مل کر چلیں گے ؟


’ہمیں اپنا گھر درست کرنا ہوگا‘ پاکستان کے موجودہ وزیر خار جہ خواجہ آصف کے ان الفاظ نے نہ صرف ملک میں ، بلکہ حکمران جماعت کے اندر بھی ایک نئی بحث کو جنم دے دیا ہے۔ خواجہ آصف کا یہ نقطہ نظر ہمارے سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار کو بہت گراں گزرا، انہوں نے اس بیان کو ملکی مفاد کے خلاف قرار دے دیا بلکہ وزیر خارجہ کو مستقبل میں احتیاط برتنے کا مشورہ بھی دے ڈالا، چوہدری نثار کے انٹرویو کے بعد ملک کے موجودہ وزیر داخلہ احسن اقبال نے اپنا وزن خواجہ آصف کے پلڑے میں ڈالتے ہوئے ان کے موقف کی بھرپور تائید کر دی،اسکے بعد بھی اگر کوئی کسر بچی تھی تو اسے وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی کے اس بیان نے پورا کر دیا جس میں انہوں نے اپنے گھر کی صفائی کو وقت کی اہم ضرورت قرار دے دیا،

اس سب میں ایک اہم بات تو یہ نظر آئی کہ مسلم لیگ ن کی قیادت جو ہائوس ان آرڈر کرنے کی بات کر رہی ہے ان کی اپنی سیاسی جماعت میں سب کچھ ان آرڈر نہیں لگ رہا، اگر ایسا ہوتا تو یقینا ایک اہم قومی سلامتی کے ایشو پر ان کی پارٹی کی سینئر ترین قیادت اس طرح ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کرتی نظر نہیں آتی، بہت سے لوگوں کی نظر میں شاید یہ بیان بازی پارٹی قیادت کی مختلف شخصیات کے مابین کسی پرانی عداوت کا شاخسانہ ہے، اگر ایسا ہے تو یقیناََ یہ پاکستان مسلم لیگ ن کے لئے خطرے کی بات ہے کہ اس کے کچھ لیڈر اپنے ذاتی جھگڑوں کی بنیاد پر قومی سلامتی کے ایشو پر غیر ذمہ دارانہ بیان بازی کر رہے ہیں۔

لیکن میری نظر میں مسئلہ صرف اتنا ہی نہیں ہے۔ حالات و واقعات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ چوہدری نثار جو بات کر رہے ہیں وہ دراصل ہمارے ملک کے دفاعی اداروں کا موقف ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ چوہدری نثار کے افواج پاکستان سے ہمیشہ اچھے مراسم رہے ہیں،، انکے خاندان کے بیشتر افراد افواج پاکستان میں سرو کر چکے ہیں، چوہدری نثار بیشتر مواقع پر اس قربت کا اظہار بھی کر چکے ہیں،، اس تمام صورتحال میں ان کے انٹرویو میں دئیے گئے موقف کو اس پہلو سے بھی دیکھنے کی ضرورت ہے، ایسا محسوس ہوتا ہےکہ پارٹی فورم پر اپنا گھر صاف کرنے کی پالیسی کی مخالفت کرنے کے بعد جب انہیں ایسا محسوس ہوا کہ انکی بات نہیں سنی جا رہی تو انہوں نے کسی پبلک فورم پر اپنی رائے کا کھل کر اظہار کر دیا، یاد رہے کہ جب ڈان لیکس کا معاملہ اٹھا تھا تو تب بھی چوہدری نثار نے سخت رویے کا مظاہرہ کرتے ہوئے خبر کے لیک ہونے کے خلاف سخت ایکشن لینے کا وعدہ کیا تھا،اس خبر میں بھی سرل المیڈا نے اپنے ذرائع کے توسط سے حاصل ہونے والی معلومات کو استعمال کرتے ہوئے یہ بتایا تھا کہ ملک کی سول قیادت نے فوجی قیادت کو یہ بات کھل کر بتا دی ہے کہ اگر ہم اپنے گھر کو درست نہیں کریں گے تو بین الاقوامی طور پر ہمیں تنہا کر دیا جائے گا۔

