رائے جانچنے کے لیے ایک سرکاری سروے کیا جا رہا یے۔ آسٹریلیا میں اس وقت دائیں بازو کی پارٹی حکومت برسراقتدار ہے جس کے بیشتر ارکان ہم جنس افراد کے درمیان ازدواجی تعلق کو قانونی تحفظ دینے کے خلاف ہیں۔ لیکن عوامی دباؤ اور ہم جنس برادری کے مسلسل احتجاج کے باعث حکمراں جماعت کو مجبورا سروے کا راستہ اپنانا پڑا ہے۔ بعض اوقات شخصی آزادی کو قانونی دفعات یا تعزیرات صلب نہیں کرتی بلکہ ان کا گلا مروجہ معاشرتی اقدار گھونٹتی ہیں۔

چند یفتے پہلے پاکستانی اداکارہ ماہرہ خان کی سوشل میڈیا پر چند خوبصورت تصاویر نظر آئیں جن میں وہ ایک معمول کا مغربی لباس زیب تن کیے ہوئے اور اپنی انگلیوں میں ایک سلگتا سگریٹ دبائے ایک بھارتی فلمی اداکار کے ساتھ نظر آرہی تھیں۔ ماہرہ خان کا لباس، سلگتا سگریٹ اور بھارتی فلمی اداکار کی صحبت جہاں شخصی آزادی کا اظہار تھا وہاں وہ مروجہ معاشرتی اقدار کی خلاف ورزی بھی تھی۔ لیکن اداکارہ کے یہ دونوں افعال غیرارادی تھے کیونکہ انہوں نے کسی طے شدہ منصوبے کے تحت رائج معاشرتی اقدار کو جلتے سگریٹ سے آگ لگانے کی کوشش نہیں کی۔ تصویر کے سوشل میڈیا پر ظہور سے لیکن جس گرما گرم بحث نے جنم لیا وہ فرد کی آزادی کے گرد ہی گھومتی تھی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ہمیں ماہرہ خان کی نازک انگلیوں میں دبے سلگتے سگریٹ’ مغربی پہناوے اور بھارتی اداکار کی صحبت کا شکرگزار ہونا چاہیے جس نے فرد کی آزادی سے متعلق بحث میں جان ڈالی۔ بات مشرق وسطی سے شروع ہوئی تھی لیکن پوری دنیا سے گھوم کر پاکستان پر آ کر ٹھہری ہے۔ کیا کریں جب بات فرد اور اس کی آزادی کی ہو تو پھر اس کو جغرافیائی حدود میں قید نہیں کیا جا سکتا۔

سعودی عرب میں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت ملنے سے وہاں شخصی آزادی کا باب مکمل نہیں ہوگا۔ کیا پتہ، یہ سلسلہ آگے چل کر انفرادی بینک اکاؤنٹ کھلوانے اور بیرون ملک اکیلے سفر کے حق سے ہوتا ہوا سلگتے سگریٹ تک جا پہنچے۔ انسانی معاشروں کی ترقی شخصی آزادی سے اس طرح جڑی ہے جس طرح آنکھ سے بینائی۔ فرد کی آزادی کے بغیر معاشرہ اپنی بینائی کھو دیتا یے اور اسے کسی بینا معاشرے کے کندھے کا سہارا لے کر چلنا پڑتا ہے۔ اکیسویں صدی میں مغربی اور اسلامی ممالک بینا اور نابینا معاشروں کی ایک عملی مثال پیش کرتے ہیں۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو اسے بینا معاشروں کی صف میں کھڑے ہونے کے لیے شاید ہر شعبے میں سلگتے سگریٹ کا عمل جاری رکھنا پڑے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).