ڈان کی خبر سے اس تاثر کو تقویت پہنچی کہ پاکستان کی عسکری اور سویلین قیادت کے مابین اس معاملے پر ایک بڑی خلیج موجود ہے، اس سب کو مد نظر رکھتے ہوئے چوہدری نثار کے بیانات کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے، کیا انکے بیانات سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اس معاملے پر اب بھی سول اور عسکری قیادت کے موقف میں ہم آہنگی نہیں ہے؟ یہ معاملہ بہت اہم اس لئے بھی ہے کہ جب ہماری سویلین لیڈرشپ یہ کہتی ہے کہ ہمیں بھی اپنے گھر کو درست کرنے کی ضرورت ہے تو وہ کن افراد یا گروہوں کے خلاف کارروائی کرنا چاہتے ہیں؟ کیا بات صرف افغانستان میں دراندازی کرنے والوں تک محدود رہے گی یا پھر ایسے گروہوں کے خلاف بھی کارروائی عمل میں لائی جائے گی جن سے ہمارے دوسرے ہمسائیوں کو بھی شکایات ہیں؟ کیا سویلین حکومت کا مقصد افغانستان میں مسائل پیدا کرنے والے حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی تک محدود ہے ؟ اور اگر اس سے بڑھ کر کچھ اقدامات کرنا مقصود ہیں تو کیا پھر کشمیر ی جہادی تنظیموں کے خلاف بھی کریک ڈائون کیاجائے گا؟ کیا فرقہ وارانہ کارروائیوں میں ملوث افراد اور تنظیموں کو بھی اس ایکشن کے دائرہ کار میںلایا جائے گا؟

یہ سب ایسے سوالات ہیں جن کے جواب ابھی تک سویلین قیادت کی طرف سے نہیں دئیے گئے لیکن اہم حکومتی عہدیداران کے بیانات سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ ان تمام تنظیموں کے خلاف بیک وقت کارروائی کرنے کی حکمت عملی ترتیب دی جا رہی ہے،، سویلین لیڈرشپ کا خیال ہے کہ اس طرح کے اقدامات سے ہم عالمی برادری کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے پاکستان شدت پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے سلسلے میں نہ صرف اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہے بلکہ انہیں احسن طریقے سے پورا کرنے میں بھی سنجیدہ ہے،، یقیناََ اگر حکومت ان تمام باتوں پرعمل کر لیتی ہے تو خارجی سطح پر اسے کافی کامیابی ملنے کی توقع ہے، لیکن داخلی طور پر اس حکمت عملی سے حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے،اس سلسلے میں سب سے زیادہ مزاحمت کا سامنا حکومت کو کشمیری مجاہدین کے کیس میں کرنا پڑسکتا ہےاور شاید یہی وہ اہم ایشو ہے جس پر عسکری اور سویلین قیادت کے مابین اتفاق نہیں ہو پا رہا۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عسکری اداروں کی نظر میںکشمیر میں جہاد کرنے والے افراد اور تنظیموں سے یکسر روابط توڑنا یا پھر انہیں بالکل سائیڈ لائن کر دینا ملکی مفاد میں نہیں ہے۔اس تھیوری کو سابق افسران کے ان بیانات سے بھی تقویت ملتی ہے جس میں انہوں نے کشمیری مجاہدین کو مین اسٹریم میں لانے کے منصوبے کا ذکر کیا ہے۔ انہی سابق افسران کے مطا بق ا س وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو باقاعدہ اس سلسلے میں تجویز بھی پیش کی گئی تھی جسے نواز شریف نے رد کر دیا تھا۔ لیکن این اے ایک سو بیس میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں ملی مسلم لیگ کی شمولیت سے کچھ اور ہی تاثر ملتا ہے۔ اور مو جو دہ صو رتحا ل روز بروز بگڑتی نظر آرہی ہے امر یکی کا نگریس اور سینیٹ کے ارا کین پا کستا ن کی سلا متی کے خلاف جو زبا ن استعما ل کررہے ہیں وہ انتہا ئی خطر نا ک ہے ۔کیا ہم اس تما م صورتحال کا مقا بلہ کر نے کے لیے تیا ر ہیں یا ہما رے با ہمی اختلا فا ت ہمیں بہت بڑا نقصا ن پہنچا سکتے ہیں ؟اس کا فیصلہ سو یلین اور عسکر ی ادارو ں کو مل بیٹھ کر فو ری کر نا ہو گا ۔جنر ل قمر جا وید با جو ہ نے جو کہا اس کو بغور سمجھنا ہو گا ’’ہما را اوڑھنا بچھو نا پا کستا ن ہے جا ن بھی یہیں دیں گے مل کر چلیں گے تو آسما ن کی بلند یو ں کو چھُو لیں گے‘‘۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

افتخار احمد

بشکریہ روز نامہ جنگ

iftikhar-ahmad has 17 posts and counting.See all posts by iftikhar-ahmad